پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدارتی
امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت سے ملک کے 12 ویں صدر منتخب ہو گئے
ہیں۔انہوں نے 433 ووٹ حاصل کئے ۔تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ
الدین احمد کو 77ووٹ ملے پارلیمنٹ و 3صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن) کے
امیدوار جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب رہے۔
9 ووٹ مسترد قرار دئیے گئے۔ کل 1174 اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلیوں میں
سے 1123 اراکین ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 887 اراکین نے ووٹ ڈالے۔
انتخا بی نتائج کااعلان چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر)فخر الدین جی ابراہیم نے
پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت 50 نشستیں خالی ہیں۔
صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے
امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔پیپلز
پارٹی نے مقررہ معیاد سے چند دن پہلے الیکشن کرانے پر اعتراض کرتے ہوئے
صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔صدر ممنون حسین8ستمبر کو موجودہ صدر آصف علی
زرداری کے سبکدوش ہونے پر صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے۔
ممنون حسین2مارچ 1940ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔تقسیم برصغیر کے بعد ان کے
خاندان نے پاکستان ہجرت کی۔ممنون حسین کا آبائی گھر ’ نئی کی منڈی ‘ میں
واقع تھا جو اب آگرہ شہر کے وسط میں واقع ہے۔ان کے آبائی گھر کی جگہ اب
بیکری قائم ہے۔ آگرہ کے چمڑے کے ایک تاجر حاجی سمیع لعالم کے مطابق تقسیم
برصغیر سے پہلے صدر ممنون حسین کے دادا کا جوتے کا کاروبار تھا۔ ممنون
حسین1953ء میں کراچی کے مدرسہ ’درس نظامی‘ میں داخل ہوئے۔ممنون حسین
نے1960ء میں بزنس ایڈ منسٹرشن میں ڈگری حاصل کی ۔اب وہ ٹیکسٹائل برنس سے
وابستہ ہیں اور ان کا تعلق کراچی کی اہم کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔کراچی
چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ممنون حسین1999ء میں تقریبا چار ماہ
،فوج کی بغاوت تک سندھ کے گورنر رہے۔
نو منتخب صدر ممنون حسین کا شمار میاں محمد نواز شریف کے نہایت اعتماد والے
افراد میں ہوتا ہے اور یہی وہ قابلیت ہے جس کی بنیاد پہ مسلم لیگ(ن) کے صدر
،وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کے آئندہ صدر کے لئے ان کا انتخاب کیا ہے۔
یعنی ممنون ،ممنون ہی رہے اسی لئے پاکستان کے نئے صدر کے لئے نگاہ انتخاب
کا مرکز ممنون حسین بنے۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ’’فیس بک‘‘ پہ
لکھتے ہیں کہ’’ آج پاکستان میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک پڑھا لکھا
شخص جو دہی بھلے بیچ کر پیٹ پالتا تھا اس ملک کا صدر بن گیا ہے۔کیا اس سے
بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے ؟‘‘شائع خبروں کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی
کہا کہ’’ ممنون حسین کے گھر کے دہی بھلے بہت مزیدار ہوتے ہیں۔‘‘
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں 18ویں،19ویں اور 20ویں آئینی ترامیم کے
بعد وہ اختیارات صدر سے واپس وزیر اعظم کو منتقل ہو گئے ہیں جن کا ارتکاز
سابق فوجی آمر پرویزمشرف نے کیا تھا۔اس کے باوجود صدر کا عہدہ کئی حوالوں
سے اب بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ حکومت میں وزیر اعظم سمیت ساری
حکومت صدر کی مرہون منت رہی، اب صدر سمیت ساری حکومت وزیر اعظم کی متمنی
نظر ہو گی۔ اس اعتراض میں کافی وزن ہے کہ جب صدر نہ بننا ہو تو کوئی
اورمسلم لیگ(ن) کا صدارتی امیدوار ہوتا ہے اور جب صدر بننا ہو تو ممنون
حسین کو امیدوار بنایا جاتا ہے۔کیا صدر پاکستان کے عہدے کے لئے کوئی قابل
شخصیت خطرہ دکھائی دیتی تھی؟ کیا صدر پاکستان کے عہدے کے لئے وزیراعظم نواز
شریف کے لئے معیار صرف ذاتی وفاداری ہے؟ انہیں پاکستان کے لئے کوئی اور
موزوں شخصیت نہیں ملی جو اپنے تابعدار شخص کو صدر پاکستان بنا یا گیا
ہے؟صدر کی قابلیت ذاتی وفاداری ہی قرار پائی ہے؟یہ تاثر ہے کہ وہ صدر کے
عہدے کے لئے موزوں شخصیت نہیں ہیں۔تاہم یہ وزیر اعظم نواز شریف کا انتخا ب
ہے اور اس کا فیصلہ انہوں نے اپنے صوابدیدی اختیار کے طور پر کیا ہے۔لیکن
اس کاروبار ملک و سیاست میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کبھی باصلاحیت
’’ڈلیور‘‘ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور کبھی غیر موزوں بھی ’’ ڈلیور‘‘ کر
جاتا ہے۔صدر بن جانے کے بعد ممنون حسین کے اہل یا ناہل ہونے کا فیصلہ اب
خود ان کے اوپر ہے۔تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود یہ سوال بدستور موجود
رہے گا کہ کیا ممنون ،ممنون ہی رہے گا؟کیونکہ اختیارات نہ رکھنے والے صدر
محمد رفیق تارڑ نے فوجی بغاوت کو تسلیم کرتے ہوئے جنرل مشرف انتظامیہ کا
نمائشی صدر بننا قبول کیا تھا۔
صدر پاکستان کے انتخاب کے ساتھ ہی تمام اہم عہدوں پہ وزیر اعظم نواز شریف
کے منظور شدہ افراد کی تعیناتی مکمل ہو چکی ہے۔عوام کی نظریں اس پر ہیں کہ
مسلم لیگی حکومت عوام کے حق میں کیا اہم اقدامات اٹھاتی ہے ۔اب تک عوام کو
ناقابل برادشت مہنگائی اور انتظامیہ و پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے
حوالے سے کوئی ریلیف نہیں ملا ہے اور نہ ہی عوامی مفاد کو اولین ترجیح دینا
نظر آ رہا ہے۔اب بھی اگر ذلت سہتے ہوئے غریب عوام سے ملکی مفاد کے نام پر
مزید معاشی بوجھ اٹھانے کا تقاضہ کیا جارہا ہے،جبکہ سرکاری ’’ٹھاٹھ باٹھ ’’
بھی بدستور قائم و دائم ہیں،سرکاری ادارے عوام کو بدستور مفتوحہ لوگوں کی
طرح ’’ڈیل‘‘ کرتے رہیں، تو خدارا بتایا جائے کہ پاکستانی عوام آخر کس کی
جان کو روئیں گے؟ |