30جولائی کوممنون اور وجیہہ کا
دنگل سجے گا...؟پاکستان کے صدراتی انتخاب سے پی پی پی کا بائیکاٹ ....
اگرچہ گزشتہ پانچ سال تک ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام کے سینوں پر قدم رکھ کر
حکومت کرنے والی ہماری سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سمیت اِس کی
جھولی میں پڑیں اتحادی جماعتیں پاکستان مُسلم لیگ (ق)،عوامی نیشنل پارٹی
اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے30 جولائی کو مُلک میں ہونے والے صدارتی انتخاب
کاشیڈول تبدیل کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کا
اعلان کردیااور اپنے اِس اقدام پر اِدھر اُدھر بغلیں جھانکتے ہوئے یہ موقف
پیش کیاہے کہ’’ن لیگ ، سُپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کا گٹھ جوڑ سامنے آگیاہے،
نئے صدر کو تسلیم نہیں کریں گے، اٹھارھویں ترمیم کو رول بیک کیاجارہاہے
اوراِس نے ایسا بہت کچھ کہاہے، یوں اِس کے اِس انوکھے اعلان کی وجوہات بھی
سب جان گئے ہیں کہ اِس نے یہ قدم کیوں اٹھایاہے...؟ بہرحال..مجھے یہاں اِس
بحث میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ آج کون ایساہوگا...؟جو اِس کے
اِس اقدام سے متعلق واقف نہ ہو،اَب یہ اپنی صفائی میں کچھ بھی کہتی رہے کون
یقین کرے گا، کیوں کہ قوم یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اِس نے قبل ازوقت یہ
سمجھ لیا ہے کہ اَب اِس کی دل گلنے والی نہیں ہے، اِسے تو کوئی بہانہ چاہئے
تھا جو قسمت سے اِس کے ہاتھ آگیااور اِس نے فوراََ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر
تیس جولائی کو ہونے والی صدارتی انتخاب سے بائیکاٹ کرکے اپنی عزت کا بھرم
رکھ لیا ہے۔
صدارتی انتخاب سے پی پی پی کے بائیکاٹ کے بعد پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کے
صدراتی اُمیدوارممنون حُسین اور پاکستان تحریک انصاف کے اُمیدوار جسٹس (ر)
وجیہہ الدین احمدکے درمیان 30جولائی کو ون ٹوون دنگل سجے گا،جس سے متعلق پی
ٹی آئی کے اُمیدوار وجیہہ الدین کا کہنا ہے کہ ضمیرکے مطابق ووٹنگ ہوئی
تومیں جیت سکتاہوں،توکیا بصورتِ دیگر نتائج کو تسلیم کرناہوگا ...؟اگر
ایساکر لیا تو یہ ایک خوش آئندہ امر ہوگا، اور اگر ایسا نہیں کیا تو مُلک
نئے بحرانوں کی طرف چل نکلے گا۔جبکہ راقم الحرف کے نزدیک پی پی پی کا
صدارتی انتخاب سے بائیکاٹ کے بعد ایسالگتاہے کہ جیسے بھٹوسیاست کا مستقبل
خطرے میں پڑسکتاہے، اور اگلے پانچ سالوں کے دوران پی پی پی کی ملک گیرسیاسی
کارکردگی محدود ہوکررہ جائے گی اور اِس طرح یہ خود پر کئی حوالوں سے سوالیہ
نشانا ت بناجائے گی، راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں پی پی
پی کو صدارتی انتخاب سے یوں بائیکاٹ نہیں کرناچاہئے تھا۔
جبکہ اُدھرہماری مُلکی سیاست میں حیرت انگیزی اُس وقت سامنے آئی جب حکمران
جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک وفد کی متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزنائن
زیروآمدہوئی اور اِس دوران مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے اور مُلک میں
جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)
کے کراچی سے تعلق رکھنے والے صدارتی اُمیدوار ممنون حُسین کی حمایت کرنے کا
اعلان کرکے ممنون حُسین کو ممنون کردیا،یوں مُلکی سیاست میں ایک ایسایوٹرن
آیا ہے جو آنے والے دنوں میں مُلک سیاست میں کئی حوالوں سے کارآمد ثابت
ہوگا۔
اگرچہ ن لیگ اور متحدہ کی اِس بغل گیری سے کئی سیاسی حاسدین کے کلیجے پھٹ
گئے ہوں گے، اور اِن کے سینوں میں لاوااُبل پڑاہوگا، جو شاید اِن سے برداشت
نہ ہو، اور یہ کبھی بھی اِن کے سینوں کو پھاڑکر باہر نکل آئے، مگر اَب اِس
سے بچنان لیگ اور متحدہ کاکام ہے کہ یہ سیاسی حاسدین کے اِس لاوے سے کس طرح
بچتے ہیں اور اِن کے سینوں سے نکلنے والے اِس لاوے سے اِنہیں خود جلنے اور
بھسم ہونے پر کیسے مجبورکرتے ہیں، کیوں کہ میراخیال یہ ہے کہ سیاست کے
میدان میں ہر چیزممکن ہے، اِس میدان میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو کبھی
دوست ہوتے تھے ، وہ اِس میدان میں دشمن بن جاتے ہیں اور اِسی طرح جو ماضی
میں دشمن ہوتے تھے وہ دوست بن جاتے ہیں آج اگر ن لیگ نے متحدہ کو اگلے
لگایاہے تو کوئی بُرانہیں کیا،سیاست پاکستانی ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے
کی ہر جگہہ ایساہی ہوتاہے،آج جیساہمارے یہاں ہواہے۔
آج میں موضوع کے اعتبار سے اپنے کالم میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم ؒ کے
اُن دواقوال کوبیان کرناچاہوں گاجو ہمارااحتساب کرنے کا پیمانہ ثابت ہوسکتے
ہیں اگرچہ آج ہم اِن اقوال کا حقیقی معنوں میں خود پر اطلاق کرلیں تو ہم
دنیا کی ایک عظیم قوم بن کر اُبھرسکتے ہیں اول یہ کہ ایک موقع پر قائد اعظم
نے فرمایاتھاکہ ’’اے نوجوانو!خدمت، ہمت اور برداشت کے سچے جذبات کا اظہار
کرو، اور ایسی شریفانہ اور بلندمثالیں قائم کروکہ آپ کے ہم عصر اور آنے
والی نسلیں آ پ کی پیروی کریں‘‘اور دوئم یہ کہ’’میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ
آپ کے ضمیر سے بڑی کوئی قوت روئے زمین پر نہیں ہے،میں چاہتاہوں کہ جب آپ
خداکے روبروپیش ہوں تو آپ پورے اعتمادسے کہہ سکیں کہ میں نے اپنافرض
انتہائی ایمان داری، وفاداری اور صمیمِ قلب سے انجام دیاہے‘‘مگرافسوس کے
ساتھ مجھے یہ کہناپڑرہا ہے کہ66/65 سالوں کے طویل عرصے کے دوران ہم اپنے
قائد کے اِن اقوال پر پورانہیں اُترسکے ہیں،آج اگرہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ
کر اِسے ٹٹولیں تو ضمیر کی ایک یہی آوازآئے گی ،کہ ہم قائداعظم کے اقوال کو
پسِ پست ڈال کر اُس سمت میں چل رہے ہیں جہاں ہماری تباہی وبربادی
ہماراتماشہ دیکھنے کو ہے،اور ہم اِس خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ ہم اپنی منزل
