آج 58دن بعد قارئین کی خدمت میں
حاضر ہو کر دو موضوع کالم میں سمیٹ رہا ہوں ۔5جون 2013ء کی شام میرے پیارے
بھانجے ،’’ وہ مجھ سے اور میں اس سے بہت مانوس رہا‘‘۔۔۔’’سنی‘‘ قیصر رحمن
میر جو نویں کا طالب علم تھا ،موٹرسائیکل کے جان لیوا حادثہ میں شدید زخمی
حالت میں 39ایام موت و حیات کی جنگ لڑتے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی زیر
علاج رہنے کے بعد 14جولائی 2013ء خالق حقیقی سے جا ملا۔اس دوران راقم مسلسل
شب و روز مصروف رہنے اور پریشانی و دکھ کے لمحات میں کوئی تحریر کرنے سے
قاصر رہا ۔بھانجے نے بہت دکھ دیا ، یہ زندگی کا روگ نصیب میں تھا،تمام دوست
و احباب جن میں وزیر اعظم آذادکشمیر چوہدری عبدالمجید ،وزراء کرام جاوید
بڈھانوی ،میاں عبد الوحید،سردار جاوید ایوب ،سابق وزیر خواجہ فاروق احمد ،سابق
وزیر محمد حنیف اعوان ،نظریاتی کارکن پی پی پی و سابق ایڈمنسٹریٹر مظفرآباد
ڈپٹی کمیشنر شاہد محمود،اسسٹنٹ کمیشنر اشفاق گیلانی،ایس پی چوہدری منشی،ایس
پی جمیل میر ،ڈی ایس پی سلیم درانی ، محمد بشیر اعوان ،چیئر مین معائنہ
کمیش صاحبزادہ اشفاق ظفر ،چیئرمین مونسپل کارپوریشن ہٹیاں بالا چوہدری
اسحاق طاہر ایڈووکیٹ،ایڈمنسٹریٹر بلدیہ ہٹیاں بالا خواجہ ناصر چک ،سابق
مشیر حکومت محمد خان کیانی کے فرزندان آفتاب کیانی ،الطاف کیانی،ایل او سی
ٹریڈ کے انچارج مبارک عباسی،ٹریڈ ونگ کے نائب صدر نعیم عباسی ،سابق ڈی جی
اطلاعات راجہ نوید،مرزا آصف ممبر مجلس عاملہ ن لیگ ،ن لیگ کے راہنما فرید
خان ،خواجہ فاروق قادری،انسپکٹر پولیس سید رضا گیلانی ،اسد بخاری ،سمیت بے
شمار احباب نے ہسپتال میں آ کر حوصلہ آفزائی کی اور پھر دوران تدفین ہزاروں
شرکاء نے ہمارے دلوں پر مرہم رکھی ،ان تمام شخصیات کا تہہ دل سے شکر گذار
ہوں اپنے صحافتی شعبہ سے منسلک روزنامہ جموں کشمیر کے چیف ایڈیٹر عامر
محبوب ،ایڈیٹر شہزاد راٹھور ،روزنامہ کیپیٹل ایکسپریس کے ایڈیٹر خرم چوہدری
،روزنامہ کشمیر ایکسپریس کے چیف ایڈیٹر طاہر تبسم ،ڈپٹی ایڈیٹر بشیر عثمانی
،روزنامہ صدائے چنار کے ایڈیٹر اعجاز عباسی ،روزنامہ کالم پاکستان کے چیف
ایڈیٹر تجمل حسین ،روزنامہ سیاست کے چیف ایڈیٹرنثار احمد راتھر ،ایڈیٹر
سردار ذولفقارعلی ،روزنامہ کشمیر لنک کے چیف ایڈیٹر اے ایچ کاظمی ،کشمیر
ٹائمز کے چیف ایڈیٹرافضل بٹ ،ایڈیٹر خالد گردیزی ،راجہ شہزاد خان ،روزنامہ
گرفت کے چیف ایڈیٹر محمد نسیم نون ،روزنامہ شہرت لاہور کے چیف ایڈ یٹر محمد
اسحاق ،روزنامہ اساس کے چیف ایڈیٹر افتخار عادل ،یونیورسل ریکارڈر کے چیف
ایڈیٹر آفتاب شیخ ، روزنامہ سلام گلگت کے ایڈیٹر جعفر علی ،روزنامہ اخبار
