۲۰۰۲ کی ڈائری: بھاجپا، امریکہ اور مسلمان - قسط ۔۱

ہندستانی سیاست کو لے کر عام طور پر اس طرح کی گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے کہ مسلمانوں کو نریندر مودی منظور نہیں ہے۔ اسی سے وابستہ ایک سوال ہے کہ کیا مسلمانوں کو بھاجپا منظور ہے—؟ کیا نریندرمودی اور بھاجپا کی فکر کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا نریند ر مودی اسی خط پر نہیں چل رہے ہیں جس راستے پر آر ایس ایس اور بھاجپا نے انہیں چلنے کا اشارہ دیا ہے—؟ مسلمانوں سے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کرنے والی بھاجپا کو کیا کسی مجبوری کی حالت میں بھی عام مسلمان قبول کرسکتا ہے—؟ یہاں یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ عام بھاجپائی کو چھوڑیے، بھاجپا کے مسلم چہرے بھی کبھی مسلمانوں کی حمایت میں سامنے نہیں آئے بلکہ زیادہ تر تو مسلمانوں کی مخالفت کرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ سشما سوراج کے تازہ بیان کے مطابق انہوں نے بھاجپا کے کارکنان سے مسلمانوں کو رجھانے اور سمجھانے کی ہدایت دی ہے لیکن سشما بھول گئیں کہ مسلمان ابھی بھی بھاجپا کے دوراقتدار کو بھولے نہیں ہیں، جب کوئی بھی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب مسلم مخالفت کی تلوار مسلمانوں کو پریشان نہ کرتی ہو۔ مودی تو محض ایک مکھوٹا ہے— بھاجپا کی بنیاد ہی مسلم دشمنی کی بنا پر رکھی گئی ہے—

یہاں اس ڈائری کا ذکر ضروری ہے جو میں سن ۲۰۰۲ میں تحریر کررہا تھا۔ انتخاب نزدیک ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں بھاجپا بھی شامل ہے جو ایک بار پھر مسلمانوں کو رجھانے کاکام کررہی ہے— اس ڈائری کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ دس گیارہ برس پہلے کے بھاجپا کے اس چہرے کا جائزہ لیجئے، جس نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔ اور یقین کیجئے، کہ بھاجپا دوبارہ یہی کام کرنے جارہی ہے۔
۲۰۰۲ کی ڈائری: اندیشے، وسوسے اور لہولہان ملک—
اب چلئے دہشت پسندی کے کچھ منظر آپ کو دکھاتا ہوں____

منظر ایک ……
4؍اکتوبر 2002ء سب ٹی وی چینل پر منوج رگھومانشوی کا پروگرام کھلا منچ چل رہا ہے____ تماشائی ہال میں بیٹھے لوگ آپس میں جرح رکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جرح کرنے والوں میں راشٹریہ سہارا اردو کے ایڈیٹر عزیز برنی ہیں ____تو دوسری طرف ایودھیا متنازعہ سے روشنی میں آئے اور اپنی بے لگام زبان کے لئے مشہور پروین توگڑیا۔ موضوع ہے ’’اسلامی دہشت گردی……‘‘ منوج، پروین توگڑیا کے سُر میں ہی بولتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر مسلسل اپنا طنزیہ تیرچلارہے ہیں۔ قرآن کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ تماشائی ہال میں شور ہے۔ عزیز برنی اکیلے پڑے، اپنا بچاؤ کرنے میں پریشان نظر آرہے ہیں……
منوج رگھوونشی چیخ رہے ہیں…… نہیں آپ کہئے…… قرآن صرف اس مخصوص وقت کے لئے صحیح تھا، یا آج کے لئے۔‘

توگڑیا پوچھتے ہیں____ آخر اسلامی دہشت گرد کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی مسلمان سامنے کیوں نہیں آتا۔ ایک بھی مسلمان؟

تماشائی ہال میں بیٹھے زیادہ تر لوگوں کے ہاتھوں میں فتوے، حدیث اور قرآن پاک کے الگ الگ نسخے، آیتوں کے ترجمے موجود ہیں____ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا جواب ایک ایسے آدمی کو دینا ہے جو ایک اردو روزنامہ کا ایڈیٹر ضرور ہے مولوی یا عالم نہیں۔

بات کھلے منچ کی نہیں ہے۔ آئے دن ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جب وشوہندو پریشد اور شیوسینکوں کو تماشاگاہ میں بیٹھا کرپروین توگڑیا جیسے بے لگام جانوروں کے سامنے ڈاکٹر برنی جیسے سیدھے سادھے لوگوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ایسے پروگرام ساری دنیا دیکھتی ہے اور جو پیغام ایسے پروگراموں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جاتا ہے، وہ بہت صاف ہوتا ہے____ مثلاً مسلمان بھگوڑے تھے…… اسلام تلوار کے زور سے پھیلا…… اسلام دہشت گردی کا مترادف ہے…… اور مسلمان ،وطن کا غدار ہے۔

