تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر
ذی شعور فرد بشر اس حقیقت سے بالکل آشنا ہوگاکہ بیسویں صدی کے اوائل میں
برصغیر ہندکی جو حالت تھی وہ ناگفتہ بہ ہے۔فرنگیوں کے ظلم و جبرسے ہندوستان
میں بسنے والے مسلمان باشندوں کاجینامحال ہوچکاتھا۔غم و اندوہ کادور
دوراتھا،بربریت کابازار گرم تھا،سیدھے سادھے ہندکے عوام کومشقِ ستم
بنایاجارہاتھا،جبرو استقلال کا پانی سے سے اونچا اٹھتاجارہاتھا، ایسے میں
مسلمانوں کے درد کی لڑائی لڑنے والے ملک کے محب اعلیٰ حضرت قائد اعظم محمد
علی جناح ؒ نے اپنی بساط بھراس ظلم کوروکنے کی کوشش کی،جس کے لئے انہوں نے
تحریک چلائی اورمسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔اور فرنگیوں کویہ
احساس دلایاکہ مسلمان باشندوں پردرد و کرب کی انتہا ہو گئی ہے،اب ناقابلِ
برداشت ہے۔بہر کیف قائد اعظم کی اس تحریک کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہواکہ
مسلمان باشندوں کاجذبہ بلندہوا اور عزم و استقلال میں مضبوطی پیدا ہوئی،جس
کے نتیجے میں فرنگیوں کو ۱۹۴۷ء میں منہ کی کھانی پڑی۔اور مسلمانوں کے
ہرطبقہ کے ماننے والوں نے برابرکی قربانی پیش کی،اور ان ہی کے لہو کے بدلے
ہمیں آزادی کا پروانہ نصیب ہوا۔آزادی کے بعد مسلمانوں کی بڑی اکثریت اپنے
وطن کو کُوچ کرگئے تاکہ اپنے وطن میں آزادی کی فضا میں زندگی گزاریں۔اور اس
آزادی میں لاکھوں جانیں بھی ضائع ہوئیں مگرلوگوں کے قدم نہیں
ڈگمگائے۔اسلامی ملک پاکستان میں اپنا قانون بنا،دستورسازی ہوئی،پاکستان میں
ہرکسی کوبرابری کا حق دیاگیا،پوری طرح سے مذہبی آزادی کاحق دیاگیا۔اس
اعتبار سے کسی بھی مذہب کو کسی پرترجیح نہیں دی گئی بلکہ ہرمذہب والوں کو
مساوی حقوق دیئے گئے اور پاکستان ازسر نوایک دوسرے عہد میں داخل
ہوگیا۔آزادی و جمہوریت کا جشن نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایاجانے
لگا،ملکی کی سالمیت اور ترقی کے لئے نئے نئے راستے اختیار کئے جانے
لگے۔سیاسی ،سماجی،معاشی اور تعلیمی اعتبار سے ملک کومستحکم بنانے کی کوششیں
تیزکی گئیں ،لیکن اس ملک کی بد نصیبی یہ رہی کہ ایک خاص طبقہ آزادی کے
بعدسے ہی مذہبی منافرت کا بیج ڈالتارہا ، ابتدائی ایّام میں انہیں کچھ خاص
کامیابی نصیب تونہیں ہوئی البتہ دھیرے دھیرے اس کے اثر و رسوخ مضبوط ہوتے
گئے اور حاکمِ وقت تک رسائی ہوگئی،پھرکیاتھاباضابطہ منظم طورپر یہ فرقہ
بندی پروان چڑھی۔اور موقع بہ موقع انہیں مشقِ ستم بناتے رہے۔اور ہمیشہ ان
کے خلاف برسرپیکار رہے۔جی ہاں یہ بیج آج ایک تناور درخت بن چکاہے اوراپنے
ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف تیر آزمائی جاری و ساری ہے۔مسلمانوں کے
ساتھ آزادی سے لے کر اب تک کئے گئے ظلم و ستم سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ہم
گذشتہ پندرہ بیس سالوں کاجائزہ لیں گے توہمیں معلوم ہوگاکہ کس کس طرح سے
مسلمانوں کو ہرموڑپر ناکام کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، مجھے یہ کہنے میں
کوئی الجھن نہیں کہ گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں جس قدرمسلمانوں کے اندر
تعلیمی بیداری آئی اور جس تیزی کے ساتھ تعلیمی میدان میں نمایاں رول
اداکیااس سے پہلے کی تاریخ ہمیں ایسی تصویر نہیں دکھاتی۔لیکن پاکستانی
مسلمانوں کی یہ کامیابی اورتعلیمی میدان میں کثرت مذہبی منافرت کے حاملین
کو ایک آنکھ نہ بھا سکی،اور شبانہ روز مسلمانوں کی اس بیداری کولے کر
خودبیدار رہے اوران کے خلاف مختلف قسم کے حربے اختیارکرتے رہے۔
آج انہی کارستانی کی بدولت ہم پوری دنیامیں بدنام ہو رہے ہیں۔ہمارے یہاں
