حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت جنازہ بن ابی امیہ
ازدی ؒ کہتے ہیں میں اور ایک انصاری ہم دونوں نبی کریم ﷺ کے ایک صحابیؓ کی
خدمت میں گئے اور ان سے عرض کیا ہمیں آپ کوئی ایسی حدیث بیان کریں گے جو آپ
نے حضور ﷺ سے سنی ہو اور اس میں حضور ﷺ نے دجال کا ذکر کیا ہو،انہوں نے
فرمایا ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ہم لوگوں میں بیان فرمایا اس میں ارشاد فرمایا
میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں۔ یہ جملہ تین دفعہ فرمایا پھر فرمایا کوئی نبی
ایسا نہیں آیا جس نے دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ اے امت والو! وہ تم میں ہو گا وہ
گھنگھر یالے بالوں والا اور گندمی رنگ والا ہو گا۔ اس کی بائیں آنکھ پر
ہاتھ پھرا ہوا ہو گا اور وہ مٹی ہوئی ہو گی۔ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہو گی
اور اس کے ساتھ روٹی کے پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی وہ بارش برسائے گا لیکن
درخت نہیں اگا سکے گا اور وہ ایک آدمی پر غالب آ کر اسے قتل کردے گا اس کے
علاوہ اور کسی کو قتل نہیں کر سکے گا مسجد حرام ، مسجد مدینہ، مسجد طور،
مسجد اقصیٰ اور تم پر دجال متنبہ نہیں ہونا چاہیے وہ کانا ہو گا اور تمہارا
رب کا نا نہیں ہے۔
قارئین آج ایک تحویل عرصے کے بعد دوبارہ اپنے معمولات کو بحال کرتے ہوئے ہم
اپنے کالمز ’’انصار نامہ‘‘کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے
دوران کالمز نہ لکھنے کی چند انتہائی اہم وجوہات تھیں جو ہم وقتاً فوقتاً
اپنے دوستوں اورخیر خواہوں سے شیئر کرتے رہیں گے ۔ آج کے کالم کے چار حصے
ہیں اور چاروں کا تعلق ہمارے معاشرے کے ساتھ انتہائی گہر ا ہے سب سے پہلے
ہم آج کے انتہائی خطرناک چیلنج کی طرف اشارہ کر رہے ہیں مون سون کا آغاز
ہونے سے قبل محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اس سال معمول کی نسبت کم
بارشیں دیکھنے میں آئیں گی اس پیش گوئی کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہاتھا
کہ ماضی کے برعکس کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کی صورتحال اس سال پیدا نہیں ہو
گی اور سیلاب کا خطرہ سامنے نہیں آئے گا۔ محکمہ موسمیات کی اس وقت سے پہلے
کی گئی پیش گوئی کے برعکس برسات کے موسم سے پہلے اور ساون کے مہینے کے
دوران ملک کے طول و عرض میں ہونے والی شدید ترین بارشوں کی وجہ سے صورتحال
روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی ہے ۔ ماہرین کا اب یہ اندازہ ہے کہ اگر بارشوں
کا سلسلہ اسی طریقہ سے جاری رہا تو ملک کے مختلف دریاؤں اور نہروں میں
سیلاب کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے ہم نے اس حوالے سے ایف ایم 93میرپور ریڈیو
آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں ایک
خصوصی مذاکرہ رکھا جس کا عنوان ’’ مون سون کی بارشیں ، سیلاب ۔۔۔ہماری
تیاریاں ۔۔۔؟ ‘‘تھا پروگرا م میں ہمیشہ کی طرح استاد محترم راجہ حبیب اﷲ
خان ایکسپرٹ کے طور پر شریک ہوئے ۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان
میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور طبی ماہر ڈاکٹر ریاست علی چوہدری کا
کہنا تھا کہ اس موسم کے دوران صحت کو بہت سے خطرات پیش ہوتے ہیں جن میں
گیسٹرو یا ہیضہ سرفہرست ہے فوڈپوائزننگ سے جہاں دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں
وہاں سب سے بڑا مسئلہ چھوٹے بچوں کا ہے جنہیں سب سے زیادہ رسک پر کہا جا
سکتا ہے مون سون کے موسم میں بارشوں کی وجہ سے ملک کے اکثر علاقوں میں
گھروں میں سپلائی کیے جانے والے پانی کے پائپس اور سیوریج کی لائنز آپس میں
مل جاتی ہیں اور پینے والا پانی مضر صحت عناصر کی وجہ سے ہلاکت آفریں بن
جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ خطرے کی زد میں آ جاتے ہیں ڈاکٹر ریاست
علی چوہدری کا کہنا تھا کہ اس موقع پر عام عوام کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ
وہ اس خطرناک موسم میں گھر کی بنی ہوئی کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دیگر
بازاری کھانوں اور مشروبات سے اجتناب کریں تاکہ کسی بھی قسم کی بیماری سے