ہندوستان میں اسلام مخالف لہر کچھ عرصے سے بے حد تیز ہوئی ہے۔ نتیجے کے طور پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسرے لفظوں میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت، یعنی مسلمانوں نے اگر ایک بار پھر خود کو عدم تحفظ کے گھیرے میں دیکھنا شروع کیا ہے، تو یہ کہیں سے غلط نہیں ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کا وزیراعظم تک جذبات کے بہاؤ میں مسلمانوں کے خلاف آگ اُگلنے میں ذرا بھی ہچک محسوس نہیں کرتا ہے، وہاں یہ سوچنا تو پڑے گا ہی____ کہ آخراس شدّت پسند رویےّ کا سچ کیا ہے____؟ واجپائی جیسے سیاستداں کو بھی مسلمانوں کے بارے میں وہی ٹیپ چالوکرنا پڑتا ہے…… جسے وشوہندوپریشد ایک لمبے عرصہ سے بجاتا آیا ہے____ تب سوچنا پڑتا ہے کہ دال میں کچھ نہیں بلکہ ’خطرناک کالا ضرور ‘ ہے۔

ایک وقت ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایودھیا متنازعہ یا ہندوتوا کا ’موضوع‘ اقتدار کے گلیارے میں خاص ہلچل پیدا کرنے میں ناکام ہے____ لیکن بعد کے حادثوں نے بتادیا کہ ایسا سوچنے والے غلط تھے۔ دراصل ہندستانی تہذیب میں مذہب کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ 100کروڑ کے عوام سے لے کر اقتدار اور سیاست کے گلیارے تک____ ہر زمانہ، ہر عہد کا اکیلا فاتح یا ہیرو ’مذہب‘ رہا ہے…… اور یہ بھی کھلا سچ ہے کہ نئی صدی کا دوسرا سال ختم ہوتے ہوتے اسی مذہب کی آڑلے کر، ایک بار پھر سے اسلام کو جھوٹا، قرآن کو غلط کتاب اور مسلمانوں کو دہشت گرد عائد کرنے کی کارروائی اپنی تمام حدیں پھلانگ چکی ہے۔

منظر2-
24؍ستمبر2002ء کو ایک ساتھ دو حادثے ہوئے تھے____ جموں کشمیر ودھان سبھا الیکشن کے دوسرے دور میں 28سیٹوں کے لئے پولنگ ہوئی۔ اس دن صبح سے جی نیوز چینل ’’فدائن، انکاؤنٹر، پروگرام میں رونگٹے کھڑا کرنے والا لائیوشودکھا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر اپنے آدمی ہونے پر شرمندگی ہورہی تھی۔ 16گھنٹے تک چلنے والی کارروائی اس وقت ختم ہوئی جب سیکورٹی فورسیز نے گوگی باغ کے مکان میں چھپے دونوں فدائن دہشت گردوں کو مار گرایا۔ ذرا اس خطرناک منظر کو یاد کیجئے۔ ایک طرف جاری الیکشن، دوسری طرف ’’دہشت گردوں کو مار گرانے کی کارروائی…… کیمرا بار بار چھت پر گرے ایک دہشت گرد پر فوکس ہوتا ہے…… جو مرچکا ہے۔ مکان سے آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں…… آگ میں جلتا ہوا ایک چھجہ دہشت گرد کے پاس گرتا ہے…… اور دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گرد کا بدن آگ کے شعلوں میں جھلس جاتا ہے……

25-20 سال کے ان جوانوں کی شناخت اسلامی دہشت گرد کے طور پر کرائی جارہی ہے۔ اسلام، جو پیدائش سے اپنی تعلیم میں تشدد، بھید بھاؤ، چھوا چھوت کے خلاف، جنگ لڑتا رہا ہے____ 20ویں21-ویں صدی میں ’بڑی طاقتوں‘ کے ذریعہ ایک سچے مذہب اور دنیا کی دوسری بڑی آبادی کو آج دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے۔

24؍ستمبر کو ہی گجرات کے اکچھردھام مندر پر فدائن ____دہشت گردوں کے حملے کی خبریں سارے ملک میں چیخ رہی تھیں۔ لوگ سانس روکے اسلامی دہشت گردی اور پولیس کمانڈو کی کارروائی کو دیکھ رہے تھے۔ ملک کا ہر نیوز چینل اس لائیو شو کو زیادہ سے زیادہ سنسنی خیز بناکر دکھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کیا یہ دونوں کارروائیاں اسلامی تھیں؟ یا صرف دہشت گردی کی کارروائیاں……؟

