میاں صاحب کا خوف ۔۔۔۔؟

نواز شریف تیسری باری کے مزے لیتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ چہرے پر سنجیدگی کا خول کچھ زیادہ ہی سخت نظر آتا ہے اور موصوف اپنی دانست میں نہایت احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی کی انقلابیت بھی دم توڑتی ہوئی نظر آتی ہے ۔کیا بھاری ذمہ داریوں کے اثرات ہیں؟ یا کہ ان وعدوں کی فکر دامن گیر ہے جو انہوں نے انتخابات کے دوران قوم سے کئے تھے ۔حالات و واقعات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو میاں برادران کو وعدوں کے پورا کرنے کی کوئی فکر دامن گیر ہے اور نہ انہیں کسی بھاری ذمہ داری کا کوئی مسئلہ ہے۔ چھوٹے میاں صاحب پہلے بھی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو دھڑلے سے نبھاتے رہے ہیں، اس پر بھی دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب پنجاب کی خادم اعلیٰ شپ وفاق کے خلاف احتجاج کرتے اور ہر مسئلہ کا ذمہ دار آصف علی زرداری کو ٹھہرا کر اپنے دن پورے کر گئے تھے اور اب جبکہ وفاق میں ان کے بڑے بھائی ہیں اور وہ خود پنجاب کے حکمران ہیں، اب انہیں کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے کہ وہ اپنے گناہ کس کے سر تھوپیں اور اپنی ناکامیوں کو کس طرح چھپائیں ، اور اوپر سے میل ملاپ کر کے بھاری مینڈیٹ کا ڈھول بھی میاں برادران کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے ،بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان کا نعرہ تو لگا دیا گیا ،اب میاں برادران کو گفتار کے غازی بننے کی بجائے مرد میدان بننا پڑے گا ، جس کیلئے ان کے پاس کوئی وژن ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پروگرام ہے کہ وہ پاکستان کے حالات بدلنے کیلئے کچھ کر پائیں اور نہ ہی حالات ساز گار ہیں کہ اعلانات اور اخباری بیانات کے ذریعے ڈھنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائی جائے، توانائی بحران سمیت دیگر ہر ہر شعبہ بحرانوں کا شکا ر ہے، اور اوپر سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہے جو کہ ہر نئے دن آفت بن کر ملکی عوام پر آتی ہے۔ دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بلوچستان میں شورش ایک سنگین صورتحال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ قوم پر ستوں کی حکومت کوئٹہ کے ایوانوں میں محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ مسائل ہی مسائل ہیں۔ نواز شریف کیسے مسکرا سکتے ہیں۔ پاکستا ن کی جمہوری تاریخ جو بھی تھوڑی بہت ہے ۔ اس کا یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت مسائل چھوڑ کر گئی ہے ۔وگرنہ گزشتہ ادوار میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں آمریتوں کا گند صاف کرتیں تھیں ۔اس بار بھی بہت گند صاف کیا ،لیکن گند ا س قدر زیادہ تھا کہ پیپلز پارٹی بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی کچھ نہ کر سکی ہے۔ اب کی بار نواز شریف کو اقتدار مزے اڑانے کیلئے انہیں دیا گیا ہے ۔بلکہ عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے دیا ہے کہ وہ پاکستان اور عوام کی تقدیر بدل کر جائیں آج ہر طر ف سے حکومت کو تحفظ بھی ہے اور تحفظ کی ضمانتیں بھی ہیں اسکے باوجود میاں برادران سہمے سہمے ہیں ۔ان کے چال چلن یہ چغلی کھاتے ہیں کہ وہ اقتدار کو اب اصل میں کانٹوں کی سیج خیال کرتے ہیں۔ اس امرکا ثبوت حکومت سنبھالتے ہی مل گیا کہ جس کشکول کو توڑنے کا وہ بار بار دعوی کرتے رہے وہی کشکول ہاتھ میں پکڑ لیا اور بمشکل آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب چین کے دورے کے ثمرات کی بات کر رہے ہیں۔ برطانیہ ، امریکہ اور سعودی عرب جیسے ممالک کی جانب دیکھ رہے ہیں جس کے متعلق پاکستان کی 65سالہ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ چین کی کوہ ہمالیہ سے بلند دوستی ہمارے کسی بھی کام میں نہیں آئی ہے اور نہ ہی ہمارے برادر اسلامی ممالک نے کبھی ہماری مشکلات کو دور کیا ہے۔ اور رہ گئی امریکہ اور برطانیہ کی بات، ان کے بارے میں عوام بخوبی واقف ہیں کر وہ ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ رہی بات ہمارے داخلی سیاسی حالات کی تو وہ بھی میاں صاحبان کیلئے زیادہ فیورٹ نہیں ہیں ۔طاہر القادری کے لانگ مارچ کے خلاف رائے ونڈ میں جمع ہونیوالوں کی اب وہ سیاسی اوقات نہیں رہی ہے ۔اب میدان عمل میں عمران خان ہیں جو پرانے سیاسی کھلاڑیوں کے فرسودہ داؤ پیچ کی بجائے نئی پچ پر کھیلتے ہیں۔ خود بھاگتے ہیں اور نہ ہی مد مقابل کو بھاگنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ میڈیا بھی ایک نئی قوت بن کر ابھرا ہے اور پی ٹی وی کا جادو بھی نہیں چلے گا اور وزارت اطلاعات تمام میڈیاہاوسز اور صحافیوں کو اپنا زر خرید نہیں بنا پائے گی ۔عرب ممالک مین چلنے والی تحریکوں نے بھی حکمرانوں کو اب پریشان کر رکھا ہے۔ بات بات پہ شیخ رشید لیاقت باغ کو التحریر سکوائر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ بے شک ان کی کوئی نہیں سنتا ہے، لیکن وہ کھری کھری سنانے سے باز بھی نہیں آتے ہیں، ستم تو یہ ہے کہ عمران خان بھی ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ میاں صاحبان کیلئے واقعتا یہ کڑا وقت ہے ۔ انہیں مکمل یقین ہے کہ اگر وہ عوام کو ڈلیور کرنے میں ناکام رہے تو پھر انہیں کوئی جدہ بھاگنے کی مہلت نہیں دے گا اور نہ ہی کوئی انہیں کسی جیل کے آرام دہ کمرے میں ٹھہرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ رائے ونڈ محل اور بلٹ پروف گاڑیاں اور سیکورٹی کے قافلے عوام اپنے پاؤں تلے روند دیں گے۔ میاں نواز شریف اور انقلابی شہباز شریف کو اب اس خوف نے گھیر رکھا ہے جو اس قدر سنجیدگی اور احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہاں تک کہ بڑے میاں صاحب زیر لب مسکرانے سے بھی آج کل گریز کرتے ہیں کہ کہیں غربت و افلاس سے عاجز عوام یہ سمجھ کر غم و غصے کا شکار نہ ہو جائیں کہ میاں صاحب ان کی حالت پر ہنس رہے ہیں اور غریب عوام نتائج سے بے پرواہ ہو کر باہر نکل آئیں میاں صاحب جانتے ہیں کہ اب عوام باہر نکلے تو خیر نہیں ہوگی ۔اچھا ہے کہ لب سمیٹ کر رکھے جائیں۔
Arshad Selehri
About the Author: Arshad Selehri Read More Articles by Arshad Selehri: 2 Articles with 1245 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.