بچا جا سکے۔ ڈاکٹر ریاست کا یہ بھی کہنا تھا کہ پانی کی وجہ سے مچھروں کی
افزائش میں بھی بڑھوتری ہوتی ہے اور اس کے لیے بھی خصوصی حفاظتی اقدامات
اور احتیاطی تدابیر ضروری ہیں کیونکہ ڈینگی بخار اور ملیریا پھیلنے کی سب
سے بڑی وجہ خاص اقسام کے مچھر ہیں ۔ پروگرام کے دوسرے مہمان آزاد کشمیر
یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی تھے۔ ڈاکٹر سید دلنواز
گردیزی سے ہمارا تعلق انتہائی گہرا اور قریبی ہے 1993میں ہم نے ایف ایس سی
کرنے کے بعد زرعی یونیورسٹی کالج راولاکوٹ میں داخلہ حاصل کیا اور بی ایس
سی آنرز کی چار سالہ ڈگری حاصل کرنے کے اس سفر میں ہمارا حاصل سفر جن چند
شخصیات اور اساتذہ کی قیمتی رہنمائی اور شفقت تھی ان میں ڈاکٹر سید دلنواز
گردیزی سرفہرست تھے۔ ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی پلانٹ بریڈنگ اینڈ جنیٹکس کے
شعبہ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کیے ہوئے ہیں اور ان کا شمار آزاد
کشمیر پاکستان اور اگر تمام اسلامی ممالک میں ماہر ترین لوگوں میں کیا جائے
تو بے جا نہ ہو گا ۔ ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی نے انتہائی محبت اور شفقت سے
بی ایس سی آنرز کے دوران ہماری رہنمائی بھی کی اور جہاں جہاں ہمیں ٹھوکر
لگنے کا امکان تھا وہاں وہاں ہماری حفاظت بھی کی۔ ہم ان کی تمام محبتوں اور
شفقتوں پر عمر بھر ان کے مشکور رہیں گے۔ ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی نے
پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں
سیلاب کی سب سے بڑی وجہ قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کی نا شکری اور اﷲ تعالیٰ
کے عنائت کیے گئے وسائل کو ضائع کرنا ہے ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی کا کہنا
تھا کہ آزادی حاصل کرتے وقت 65سال قبل آزاد کشمیر میں چالیس فیصد کے قریب
رقبے پر جنگلات موجود تھے ۔ ٹمبر مافیا اورمحکمہ جنگلات کے کرپٹ افسران کی
ملی بھگت سے گزشتہ 65سالوں کے دوران دولت کمانے کے لیے ان جنگلات کی اس بے
دری سے کٹائی کی گئی کہ آج آزاد کشمیر میں جنگلات دس فیصد سے بھی کم رقبے
پر باقی رہ گئے ہیں جنگلات کی بے دردی سے کی جانے والی اس کٹائی کی وجہ سے
پورے خطے میں دریاؤں میں آلودگی میں اضافہ ہوا زمینی کٹاؤ بڑھنے کی وجہ سے
زرخیزی بھی متاثر ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ ڈیموں میں پانی زخیرہ کرنے کی
صلاحیت بھی کم ہونے لگی۔ ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی کا کہنا تھا کہ اس تمام
صورتحال میں اگر ہم نے بحیثیت قوم کچھ نہ سیکھا اور ترقی یافتہ اقوام اور
مہذب معاشروں کی تقلید نہ کی تو انتہائی خطرناک مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ہمیں پورے خطے میں نئے سرے سے درخت لگانا ہوں گے اپنے ماحول کو صحت مند اور
خوشگوار رکھنے کے لیے ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنا ہو گا اور اس کے
ساتھ ساتھ ان تمام چیزوں سے بچنا ہو گا کہ جن کی وجہ سے تباہی پیدا ہو رہی
ہے۔ راجہ حبیب اﷲ خان نے اس موقع پر ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی سے سوال کیا
کہ اس حوالے سے آزاد کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے انہوں نے
کیا اقدامات اٹھائے ہیں اس پرڈاکٹر سید دلنواز گردیزی نے جو جواب دیا وہ
انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزا تھاڈاکٹر سید دلنواز گردیزی نے بتایا کہ ہم
نے ایسے پودوں اور درختوں کی اقسام دریافت کی ہیں کہ جو کم سے کم پانی
استعمال کرتے ہوئے جلد ا زجلد جوان ہو سکیں اسی طرح آزاد کشمیر یونیورسٹی
میں ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے خصوصی شعبہ جات میں تعلیم دی
جا رہی ہے ۔Environmental Scinecesمیں آزاد کشمیر یونیورسٹی میں تعلیم کے
ساتھ ساتھ تحقیق کا شعبہ انقلابی بنیادوں پر استوار کیا جا رہا ہے۔ اس موقع
پر راقم نے ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی سے عرض کی کہ آپ پوری قوم کو کیا نصیحت
کریں گے تو ڈاکٹر سید دلنواز گردیزی کا کہنا تھا کہ میں پوری قوم سے یہی
گزارش کرتا ہوں کہ مال و ذر اور چند سکوں کے لالچ میں آنے والی نسلوں کا
