بڑا مجرم کون۔بجلی چور یا ٹیکس چور ؟

 پچھلے کئی دنوں سے بجلی چوری اور اس کے روک تھام سے متعلق خبریں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑے تواتر کے ساتھ منظرِ عام پرآرہی ہیں۔ آج کے اخبارات میں بھی مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے بجلی چوری سے متعلق خبریں شہ سر خیوں کے ساتھ شا یع ہو ئی ہیں ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ بجلی چوری پر دو سے تین سال قید با مشقت اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا بھی زیرِ غور ہے۔ دوسری خبر یہ بھی ہے کہ ماہِ اکتوبر سے گھریلو صارفین کے لئے بجلی چودہ روپے فی یونٹ جبکہ کمر شل صارفین کے لئے انیس روپے فی یو نٹ کر دی جائیگی۔یہ دونوں باتیں ایک عام آدمی کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔اس میں بھی کو ئی شک نہیں کہ ملک اس وقت توانائی کے سنگین بحران سے گزر رہا ہے جس نے قومی معیشت کو مفلو ج کر کے رکھ دیا ہے۔اس بد حالی کا سب سے بڑا سبب بجلی اور گیس کی کم پیداوار ہے۔اور رہی کسر ان کی چوری اور لوٹ مار نے نکا ل دی ہے۔یقینا بجلی چوری یا گیس چوری ایک قبیح فعل ہے اور اسے کسی بھی صورت میں جا ئز قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ایک سوال جو عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کو اس حال پر کس نے پہنچایا ؟ اس بد حالی کا ذمہ دار کو ن ہے؟وہ جس نے اربوں روپے کی ٹیکس چوری کی اور اپنے ملوں ،فیکٹریوں اور سی این جی اسٹیشنوں کے لئے بجلی اور گیس چوری میں بھی ملو ث ہے یا وہ جو اپنے گھر کے لئے چند سو یا چند ہزار روپے کی بجلی چوری با ا مرِ مجبوری کر رہا ہے۔

پاکستان کے پارلیمنٹ کی طرف ذرا غور کیجئے ! 2012-2013 کے اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ کے 305 ارکان کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر ہی نہیں تھا،70 فی صد ارکان نے کسی قسم کا ٹیکس جمع ہی نہیں کرایا۔ 2011میں ہمارے صدرِ محترم جناب آصف علی زرداری اور انکے 34 وزراء نے ٹیکس ریٹرن جمع کرنے کی ز حمت ہی نہیں کی۔لیکن آپ ان کے تنخواہیں،الاوئنسز اور مراعات دیکھیں تو حیران رہ جائینگے۔ علاوہ ازیں اسی مراعات یا فتہ طبقہ نے جس بے دردی سے قومی خزانہ کو لو ٹا ہے اور کرپشن کے جو نئے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں ،انہیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہاں سرمایہ دار طبقہ کے لئے ٹیکسیشن کا نظام ہی مو جود نہیں،مالیات کے متحرک کرنے کا نظام ہی نہیں ہے،حال ہی میں نواز شریف کی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ملک کی اقتصادی حالت کو درست سمت میں لے جانے کے لئے سر مایہ دار طبقہ پر ٹیکس لگانے کو تیار نہیں۔جس کی ایک وا ضح مثال یہ ہے کہ ہمارے ہا ں آدھے سے زیادہ پاکستان جاگیرداروں کی پرایؤیٹ ملکیت میں ہے۔سینکڑوں ایکڑ زمین ایک ایک فرد کی ملکیت ہے حالانکہ 1973کے آئین کے مطابق اجاراداریوں پر آئینی قدغن اور دستوری پابندی لگائی گئی ہے اور اس پر طراء یہ کہ ان کی آمدنی پر کسی قسم کا ٹیکس بھی نہیں لگایا جاتا۔

کسی بھی معیشت کی ترقی کے لئے ٹیکس کلچر کا قیام نا گزیر ہوتا ہے حکو متوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ آمدنی والوں کی جانب سے ادا کئے جانے محاصل ہوتے ہیں۔سرکاری مشینری کرپشن سے پاک ہوتی ہے اور حکو متیں ٹیکس کی رقم کو ملکی مفاد، قومی ترقی اور عوامی بہبود کے لئے درست طور پر استعمال کرتی ہیں۔انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ پورے ملک
میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بمشکل سات لاکھ ہے جو کل آبادی کا ایک فی صد سے بھی کم ہے ان میں بڑی تعداد بڑی آمدنی والے افراد کی ہے جن میں مقتدر طبقات کے لوگ، حکمران، ا ر کا نِ اسمبلی، صنعتکار، زمیندار ، وڈیرے اور سردار شامل ہیں۔

اگر کروڑوں کمانے والوں سے حکو مت ٹیکس وصول نہیں کر سکتی۔اربوں روپے کرپشن کرنے والوں کو پکڑ نہیں سکتی، پاکستان کے وسائل پر قابض لوگوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہو، جنہوں نے پاکستان کے قانون و آئین کو اپنے گھر کی باندی بنا رکھی ہے تو پھر چند سو یا چند ہزار روپوں کی بجلی چوروں کے لئے اتنے سخت قوانین بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ پہلے یہ فیصلہ تو کیجئے کہ بڑا مجرم کو ن ہے ؟ ٹیکس چوریا بجلی چور ؟ پہلے بڑے مجرموں پر ہا تھ ڈالئے پھر چھو ٹے مجرموں کو قا بو کیجئے کیونکہ جب تک بڑے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جائیگا تب تک توانائی کی موجودہ ابتر صورتِ حال میں بہتری آنے کا کو ئی امکان نہیں۔بڑے مگر مچھ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے وسائل کو کھا گئے ہیں بلکہ با ہر ممالک سے آ یا ہوا امداد اور قر ضہ بھی ہڑپ کر گئے ہیں۔ان مگر مچھوں اور بڑے بڑے چوروں
کو قابو کرنے کے لئے سخت قوانین وضع کیجئے۔چھوٹے چھوٹے چور خود بخود راہِ راست پر آ جا ئینگے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315694 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More