حق کے چیف ایڈیٹر تنویر کھوکھر، روزنامہ ریاست کے چیف ایڈیٹر چوہدری جاوید
،کالم نویس حضرات سید اسحاق نقوی ،ڈاکٹر راجہ ناصر خان ،سردار زاہد خان ،
کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر وسیم نذر ،عقیل خان ،عابد علی ،نیشنل پریس
کلب اسلام آباد کے بلال ڈار ،انجمن تاجران مظفرآباد کے صدر شوکت نواز
میر،سینٹرل پریس کلب کے سابق صدر سید آفاق شاہ ،ممتاز و سینئر صحافی خضر
حیات،جہانگیر اعوان ،روشن مغل ،عبد الوحید کیانی ،چیف آفیسر ضلع کونسل
راولاکوٹ خورشید کیانی ، لیکن یہاں ایک ایسی شخصیت کا ذکر خصوصی طور پر نہ
کروں تو ضمیر پر بوجھ رہے گا۔جنہوں نے جائے حادثہ سے تا دم مرگ ہمارا ساتھ
نہ چھوڑ کر ہمیں ہمیشہ کے لئے خرید لیا ،وہ راولپنڈی کی ہر دلعزیز شخصیت
اور سابق ایم پی اے و مرکزی رہنما ن لیگ جناب ضیاء اﷲ شاہ ہیں ،انہوں نے
میرے بھانجے کی زندگی لو ٹانے کے لئے ہر ممکن ہماری رہنمائی اور اپنا قیمتی
وقت نکال کر ہمارے ساتھ ساتھ رہے۔یہ تکلیف دہ ،صبر آزماء ،دکھ بھرے لمحات
کبھی نہیں بھول پائیں گے ۔ان دوستوں کا بھی مشکور ہوں جوضلع ہٹیاں بالا سے
تعلق رکھتے ہیں انہوں نے قیمتی وقت نکال کر نا صرف میری بلکہ قیصر رحمن میر
کے بھائیوں اعجاز احمد میر ،شہزاد احمد میر ،شیراز احمد میر اور وسیم احمد
میر کی حوصلہ آفزائی کی اور ان کا بھی شکریہ جو اطلاع کے باوجود ایک لفظ
بھی کہنے کے لئے تکلیف نہ کر سکے ۔ ان سطور میں ہولی فیملی ہسپتال کے
ڈاکٹرز ،نرسیں اور دیگر عملہ کی انسان دوستی یاد رہے گی۔ اورجن احباب نے
90بوتل خون کی عطیہ کیئں ان کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔اپنے
بھانجے کی المناک موت سے ایک سبق ملتا ہے جو درحقیقت اس نے موت کو گلے لگا
کر پوری قوم کو پیغام دیا ہے کہ کم عمر نوجوان بائیک کا شوق نہ رکھیں ورنہ
انجام دیکھ لیں ۔ جو بھی یہ کالم مطالعہ کرئے وہ سب سے پہلے اپنے
بچوں،بھائیوں بالخصوص 25سال سے کم نوجوانوں کو بائیک نہ دیں ۔اگر حکمران
عوام اور نئی نسل پر مہربانی کریں تو 25سال سے کم نوجوانوں کو بائیک چلانا
قانونی جرم قرار دیا جانا چاہئے ۔اس ضمن میں قانون سازی بلا تاخیر ضروری ہے
۔اس طرح کئی ماؤں کے چشم و چراغ اندھیری راہوں میں جانے سے بچ سکتے ہیں ۔کالم
کی طوالت کے باعث کئی شخصیات کے نام رہ گے ہیں جن سے معذرت چاہتے ہوئے
انشاء اﷲ قیصر رحمن کے نام ایک تاریخی کتاب لکھوں گا جس میں مفصل ذکر کرنے
کا وعدہ ہے۔یقینی طور پر کالم کا ایک حصہ اپنے بھانجے کے نام کرنا پڑا ۔اب
ذرا پٹرول بم کا ذکر کر لیتے ہیں ۔
ویسے ان 58دنوں میں بہت سے قومی معاملات سے قارئین کو باخبر نہ رکھ سکا جن
