بیورو آف انویسٹی کٹیو جرنلزم
اور نیویارک امریکا فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق
2013ء میں پاکستانی حدود میں اب تک کیے گئے 14 ڈرون حملوں میں 90 افراد
ہلاک ہوئے جبکہ 2010ء میں تقریباً 122 حملے گئے تھے جس میں 849 افراد ہلاک
ہو گئے تھے۔ افغانستان میں امریکی فوجی مشیر کی جانب سے کی گئی تحقیق کے
مطابق افغانستان میں جاری طویل تنازع کے دوران ڈرون سے ایک عام جنگی طیارے
کے حملوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ شہادتیں ہوئیں۔
برطانیہ کے ایک مطالعاتی گروپ نے بھی امریکی انتظامیہ کی توجہ دلائی ہے کہ
ڈرون حملوں میں پاکستان کے عام شہری مارے جا رہے ہیں اور ان کی املاک کو
نقصان پہنچ رہا ہے اس سے عوام میں اشتعال پھیل رہا ہے جب بھی کوئی ڈرون
حملہ ہوتا ہے مختلف طبقوں خصوصاً سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر دباؤ
بڑھ جاتا ہے کہ وہ امریکہ کو ایسی کارروائیوں سے روکے، تحریک انصاف سمیت
بعض پارٹیوں کے لیڈر صاف لفظوں میں ڈرون طیارے مار گرانے کا مطالبہ کر رہے
ہیں کیونکہ ان کے خیال میں زبانی احتجاج اور مذمتی بیانات کافی نہیں،
امریکہ بلاشبہ ایک سپر پاور ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ انسانی
حقوق اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتا رہے۔ اسے دوسرے ملکوں، خصوصاً
دوست اور اتحادی ملکوں کی علاقائی سلامتی اور خود مختاری کا احترام کرنا
چاہئے اور قوموں کی برادری کے طے کردہ اصولوں کی پابندی کرنی چاہئے۔
پاکستان کی حکومت اور عوام کے بار بار احتجاج، حتیٰ کہ برطانیہ سمیت بعض
بڑی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون
حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ 28 جولائی کو افطار کے وقت جاسوس طیارے نے شمالی
وزیرستان کی تحصیل شوال میں شدت پسندوں کے مبینہ کمپاؤنڈ پر دو میزائل داغے
جس سے 8 افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اسے
پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے
ہوئے کہا ہے کہ ایسے حملوں سے باہمی تعلقات کے علاوہ خطے میں امن و استحکام
کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان خود بدترین قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے اور
پاک افغان سرحد کے علاوہ اپنے اندرونی علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف
جنگ لڑ رہا ہے ہمارے دوست پاکستان کی مشکلات کم کرنے کی بجائے قبائلی
علاقوں میں ڈرون حملے جاری رکھ کر ان میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان
پہلے بھی واضح کرتارہاہے کہ ان حملوں میں دہشت گردوں سے زیادہ بے گناہ
پاکستانی شہری شہید ہو رہے ہیں جس کے خلاف ملک میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے
اور امریکہ کے لئے بھی خیرسگالی کے جذبات متاثر ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ
ڈرون حملوں میں زیادہ تر شہید ہونے والوں کی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو پرویز مشرف نے ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی سابقہ
حکومت کی بھی اس معاملے میں شاید اس سے کوئی انڈر اسٹینڈنگ تھی لیکن اب ملک
میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جو اقتدار میں آنے سے پہلے بھی ڈرون حملوں کے
سخت خلاف تھی اور اور اب بھی امریکہ سے بار بار کہہ رہی ہے کہ دہشت گردی پر
قابو پانا ہے تو قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بند کرنا ہوں گے امریکہ کے
نزدیک اگر ڈرون حملے ہی دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں تو اسے
یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو دینی چاہئے یہ اختیار صرف پاکستان کو ملنا چاہئے
کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے
لئے خود اس ٹیکنالوجی کو اپنے حالات اور قومی حکمت عملی کے مطابق بہتر
انداز میں استعمال کرے۔ ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کی پچھلی پارلیمنٹ نے
بھی ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی۔ امریکہ نے اس کی پروا کئے بغیر حملے
جاری رکھے موجودہ پارلیمینٹ بھی اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرسکتی اور مجوزہ
کل جماعتی کانفرنس میں بھی سخت موقف سامنے آسکتا ہے ۔ ان حالات میں ضروری
معلوم ہوتا ہے کہ زبانی احتجاج اور مطالبات سے آگے بڑھ کر یہ مسئلہ بین
الاقوامی فورموں پر اٹھایا جائے۔ اور اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔
ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جانے سے مسئلے کے پرامن حل کی راہ
نکل سکتی ہے پاکستان اور امریکہ کے مابین اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا سلسلہ بھی
بحال ہونے کا امکان ہے جو 28 نومبر 2011ء کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد
منقطع ہو گیا تھا۔ مناسب ہوگا کہ ان مذاکرات میں بھی یہ معاملہ اٹھایا جائے
۔ |