آپ کہہ سکتے ہیں کہ فدائن چونکہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کررہے تھے…… اس لئے یہ اسلامی کارروائی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ’فدائن‘ اس طرح کی کارروائی سچ مچ اسلام کے نام پر کررہے تھے؟ اسلامی تحریکوں سے وابستہ ’حرکت القصاص، لشکر طیبہ یا حرکت المجاہدین کو چیخنے دیجئے____ حقیقت میں کوئی بھی ہندوستانی مسلمان اسے گلے اتارنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ فدائن ان کے آدمی ہوسکتے ہیں…… یا یہ سب کچھ اسلام کو بچانے کے لئے کیا گیا تھا…… اس کے بعد بھی، ابھی حال تک جموں اور کشمیر میں (اگست 2003) ہونے والے فدائین حملوں کے بارے میں خود کیجئے…… جب جب دہشت گردی کا کوئی بھی ’حادثہ‘، مذہب یا خاص طبقہ سے جوڑ دیا جاتا ہے تو پورے ملک میں رہنے والے اس فرقہ کے لوگوں پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے……

حقیقت میں امریکہ یہی چاہتا ہے۔ اسلام ایک بڑی طاقت کے طور پر ملک کے نقشے پر ابھرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس اثر کو مٹانے کے لئے مسلمانوں اور اسلام کو حاشیے پر ڈھکیلنے کے لئے امریکہ نئے نئے بہانے ڈھونڈتا رہا ہے اور ایک بڑی طاقت کا ساتھ دینے کے لئے چھوٹے بڑے سبھی ملک مل کر امریکی تاناشاہ کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہوگئے تھے____ حقیقت میں دیکھا جائے تو امریکی تہذیب کا سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور گھنونا اعلان تھا…… اسلامی دہشت گردی کا اعلان…… آج تک کسی بھی مذہب…… ملک یا سماج میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کو مذہب سے جوڑ کر نہیں دیکھا گیا____ عیسائی دہشت گردی، یہودی دہشت گردی یا ہندو دہشت گردی کی مثالیں کبھی نہیں دی گئیں۔ سن 84 میں کچھ وقت کے لئے سکھ دہشت گردی، کی آواز اٹھی تھی۔ مگر بعد میں ’اگروادی‘ یا آتنک وادی کہہ کر اس کلنک کو مذہب سے ہٹانے کی کوشش کی گئی…… پھر اسلامی دہشت گردی کیوں؟ دوہری ذہنیت یا دوہرا رویہ کیوں؟ کیا یہ کل ملاکر مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی نہیں ہے……؟

یہ سوال حقیقت میں غور طلب ہے کہ کیا این ڈی اے کا ساتھ دینے والی سبھی پارٹیاں اور کچھ کچھ کانگریس بھی ایسا سوچنے پر مجبور ہے……؟ کیونکہ مسلمانوں کا ساتھ دینے پر جس طرح پاسوان جیسوں کو حاشیے پر پھینک دیا گیا ہے، یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ دراصل ووٹ بینک کے لئے دلت اور مسلمان دو ایسے بڑے ہتھیار رہ گئے ہیں جن کے اردگرد تمام پارٹیاں ڈول رہی ہیں۔ مسلمان جو نہ کبھی کمیونسٹ پارٹی کا ہوا، نہ کانگریس کا، نہ بی ایس پی کا ہوا اور نہ ہی سماجوادی کا۔ مسلمانوں کے ووٹ بینک کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتے گا،یہ وہ الیکشن میں اچھے اچھوں کی نیند اڑا دیتا تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ سیاست، حکمت عملی یا ڈپلومیسی کے ’ٹانکے بھرانا‘ بھی ناممکن تھا۔ مسلمانوں کو توڑ دو تو انتخابی تجزیہ خود آسان ہو جائے گا، کا اصول زیادہ آسان تھا۔ ادھر امریکہ نے لادین کی مقبولیت سے گھبرا کر اسلامی دہشت گردی کا راگ چھیڑا____ اور ادھر بی جے پی کی سیاست میں تیزی آگئی۔

تو کیا بی جے پی کا برسوں پرانا خواب یہی تھا۔ حکومت کرنے کا اکیلا، خاموشی اور صبر کی بنیاد پر مبنی نظریہ یعنی…… صبر سے کام لو۔ وقت کی پرواہ مت کرو۔ بھگوا تعلیم، بھگوارنگ اور بھگوا انجکشن……دیر آیددرست آید کے نظریوں پر کام کرتی بی جے پی سرکار کو اب صرف ایک قلعہ فتح کرنا ہے____ بھاجپا پر سے این ڈی اے کے ’چوکٹھے‘ کو الگ کرنا۔ نیوٹن کے نظرئیے اپنا رنگ دکھاتے ہیں…… تو اگلے انتخاب تک بی جے پی کو کسی بھی بیساکھی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گجرات میں مودی کی فتح سے ان کا سینہ پہلے ہی ’چوڑا‘ ہوچکا ہے……
Musharaf Alam Zauqi
About the Author: Musharaf Alam Zauqi Read More Articles by Musharaf Alam Zauqi: 20 Articles with 22543 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.