مستقبل راکھ اور اندھیروں کے سپرد نہ کریں۔ لالچ سے بچیں اور درختوں کی
حفاظت کریں کیونکہ سیلاب سمیت تمام تباہ کاریوں کی بنیادی وجہ درختوں کی
کٹائی اور ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔
قارئین یہ تو وہ تمام گفتگو تھی جو انتہائی سنجیدگی کی حامل بھی ہے اور اہل
دل کے لیے درد کا مقام بھی رکھتی ہے۔ اس وقت ملک کے تمام علاقوں میں بارشوں
کا سلسلہ عروج پر پہنچتا جا رہا ہے اور خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کسی بھی
وقت کسی بھی نوعیت کی ہنگامی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ آزاد کشمیر میں
میرپور کے مقام پر منگلا ڈیم واقع ہے جہاں پانی کی سطح ریکارڈ حد تک بلند
کی جا چکی ہے۔ اور 1242فٹ کا ہوش ربا ہدف بھی حاصل کرنا واپڈا کا منشور ہے
اس حوالے سے جہاں میرپور ڈویژن میں بالعموم اور میرپور ڈسٹرکٹ میں بالخصوص
شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں۔ بعض دوستوں اور دشمنوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا
ہے کہ ڈیم کی ریزنگ چینی انجینئرز اور چینی کمپنی نے کی ہے اور پہلی مرتبہ
ریزنگ کیے گئے ڈیم کو ٹیسٹ کیا جائے گا۔ خدا نخواستہ کہیں پر کوئی بھی
کوتاہی رہ گئی یا تعمیراتی غلطیاں یا نقائص باقی رہ گئے اور ڈیم میں سیلابی
کیفیت موجود ہوئی تو پورے پنجاب کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہم امید
رکھتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور واپڈا کے ذمہ داران آزاد کشمیر حکومت اور
میرپور کی ضلعی انتظامیہ مل جل کر ان تمام خدشات کے ازالے کے لیے سنجیدگی
سے کام کریں گے۔
قارئین اب ایک چھوٹی سی چٹکی سیاست کی بھی لیتے جائیں استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان اور راقم ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 93میرپور کے مقبول ترین
پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘میں گزشتہ چھ ماہ سے با ر بار یہ
آواز بلند کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی آزا دکشمیر کے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید اور سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے درمیان موجود
غلط فہمیاں یا شکر رنجیاں اپنا نتیجہ سامنے لے کر آئیں گی اور کرپشن کے
الزامات کے حوالے سے ہم نے ان دونوں فریقوں کے ذمہ دارترین لوگوں سے اپنے
پروگرام میں متعددمواقع پر گفتگو بھی کی۔ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور
سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کئی پروگراموں میں شریک ہوئے اور
اپنے نادر خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے رہے ۔ تحریک عدم اعتماد کے پیش کیے
جانے کے بعد سے لے کر اب تک کی صورت حال انتہائی تشویش ناک اور پوری کشمیری
قوم کے لیے باعث شرم بھی ہے۔ آزاد ی کے بیس کیمپ میں ایسی صورتحال کا پیدا
ہونا ایک لمحہ فکریہ ہے حزب اقتدار کو اپنی صفائی پیش کرنا ہو گی اور حزب
اختلاف کو تہذیب اور صبر کا دامن تھامے رکھنا ہو گا۔ اس تمام سچوئیشن میں
سینئر وزیرچوہدری محمد یٰسین کے لیے کوئی بھی خوشخبری کسی بھی وقت سامنے آ
سکتی ہے۔ یہ ہماری سیاسی پیش گوئی ہے اﷲ کشمیری قوم کے حال پر رحم فرمائے
جو گزشتہ 65سالوں سے حقیقی آزادی کی منزل سے بھی دور ہے اور ابھی تک
خوشحالی کے حصول کے لیے اہل اور دیانتدار قیادت کے منتظر ہیں۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے جو ادبی نوعیت ہے ۔
عصمت چغتائی جب بمبئی سے لکھنو کے لیے روانہ ہونے لگیں تو ان کے شوہر شاہد
لطیف نے کہا کہ ’’لکھنو سے میرے لیے دو چیزیں لانا مت بھولنا ایک تو کرتے
اور دوسرے مجاز ‘‘
عصمت لکھنو میں اسرار الحق مجاز سے ملیں تو اپنے شوہر کی فرمائش دوہرا دی ۔
اس پر مجاز نے جواب دیا
’’اچھا گریباں اور چاک گریباں دونوں کو بلوایا ہے‘‘
قارئین شنید ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے چوہدری عبدالمجید
اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری دونوں کو پارٹی کے اجلاس میں طلب کیا تو
یقینا ’’گریباں اور چاک گریباں‘‘والی صورت حال عملی طور پر دیکھنے میں آئے
گی۔ |