کیااَب امریکا کو لگام دینے کا
وقت آگیاہے..؟
آج امریکا سمیت اہلِ مغرب جوکہ بلارنگ و نسل ، زبان و مذہب اور سرحدو
نظریات خودکو اِنسانی حقوق کے بڑے علمبردارتصورکرتے ہیں، درحقیقت یہ اِن کا
دُہرامعیار ہے،اور اِن کی نظرمیں اِن کی یہی وہ روش ہے جو اِنہیں دنیا کے
دیگرممالک اور اقوام سے امتیاز رکرتی ہے، اور اِن کی یہی سوچ ہے، جس پر یہ
چل کر دنیا پر اپنے نظریات کا اطلاق کرنااور کرواناچاہتے ہیں، اِس بناپریہ
سمجھتے ہیں کہ اِن کا گرو امریکا جب تک اِن کے ساتھ رہے گااور یہ اِس کے
شابہ بشانہ کھڑے رہیں گے، اوروہ اِس کے قدم سے قدم ملاکرچلتے ہیں رہیں ،
دنیاکادہشت گردِ اعظم امریکا اپنے شیطانی دماغ اور سازشوں سے دنیا بالخصوص
اُمت مسلمہ کو متزلزل کرتارہے گا،اور جب تک مسلم اُمہ پریشانیوں کا شکاررہے
گی، وہ جدیدمسائل اور بحرانوں کی دلدل میں دھنسی رہے گی، یوں امریکا اوراہلِ
مغرب کی شان اور بقاء پر آنچ نہیں آسکتی ہے، اَب آپ اِسے اہلِ مغرب کی اور
دہشت گردِ اعظم امریکا کی بغیرتی ہی کہہ سکتے ہیں ، جوایک لمبے عرصے سے ایک
دوسرے کے کاندھوں پررکھی بندوقوں کے فائر سے مسلم اُمہ کو گھائل کئے جارہے
ہیں اور کررہے ہیں اور اپنے اپنے مفادات حاصل کررہے ہیں۔
خوش قسمتی سے جب میں کبھی فارغ ہوتاہوں تو پاکستان سمیت دنیا کے دیگر شورش
زدہ ممالک کے بارے میں اکثرسوچتاہوں کہ آج دنیا پر قبضے اور اپنی داداگیری
قائم کرنے کی ہٹ دھرمی کے باعث امریکا بغیرتی کی جس حد پرپہنچ چکاہے، کیا
یہاں سے اِس کا صحیح سلامت واپس آنا ممکن ہے ...؟ تودل و دماغ کے خانوں سے
ایک ساتھ نکل کر یہی جواب سامنے آتا ہے کہ ’’ نہیں بلکل نہیں‘‘ ...!!کیوں
کہ آج ساری دنیامیں جہاں کہیں بھی قریب قریب خانہ جنگی کے دہشت گردی ، قتل
و غارت گری، لاقانونیت، فرقہ واریت، لسانیت کی شکل میں جتنی بھی بُرائیاں
پھیل چکی ہیں اور جن ممالک میں مستبل میں مزید جو پھیلیں گیں ، اِن سب کا
ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف اور صرف اہلِ مغرب اور امریکاہوں گے ، جی وہی
امریکا جو ماضی میں بھی دنیا میں تباہی و بربادی پھیلاتارہاہے، اور موجودہ
حالات میں بھی یہ وہی کچھ کررہاہے، جیسایہ ماضی میں کرتارہاہے، میرایہ شک
اُس وقت یقین میں بدل گیا جب گزشتہ دنوں واشنگٹن سے ایک اہم امریکی ذمہ دار
کے حوالے سے یہ خبر آئی کہ’’ امریکادنیا پراپنی تھانیداری اور چوہدراہٹ
قائم کرنے کے چکر میں ہر مُلک میں ہونے والی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے‘‘
اِس پر آج میں یہ سمجھتاہوں کہ میری طرح جس کسی نے بھی اِس خبر کو
پڑھاہوگااِس کا یقین بھی میری ہی طرح اِس حقیقت میں ضرور بدل گیاہوگا، جس
کے بارے میں مجھ جیسے لوگ اکثرسوچاکرتے اور شک کابھی اظہارکیاکرتے تھے ۔
مگراَب اِس خبر کے بعد مسلمہ اُمہ کو اپنااحتساب کرنے کے لئے پہلے اپنے
گریبانوں میں جھانکناچاہئے ، اور پھر ایک مٹھ ہوکر اگلا گریبان دہشت گردِ
اعظم امریکا کا پکڑلیناچاہئے اور اِس کے بعد اِسے ایساسبق سیکھاناچاہئے کہ
اِس کی تھانیداری کا رعب خاک میں مل جائے اور اہلِ مغرب کا دُہرامعیار کرچی
کرچی ہوکر اِس کے ہی پیروں کو ہی زخمی کرکے اِس ہی کے پیروں کی زنجیربن
جائے۔
گزشتہ دنوں واشنگٹن سے آنے والی ایک میڈیارپورٹ کے مطابق ماہِ رواں کی ایک
جمعرات کو بیرون مُلک جنگوں میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے نیشنل کنونشن
سے خطاب کرتے ہوئے امریکاکے ریپبلکن سینیٹررینڈپال نے واشنگٹن کی دفاعی