پانے کو ہیں ،جبکہ ایساہرگز نہیں ہے جیساہم سوچ رہے ہیں۔
بہرکیف!ابھی وقت ہے کہ ہم خود کو سنبھالیں اور قائد اعظم کے اِن اقوال میں
خود کو ڈھال لیں تو ہم اپنا آج اور کل بہتربناسکتے ہیں۔اور اِسی طرح میں نے
ایک جگہہ پڑھاتھا کہ دنیا کی تہذیب یافتہ اقوام سے تعلق رکھنے والے
سیاستدان اور ہر فرد اِس کلیئے کو اپنی ترقی اور خوشحالی کا زینہ سمجھتاہے
کہ ’’ اجتماعی ترقی کے لئے ہر فرد کو معمولی آدمی کی سطح سے بلند
ہوناپڑتاہے‘‘مگرآج افسوس ہے کہ ہم تو اِس چھوٹے سے کلیئے سے بھی عاری ہیں ،
ہم تو اِس پر بھی عمل نہیں کرسکے ہیں، اورشاید یہی وجہ ہے کہ ہم پستی اور
گمنامی کی جانب تیزی سے سفرکررہے ہیں، آج اور ابھی وقت ضائع کئے بغیر
موجودہ حالات میں ہمیں بھی دنیامیں اپنی پہنچان اور اپنا آپ منوانا ہے تو
ہمارے سیاستدانوں اور عوام کو اِس کلیئے پر بھی عمل کرنالازمی ہوگاورنہ ہم
یوں ہی زمین پر بوجھ بنے رہیں گے اور ہماری وجہ سے ہی دنیا مسائل کا شکار
ہوتی رہے گی۔
سیاست سے متعلق دانا کہہ گئے ہیں کہ ’’اگرکسی قوم کو پرکھناہے تواِس قوم کے
سیاست دانوں کے کردارکوپرکھو‘‘ اَب اِس ترازو نما جملے میں ہمارے سیاستدان
کواپنے آپ کو پہلے پرکھناچاہئے کہ وہ اپنے قول وفعل اور کردار وعمل سے قوم
کی دنیا میں کیا اور کیسی پہچان رکھتے ہیں، اِس سے متعلق میں کچھ نہیں کہوں
گا، میں نے یہ صوابدید ی اختیار اپنے سیاستدانوں پر چھوڑاکہ وہ خود بتائیں
کہ اِن کا دنیا کے سامنے کردار کیساہے...؟اور آئندہ کیساہوناچاہئے...؟یہاں
مجھے ایک دانا کا یہ قول یادآگیا ہے کہ ’’چندکڑوے سچ تسلیم نہ کئے جائیں تو
بہت سے سوال جواب طلب اور مسائل حل طلب رہ جاتے ہیں‘‘آج ہماری پستی اور
زوال کا ایک بڑاسبب یہ بھی ہے کہ ہم نے اورہمارے سیاستدانوں نے سچ کے
چندکڑوے گھونٹ برداشت کرنے چھوڑدیئے ہیں ،جن کی وجہ سے بھی ہمارے مسائل میں
اضافہ ہواہے اور ہم بحرانوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں،اَب یہاں سوال
یہ پیداہوتاہے کہ کیاہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور ہم میں نیک نامی اور
خلوص نیت کی کمی ہے، جو ہم سچ سے منہ چراتے ہیں اور اپنے جھوٹ کو حقیقت کے
آئینے میں کچھ اِس طرح بناسنوار کر پیش کرنے کے عادی ہوگئے ہیں کہ یہ ہی
ہمیں سچ لگنے لگتاہے،سقراط کا کہناہے کہ’’مملکت کی باگ ڈورنیک ، قابل اور
اِنصاف پسند تربیت یافتہ دانش وروں کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے‘‘اَب دیکھنایہ
ہے کہ 30جولائی کے صدراتی انتخاب کے بعدممنون اور وجیہہ میں سے کون خوش
نصیب ہوگا، جس کے ہاتھ میں مملکت کی باگ ڈورآئے گی، اور وہ قائد اعظم اور ؒ
داناؤں کے زرین اقوال کی روشنی میں خود کو ڈھالتے ہوئے مُلک اور قوم
کوحقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی کی منزلوں تک لے جانے میں اپنی صلاحیتوں
کو بروئے کار لائے گا۔ |