دہشت گردی ،دھماکوں میں انسانی جانوں کا زیاں روز آنہ کامعمول بن
چکاہے۔کھیل کے میدان ویران ہوچکے ہیں،دوسرے ملکوں میں پڑھنے کے لئے جانے
والے ہمارے طالب علموں کوبہت ساری تکالیف کاسامناکرناپڑرہاہے۔کوئی بھی ملک
ہمارے ملک میں آکرکھیلنے کوتیار نہیں،بیرونِ ملک سرمایہ کاری بھی برائے نام
ہی ہے،بہت ہی برادر ملک ہم سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں ورنہ آدھی دنیاہم سے چشمِ
بینا بچاکر چل رہے ہیں۔ویسے تو حکمرانی کی شہنائی بج ہی رہی ہے،اور ووٹ
کاکھیل بھی کھیلاجارہاہے مگرامن و امان کے معاملے میں کوئی بھی پہل کرنے
کوتیار نہیں۔حتیٰ کہ کوئٹہ میں بابائے قوم کی رہائش گاہ کو بھی نہیں
بخشاگیا۔بانیٔ پاکستان کی روح اُس وقت نہ تڑپی ہوگی جب یہ تمام کاروائی
پرعمل در آمد ہو رہا ہوگااور ہمارے ارباب چند دنوں بعد سارے سانحات کوبھلا
دیتے ہیں۔پچھلے چندسالوں میں اس قدر سانحات رونما ہوئے کہ پچھلے سارے
ریکارڈٹوٹ گئے،آج ضرورت ہے ہوشمندی کے ساتھ دانشمندری کی بھی تاکہ ہم دنیا
والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں،اداروں کو مضبوط
بنائیں،امداد اور قرضے کے کشکول کو توڑیں تاکہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو
سکیں۔شاعر بھی کیابے ساختہ کہا کرتے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ کریں:
پھر وہی بھولی بسری کہانی ہے کیا؟
پھر میری آنکھ میں پانی ہے کیا؟
پھر مجھے یاد کیا ہے وطن نے
تیل میں آگ لگانی ہے کیا؟
آج ہمارے ملک کے سامنے دو اہم چیلنجوں کاسامناہے اور وہ دونوں ہیں فرقہ
پرستی اور دہشت گردی۔جب سے ان دونوں طاقتوں نے اپنا سر ابھارا ہے ملک میں
انتشار اور انارکی سی پھیلی ہوئی ہے۔فرقہ پرست اور متعصب طاقتیں ملک کے
عوام کوجابجاکسی نہ کسی بہانے نشانہ بنا کر ان کے عرصۂ حیات کو تنگ کرنا
اپنا شیوہ بنا چکی ہیں۔اگر یہی رویہ جاری رہااور ہماری سرکارمتعصب ذہنیت کے
حامل لوگوں کوروکنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو چہ جائیکہ ملک ترقی کرے یہاں
خوف و دہشت کاماحول بنا رہے گا۔ملک میں امن ،بھائی چارہ اور یگانگت کے
ماحول کوبحال رکھنے کے لئے سرکارکو انصاف کا دامن ہر حال میں تھامنااور
فرقہ پرستی جیسی لعنت کوجڑ سے اکھاڑناہوگا۔اگر ہماری سرکار اس میں ناکام
ہوگئی تو بلا مبالغہ کہاجاسکتاہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اس کاجواب
ضروردے گی۔اسی طرح دہشت گردی نے ہمارے ملک کوبارودکے ڈھیرپربٹھارکھاہے۔آئے
دن کہیں نہ کہیں انسانی جانوں کے زیاں کاکھیل ہوتارہتاہے۔ملک کاہرشہری اس
سے خوف زدہ ہو کرخودکوغیرمحفوظ سمجھنے لگاہے۔جب اعلیٰ عہدوں پرفائزاور
انتظامیہ میں شامل معزز شخصیات کوجب جی چاہا ،جہاں جی چاہااپنا شکاربنالیتے
ہیں توپھر عام آدمی کس گنتی میں ہوگا۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہرچہارجانب جنگل
ہی جنگل ہے۔سرکارچاہے کسی کی بھی ہو وہ اگراپنے عوام کو تحفظ دینے میں
ناکام رہے توپھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتاکہ وہ حکومت میں رہے۔ملک میں امن و
امان اسی صورت قائم ہوسکتاہے اور قائد اعظم کاپاکستان اُسی وقت ترقی
کرسکتاہے جب ایسے واقعات کاسدباب کیاجائے۔عوام کوتحفظ فراہم کیاجائے۔ تاکہ
معاشرہ تشدد سے پاک بن جائے۔پاک ارضِ وطن میں امن و امان ہو،بے روزگاری
کاخاتمہ ہوجائے،کرپشن ختم ہو،رشوت خوری کا بازار بند ہو جائے،انصاف فوری
مہیا ہو ،مہنگائی کاخاتمہ ہو ،آج ملک کاہر نوجوان ڈگری ہاتھوں میں اٹھائے
نوکری کی تلاش میں سرگرداں نظرآتاہے۔خدا کرے کہ وہ دن جلد ہمارے ارضِ وطن
میں آجائے تاکہ ہم بھی دنیامیں سراُٹھا کر جینے کے قابل ہو جائیں۔ |