پالیسیوں کوشدیدتنقیدوں کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ امریکا دنیا کے ہر
کونے میں ہونے والی خانہ جنگی میں ملوث رہاہے جس کی وجہ سے ہمارااپنا دفاع
کمزروہواہے، اور معیشت کا بھی بیڑاغرق ہورہاہے،اِسی طرح رینڈپال نے اپنے
خطاب میں مزید کہاکہ حکومت کے لئے آئین اور قوم کے دفاع سے بڑھ کر کوئی بڑی
ترجیح نہیں ہوتی ہے، ہمارادفاع دنیاکے کسی بھی کونے میں خانہ جنگی میں ملوث
ہونے اور بعدمیں وہاں اپنی تھانیداری قائم کرنے کی خواہشِ مکروہ و شیطانی
فعل کی وجہ سے جہاں کمزروہواہے تو وہیں امریکی انتظامیہ کی اِس شیطانی سازش
کی وجہ سے ہمارے دُشمنوں میں بھی اضافہ ہوگیاہے، اور یہ سب کچھ اہلِ مغرب
کے چڑھاوے کی وجہ سے امریکا نے کیا ہے، رینڈپال نے اپنی امریکی انتظامیہ کو
شدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے برملا اِس کا بھی انکشاف کیا ہے کہ آ ج
لیبیا، مصر اور شام میں جو کچھ بھی ہورہاہے، اِس کے پسِ پردہ بھی امریکی
مداخلت کارفرماہے،رینڈپال نے کہاکہ یہ ہردورمیں امریکی انتظامیہ کی غلطی
رہی ہے کہ اِس نے اہلِ مغرب کے بہکاوے میں آکر ہوش کے بجائے جوش سے کام
لیااور بغیر سوچے سمجھے دنیاکے بیشتر ممالک(جن زیادہ تر مسلم ممالک شامل
ہیں) میں خانہ جنگی کی آگ میں ہوادینے اوروہاں کے باغیوں کی مدد کرنے کو
اپنی دانشمندی جانا،اوریوں خود کو اندرونی طور پر تباہ و برباد
کرڈالاہے،جبکہ اپنے اِسی خطاب میں رینڈپال نے اپنی امریکی انتظامیہ کو کفِ
افسوس ملتے ہوئے مشورہ دیاکہ امریکی انتظامیہ اور واشنگٹن کی اپنے مُلک اور
قوم کی بقاء کے لئے والین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ اِنہیں موجودہ حالات میں
جب کہ اِن کی غلط حرکتوں اور نا مناسب پالیسیوں کی وجہ سے دنیا پر اپنی
چوہدراہٹ اور تھانیداری سے پرہیز کرناچاہئے آج کیوں کہ اِس کی وجہ سے
امریکا کے دوستوں کی تعداد کم مگردشمنوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
اِس منظر اور پس منظر میں راقم الحرف کا یہ کہنا ہے کہ آ ج جس طرح امریکن
ریپبلکن سینیٹررینڈپال نے واشنگٹن کی دفاعی پالیسیوں کو شدیدتنقیدوں کا
نشانہ بناتے ہوئے ماضی اور حال کی امریکی انتظامیہ اور امریکی خفیہ اداروں
کی دنیا بھر میں پھیلائی جانے والی خانہ جنگی کی کیفیت کو دنیاکے سامنے
آشکار کیا ہے، یہ ایساہی ہے جیساپچھلے دِنوں ایک بھارتی جنرل نے ممبئی
حملوں اور وہاں ہونے والی دہشت گردی کو بھارتی سازش کا حصہ قرار دے کر
حقائق سے پردہ اٹھادیاہے اِس طرح، دونوں نے اپنے اپنے ممالک کی سازشوں پر
سے پردہ اٹھاکر بنی نوع انسانوں کو اپنے ممالک کے اصل چہرے دکھادیئے ہیں،
اورامن پسند لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ بغیرتی کی بھی کوئی حد
ہوتی ہے...؟اَب دنیاکواِس پر سو فیصدیقین کرلیناچاہئے کہ امریکا ہی ہے
جودنیا میں اپنی تھانیداری اور چوہدراہٹ قائم کرنے اور اپنا سکہ چلانے کے
خاطر خانہ جنگی میں ملوث ہے، آج بھی ا گر خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک ہوش سے
کام لین ،اور اِس امریکی سازش کو سمجھیں تو اِس امریکی سازش اور منصوبہ
بندی کے آگے ، بندہ باندھ دیاجائے اورپھر امریکا کواُس نکیل کے ذریعے لگام
دی جائے ،جس کے ذریعے سے دنیا حقیقی معنوں میں امن و آشتی کا عظیم بن جائے
اور امریکا کی دنیا میں تھانیداری کا خواب اور اہلِ مغرب کا دُہرے معیارپر
قائم تاج محل زمین بوس ہوجائے۔(ختم شُد) |