میں تحریک عدم اعتماد سمیت ملک کے کئی اہم معاملے زیر بحث ہیں جن پر انشاء
اﷲ تسلسل سے اظہار کروں گا مگر مختصر و جامع بحث آج کی تازہ دم سینہ چیرتی
خبر سے کروں گا۔گذشتہ روز اوگرا کی سمری پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی۔ پٹرول کی قیمت میں 2
روپے 73 پیسے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا۔ مٹی کے تیل کی قیمت 4 روپے 99 پیسے
فی لٹر بڑھا دی گئی۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 3 روپے 95 پیسے فی لٹر
اضافہ کیا گیا ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3 روپے فی لٹر اضافے کی
منظوری دی گئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 104 روپے 50
پیسے فی لٹر ہو گی۔ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 101 روپے 28 پیسے فی لٹر مقرر
کی گئی ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 96 روپے 12 پیسے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل
کی نئی قیمت 109 روپے 76 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔سمری چند لفظوں پر
مشتعمل ہے مگر اس کے جو بھیانک اثرات مرتب ہونگے اس کا بلند و بالا ایوانوں
کے رکھوالوں کو ذرا احساس نہیں کہ اب غریب کا چولہہ کیسے جلے گا۔۔؟یہ بات
عین حقیقت ہے کہ مہنگائی کا سر چشمہ پیٹرولیم مصنوعات سے ایسے جڑا ہوا ہے
جیسے ہمارا جسم روح سے ہے۔سابق حکمرانوں کی اوگرا پالیسی انہیں لے ڈوبی
جبکہ موجودہ حکمران غرق آب ہونے کی تیاری کر رہے ہیں ۔کیا اب اشیاء خوردو
نوش مہنگی نہیں ہو گی ۔۔؟ کون روک سکتا ہے ۔؟خود کار انداز سے ہر ایٹم پر
10سے 20فی صد ایٹم بم گرے گا۔ مہنگائی ہو جانے سے عام شہری اب رونے کے لائق
بھی نہیں رہا کیونکہ اس نے ووٹ بھی صاحب ایوان کو بڑے دھڑلے سے ڈالے تھے ۔اپوزیشن
کہہ رہی ہے کہ اب ووٹ کے مزے لو ! کیا عوام کو افسر شاہی کے نرغے میں یونہی
لوٹا جائے گا۔اب بھی وقت ہے حکمران سنھبل جائیں ،پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا
کردار غیر تسلی بخش ہے ۔انتظامیہ وقت ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہے ایسی صورت
حال میں من مانے ریٹس لگنے کے بعد عوام کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ
کھانا پینا چھوڑ دیں ۔کیا یہی ایک آپشن عوام قبول کر لیں گے ہرگز نہیں ،پھر
کیا ہونے جا رہا ہے ۔جمہوریت بچاتے بچاتے کہیں عوام آمریت کے نرغے میں نہ آ
جائے لہذا برے وقت کو یاد کرتے ہوئے عوام کی حالت زار پر رحم کھایا جائے ۔اس
حوالے سے تفصیل کے ساتھ آئندہ مغز خراشی کرنے کی جسارت کروں گا کیونکہ کالم
کی طوالت اجازت نہیں دے پا رہی ہے ۔ |