صدر زرداری رخصتی سے پہلے ہی
رخصتی پہ چلے گئے ہیں۔زرداری نے سیاسی بصیرت اور ایک مضبوط حکمت عملی کے
ذریعے پانچ سال آسانی سے طے کر لئے یہ ان کا سفر بہت سی آزمائشوں کا سفر
رہا۔زرداری صاحب ایک مضبوط صدر اس لئے بھی تھے کہ وہ ایک پارٹی سربراہ کی
حیثیت رکھتے تھے۔قانونی تقضے پورے کرنے کے لئے زرداری نے پارٹی سربراہی تو
چھوڑ دی لیکن حقیقت میں وہی اول وآخر رہے جبکہ اس کے بر عکس ممنون حسین
صاحب کو ’’جی حکم میرے آقا‘‘کا کردار ادا کرنا ہے۔ممنون حسین صاحب میاں
صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ہیں سیاست کے علاوہ ایک اچھے خاصے بزنس مین
بھی ہیں۔کراچی سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین کو کراچی کی حق پرست کہلانے
والی پارٹی نے بھی غیر مشروط طور پر حمایت کا اعلان کردیا ہے لیکن یہ غیر
مشروط صرف چند دنوں کی ہوگی ۔شایدممنون صاحب کے مسند صدارت پر براجمان ہونے
کے بعدایم کیو ایم کے نواز مخالف نواز شریف کے ’’چرنوں‘‘میں بیٹھنے کا شرف
حاصل کریں گے اور کچھ آنے والے سال اچھے گزر جائیں گے لیکن کراچی کی عوام
جوں کی توں رہے گی۔یہ سلسلہ ہماری یاد سے پہلے کا چلا آرہا ہے مشرف دور سے
دیکھ لیں جو بھی اس جگہ جاتے ہیں نہ خالی جھولی جاتے رہے اور نہ خالی جھولی
آتے ہیں۔مشرف دور میں چوہدری برادران بھی الطاف سے دعائیں اور دوائیں لیتے
رہے اور پھر زرداری دور میں ایک خصوصی ایلچی ’’مسٹر رحمٰن ملک‘‘ تو اکثر اس
پریم نگر میں پریم کے گیت گاتے رہے ہیں ۔ایم کیو ایم کسی کو ناراض کرنے
والی جماعت نہیں ہے انکو حکومت کی دعوت دی جائے تو کبھی انکار نہیں کرتی
البتہ شرمانا اور سوچنا ان کی فطرت میں رہا ہے۔بقول ہمارے وزیر خزانہ شریف
’’میاں نواز شریف اور الطاف بھائی کی ایک قسم کی سوچ اور پالیسی ہے‘‘۔اب
عوام کیا نتیجہ نکالیں؟دراصل،ایم کیوایم بغیر حکومت کے نہیں رہ سکتی۔مسلم
لیگ اور ایم کیو ایم کے اس نئے ’ جیون سے مسلم لیگی قوم پرستوں اور نظریاتی
لوگوں کو کافی دھچکا لگا ہے جو بیچارے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔مسلم لیگ کے
وفد کی نائن زیرو آمد پر غوث علی شاہ،ممتاز بھٹو،لیاقت جتوئی،ماروی میمن کے
علاوہ کوئی سندھ سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما شریک نہیں تھے۔ان کی غیر
موجودگی سے قوم پرست مسلم لیگیوں کی ناراضگی عیاں ہوتی ہے اور سندھ کی قوم
پرست جماعتوں نے میاں صاحب اور ان کی پارٹی کی حمایت کی تھی وہ بھی کافی
ناراض دکھائی دیتے ہیں اور خصوصا مسلم لیگ فنکشن ایم کیو ایم کے اتحاد سے
ضرور متاثر دکھائی دے رہی ہے۔ایم کیو ایم کے نائن زیرو پر جانے والے پیر
ومرشد الطاف کی مرضی سے جاتے ہیں۔الطاف حسین کچھ دن پہلے تک مسلم لیگ کو
طالبان اور دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام دیتے رہے ہیں اور خود کو
سیکولرزم اور قوم پرست کہنے والے آج کسی نہ کسی معاہدے کے تحت ہی ساتھ دینے
کا ارادہ رکھتے ہونگے۔مسلم لیگ کے رانا ثناء اﷲ خان نے کہا ہے کہ ’’ایم کیو
ایم سے کوئی اتحاد نہین ہو سکتا‘‘۔اس کے جواب مین ایم کیو ایم کے حیدر عباس
رضوی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ہمارے پاس چل کے آئی اس لئے صدارتی امیدوار کو
ووٹ دینے کا اعلان کیا۔ اس وقت کچھ حلقے الطاف حسین کے برطانوی مقدمات کے
حوالے دے رہے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میاں صاحب الطاف کو برطانیہ سے
کسی قسم کا ریلیف فراہم کروا سکیں ۔ سب معاہدے خفیہ ایجنڈے کے تحت ہی ہوئے
ہیں اور کبھی عوام کے سامنے بھی نہیں لائے جائیں گے ہاں کچھ دنوں بعد آثار
دکھائی دینا ضرور شروع ہو جائیں گے ۔
حالات یہی بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب کو آگے کچھ وقت پڑنے والا ہے ایک طرف
پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخابات کابائیکاٹ کردیا ہے اور دوسری طرف عمران
خان صاحب نے اپنا صدارتی امیدوار بھی کھڑا کیا ہوا ہے اور ممبران پارلیمنٹ
سے ووٹ بھی مانگے ہیں اس کے علاوہ خان صاحب عید کے بعد نئے ایجنڈے کے تحت
اپنے با اخلاق کارکنوں کے ذریعے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کا اعلان
کر رہے ہیں اس سلسلے میں اے پی سی میں شرکت سے بھی انکار کردیا ہے۔یاد رہے
برطانیہ جانے کے بعد سارے اعلانات ہورہے ہیں اس سے پہلے خان صاحب نے کوئی
واضح اعلان نہیں کئے تھے۔خان صاحب میں مستقل مزاجی ابھی تک دیکھنے میں نہیں
آئی کبھی موصوف الطاف کے کلاف دھواں دار ہوجاتے ہیں تو پھر کبھی میاں نواز
شریف کے خلاف اور اب ان کو اور ان کے بااخلاق جیالوں کے لئے ایم کیوایم اور
مسلم لیگ ن کا اتحاد سے ضرور کچھ دن بہلانے کے مل جائیں گے لیکن عملی
کارکردگی صفر جس طرح زہرا شاہد کے قتل کا اندراج الطاف کے خلاف کروا رہے
تھے پھر موصوف الطاف کے ملک برطانیہ میں گھومنے پھرنے کے بعد تھوڑے سے
ٹھنڈے پڑ گئے ہیں اور ان کا نیا ٹارگٹ عدلیہ سے محاذ آرائی کا لگ رہا ہے ۔خان
صاحب کی پریس کانفرنس اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ خان صاحب عدلیہ سے
کافی ناراض ہیں اور عدلیہ کو مسلم لیگ نواز کا حمایتی ادارہ کہہ رہے ہیں۔اب
یہ عید کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ خان صاھب کیا پروگرام بناتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کو بھی اپنی سیاست چمکانے کا خاص موقع مل رہا ہے ۔پیپلز پارٹی
سندھ میں حکومت پر براجمان ہے جبکہ اپنے پرانے اتحادی ایم کیو ایم کے خلاف
نالاں بھی دکھائی دے رہی ہے اور مسلم لیگ ،ایم کیو ایم اتحاد سے اس میں
مزید اضافے کا مکان ہے۔ہاں البتہ سندھ میں کوئی گیم نہیں کھیلے گی لیکن
وفاق اور پنجاب میں موقع کی تلاش میں ہے اس موقع کو سب سے پہلے ڈار صاحب نے
بجٹ کی صورت میں مہیا کیا اور بعد میں آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنے
مخالفین کے لئے بھرپور مواقع فراہم کئے۔سندھ میں شرجیل میمن میاں نواز کے
خلاف ہمیشہ کچھ تلاش کی تگ ودو میں رہتے ہیں اور کوئی موقع ضائع نہیں ہونے
دیتے اسی طرح وفاق مین پیپلز پارٹی کے پرانے ’جیالے‘ اعتزاز احسن صاھب بھی
موجود ہیں جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو بحال کروانے مین کردار ادا کیا
تھا پھر اسی عدلیہ سے وزیراعظم گیلانی کو ناہل کروایا تھا ۔اب اعتزاز صاحب
کے الفاظ سے عدلیہ سے ناراضگی محسوس ہوتی ہے۔اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے
فیصل رضا عابدی موجود ہین ایسا لگتا ہے کہ انہین عدلیہ اور چیف جسٹس کا
تارغت اچیو کرنے کا ٹاسک ہی دیا گیا ہے۔موصوف ٹی وی چینلز بڑی مہارت سے چلا
رہے ہوتے ہیں اور سنتے کم ہیں اور اپنی کرتے زیادہ ہیں یہ بھی عوامی
مقبولیت حاصل کرنے کا ایک اچھا فن ہے۔
وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اب قوم کو خالی جمہوریت پہ نہ ٹرخایا جائے ۔آج
ہمارا ملک جس دور سے گزر رہا ہے اور عوام کی حالت مزید بد تر ہوتی جارہی ہے
۔اس قوم کو صدارتی انتخاب سے اس وقت تک کوئی فرق نہین پڑتا جب تک اس نام
نہہاد جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں۔آج بھی دہشت گردوں نے پخونخواہ
کے سیکورٹی اداروں کو چیلنج کیا ہے اور پشاور جیل پر حملہ کر کے آٹھ پولیس
والوں کو شہید کر دیا ہے۔کراچی بدامنی سب کے سامنے ہے جو ختم ہونے کا نام
نہیں لے رہی۔نئے صدر کا تعلق بھی کراچی سے ہے دیکھتے ہین کہ وہ کراچی کے
حالات ٹھیک کرنے میں اپنا کتنا کردار ادا کرتے ہیں یا پھرسابقہ حکمرانوں کو
روایت پر عمل کرتے ہوئے خود کو اسلام آباد کی پر کشش فضاوٗں تک محدود کرتے
ہیں۔ |