گزشتہ دنوں مظفر آباد میں تحریک
عد م اعتماد کے نام پر جو سیاسی تماشہ لگایا گیا ، اس سے تویہی نتیجہ اخذ
کیا جا سکتا ہے کہ عوام کے ’خاد موں اور رہنماؤں‘ کو صرف اپنے اقتدار و
اپنی ذات سے دلچسپی رہ گئی ہے، عوام کی خدمت کرنے اور ریاست چلانے کی ذمہ
داریاں کس کے پاس ہیں ․․․ خدا جانے۔ مذکورہ ڈرامے کی ناکامی کے بعد ہونا تو
یہ چاہئے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے سرخیل کچھ عرصہ سستا لیتے مگر عید کے
بعد اب ایک اور تازہ دم یلغار کی تیاریاں شروع ہیں جس کے روح رواں خود جناب
بیرسٹر سلطان محمد چودھری ہوں گے اور جن کا اقتدار کی کرسی پہ بیٹھنے کا
پختہ ارادہ ہو گیا ہے لیکن خبریں یہ بھی ہیں کہ اب وہ پاکستان تحریک انصاف
میں جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ۔
تحریک آزاد ی کشمیر کے لئے جدوجہد کرنے اور جمہوریت کے فروغ اور اپنے مسائل
کے حل کے لیئے ووٹ دینے والے سادہ لوح عوام کی خدمت کا مشن اب ایک داستان
بنتی جارہی ہے۔اور تو اور اب تو مذکورہ ’عدم اعتماد‘ کے ڈرامہ کے بارے
مقبوضہ کشمیر سے بھی اظہار ناپسندیدگی دیکھنے کو آیا ہے جو یقینا اچھی خبر
نہیں ہے ۔دوسری جانب اس سارے کھیل میں کسی کے ہاتھ کیا آیا اس سے قطع نظر
عوام یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب تلوں میں تیل نہیں تھا تو
’پنگا‘ لینے کی کیا ضرورت تھی اور یہ کہ کیا تحریک عدم اعتماد کے’ سر خیل‘
اس بات کو یقینی بنا سکتے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آجاتے توکیاوہ عوام کے
مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے یاوہ بھی اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کی
حکومت کارونا روتے جیسا کہ آزاد حکومت نے اب فنڈز کی قلت کا ذمہ دار وفاقی
حکومت کو ٹہرانا شروع کردیا ہے اس ضمن میں میری رائے کے میں وزیراعظم مجید
کو اسلام آبادمیں مسلم لیگ ن کی حکومت بنتے ہی گھر چلے چاہئے تھا یا پھر
مخالف مرکزی حکومت کے رویہوں پر انہیں گلے شکوے نہیں کرنے چاہیں اس طرح کا
رونا پرانی روایت ہے لیکن شاید یہ وہ اعلی اخلاقی اقدار ہیں جن تک ابھی
ہمارے عوام نمائندے بھی پہنچ پائے اگر حکمران فنڈز کی کمی یا مرکز میں
مخالف سیاسی حکومت کی موجودگی کو جواز بناکر اپنے آپ کو بے بس ظاہر کرتے
ہیں تو پھر بہتر ہے کہ عوام کو بے وقوف بنائے بغیر انہیں گھر چلے جانا
چاہئے اس ضمن میں ایک اور بات عرض کرتا ہو ں کہ کم از کم مستقبل کیلئے ایسا
لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے کہ پاکستان کے عام انتخابات کے ساتھ ساتھ آزاد
کشمیر میں بھی عام انتخابات بھی منعقد کر دیئے جائیں تاکہ یہ رونے دھونے
اور گلے شکووں کی روایتی شکایات کا خاتمہ ہو سکے اور یہ تاثر بھی زائل ہو
سکے کہ پاکستان کی حکمران سیاسی جماعتیں آزاد کشمیر کے سیاسی و حکومتی
معاملات میں بے جا مداخلت کرتی ہیں نے اور اثر انداز ہوتی ہیں ۔شاید یہی
وجہ ہے کہ وفاقی حکومتوں کی آزاد کشمیر کے حکومتی و سیاسی معاملات میں بے
جا مداخلت سے خطہ کے عوام اور سیاسی راہنماؤں میں تحفظات پائے جاتے ہیں اور
یہ وجہ بھی ہے کہ اب ’ تھرڈ آپشن‘ کے حامییوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے
․․․․
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ آل جموں کشمیر
مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ سردار عبدالقیوم خان کی وزیر اعظم پاکستان میاں
نواز شریف سے ملاقات موقع ہے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں
نے مسلم کانفرنس کو اپنی گڈ بکس میں شا مل کر لیا ہے شائد اس کی بڑی وجہ
مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں عالمی سطع پہ حالیہ دنوں میں ہونے والی’
سرگرمیاں‘ ہیں اس لئے مسلم کانفرنس کو دوبارہ ’ایکٹیو ‘ کرنا ضروری سمجھا
گیا ہے اور اسے حکومت میں شامل کر دیا گیا ہے۔اس ساری صورت حال کے بعد یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مجید حکومت الحاق پاکستان کی سب سے بڑی داعی
مسلم کانفرنس کے ساتھ مل کر اپنی مدت پوری کر لے گی ۔
سیاست میں کچھ بھی صرٖف آخر نہیں اس ساری صورت حال کے باوجود بھی اور
پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کے احکامات کے برعکس عین ممکن ہے کہ عید کے
بعد پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے اس ضمن میں وقاقی
حکومت اپنی لاتعلقی ظاہر کرے گی اور مظفر آباد میں ن لیگ بمع اتحادیوں کے
حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اب تک کی خبروں کے مطابق تحریک عدم
اعتمادکے سر خیل اب بھی اپنے پر پھڑپھڑا رہے ہیں اور ان کے دعووں کے مطابق
اب کی بار وار خالی نہیں جائے گا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت آزاد کشمیر مسلم لیگ ن کی قیادت کی
کارکردگی سے مطمئن نہیں اس کی وجہ دیگر وجوہات کے ساتھ حالیہ انتخابات میں
راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کی شکست بھی بتائی جاتی ہے اور شائد اسی باعث مسلم
لیگ ن کی اعلی قیادت سردست آزاد کشمیر میں کسی جلد بازی کی پوزیشن میں نہیں
اور نہ ہی مجید حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے موڈ میں ہے تاوکتیہ کہ’ ہوم
ورک‘ مکمل نہ ہو جا ئے جبکہ دوسری جانب آزاد کشمیرمسلم لیگ ن کے قائدین کے
راولپنڈی کے رابطے جو رائے ونڈ جانے میں ان کے مدد گار تھے اب کارآمد نہیں
رہے اور انہی عدم رابطوں کے باعث ’مہاراج‘ کو سرد مہری کا سامنا کرنا پر
رہا ہے اس سرد مہری کا خاتمہ کب ہو گا اور راہ اقتدار کب ہموار ہو گی اس کے
لئے ابھی ن لیگ آزاد کشمیر کے مہاراج اور دیگرراہنماؤں کو انتظار کرنا ہو
گا۔ |