بھارت میں ہندو جنونیت پسندی کی انتہا
انتخابات سے قبل مسلمانوں کی ہمدرد بننے والی کانگریس نے اپنا اصلی روپ
دکھایا
کانگریس مسلمانوں کو ملازمتوں٬ درسگاہوں اور دیگر سماجی و اقتصادی معاملات
میں ریزرویشن کی فراہمی کے انتخابی وعدے سے مکر گئی
بھارتی لوک سبھا میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے وزیر اقلیتی امور سلمان
خورشید نے مسلمانوں کو ریزرویشن کی فراہمی سے انکار کردیا
بھارت میں موجود سکھ ‘ جین ‘ بودھ اقلیتوں اور اب دلتوں کو ریزرویشن کا
حقدار قرار دے دیا گیا ہے مگر مسلماں اور عیسائیوں کو ان کے جائز حقوق سے
محروم رکھا جارہا ہے
ویسے تو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے حوالے سے یہ بات
زبان زد خاص و عام ہے کہ انتخابی منشور محض ایک رسمی دستاویز ہوتی ہے اسلئے
جن ارادوں اور وعدوں کا شمار اس میں کرایا جاتا ہے، ان پر عمل کا کوئی
ارادہ نہیں ہوتا اور بالخصوص تاریخ شاہد ہے کہ بھارت میں آج تک جتنی بھی
سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں سب نے بھارت میں موجود مسلمانوں سے ووٹ کے حصول
کے لئے وعدے تو بڑے کئے مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان وعدوں کو فراموش کر
کے مسلمانوں کو حقوق دینے کی بجائے انہیں کچلنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی اور
اب ایک بار پھر ایسا ہی کیا جارہا ہے حالانکہ انڈین نیشنل کانگریس نے لوک
سبھا کے حالیہ انتخاب 2009ء کے لئے اپنے منشور میں بڑے ہی صاف لفظوں میں
اعلان کیا تھا کہ کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں جس طرح کانگریس
حکومتوں نے اقلیتوں کو ان کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی پسماندگی کی بنیاد
پر سرکاری ملازمتوں اور تعلیم گاہوں میں ریزرویشن فراہم کی ہے، اسی طرح
قومی سطح پر بھی ان اقلیتوں کو کوٹا فراہم کیا جائے گا مگر اب انتخابات کے
بعد کانگریس اپنے اس وعدے سے یوں منحرف ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ اقلیتی
امور کے نئے وزیر سلمان خورشید نے سرے سے ہی اقلیتوں، خصوصاً مسلم اقلیت کے
لئے ریزرویشن کے امکان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ریزرویشن کے متعدد
سماجی نقصانات ہیں۔
انگریزی روزنامہ’ ’انڈین ایکسپریس“ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں وزیر موصوف
نے خیال ظاہر کیا ہے کہ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے
لئے کوٹا ایک ”دو دھاری تلوار“ ہے، جس کے نتیجہ میں مخاصمت، مزاحمت اور
عناد کو ہوا ملے گی، چنانچہ ان کو”اضافی مدد کا مستقل استفادہ“ فراہم کرنے
کے بجائے ایسے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے جس سے ان میں مقابلہ کی صلاحیت عود
کر سکے اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے مسٹر خورشید نے مزید کہا کہ آپ یہ نہیں
چاہیں گے کہ کسی کو خوش کرنے کے لئے کوشش کریں اور در حقیقت ان کو کوئی
راحت نہ ملے۔ انہوں نے مزید کہا۔ یہ ریزرویشن کے بجائے کچھ دوسرے ”زاویہ“
تلاش کرنے کا وقت ہے۔ ان کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی وزارت
ریزرویشن کو وہ ترجیح دینے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتی، جس کا وعدہ کانگریس
نے اپنے انتخابی منشور میں کیا ہے۔ حالانکہ اپنے سابقہ دور حکومت میں ڈاکٹر
من موہن سنگھ سرکار نے جسٹس راجندر سچر کمیٹی بٹھا کر متعین طور سے یہ
معلوم کرلیا ہے کہ بھارت میں موجود اقلیتوں کی خواہشات٬ معاملات اور مسائل
کیا ہیں اور ہندوؤں کے مقابلے میں اقلیتیں کن کن شعبوں میں پیچھے ہیں اور
اس کے ازالے کی کیا کیا تدابیر کی جانی چاہئیں؟ گویا مرض کی مکمل تشخیص ہو
چکی ہے۔ اس کے بعد جسٹس رنگا ناتھن مشرا کمیشن کی رپورٹ بھی حکومت کے سامنے
آچکی ہے ،جس میں اقلیتوں کے لئے قومی سطح پر % 15 ریزرویشن دینے اور 1950
کے صدارتی حکم میں ترمیم کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے پسماندہ طبقات کو
بھی ایس سی، ایس ٹی کے لئے مخصوص ریزرویشن میں اسی طرح شامل کرنے کی سفارش
کی گئی ہے جس طرح اس آرڈر میں اصلاح کر کے سکھ، جین اور بودھ پسماندہ طبقات
کو شامل کیا گیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ خود کانگریس نے
متعدد ریاستوں میں اقلیتوں کو ریزرویشن دیا ہے اور ”سنگھ پریوار“ کی ہزار
مہمات کے باوجود کہیں بھی کوئی سماجی پیچیدگی ایسی پیدا نہیں ہوئی ہے جس کو
بنیاد بنا کر ایک اہم انتخابی وعدے کو نظر انداز کیا جاسکے۔ اس وقت ہمارے
پیش نظر یہی پہلو ہے کہ بھارت میں برسراقتدار پارٹی نے اپنے انتخابی منشور
میں بھارتی مسلمانوں سے جو وعدہ کیا اب وہ اس سے مکر رہی ہے جو اس کے
متعصبانہ کردار سے پردہ اٹھانے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ
بھارت میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت میں موجود ہندو کسی بھی طور مسلمانوں
کو ان کا جائز حق دینے کے لئے کسی بھی طور تیار نہیں ہیں اور ہر ایک سیاسی
جماعت مسلمانوں پر ظلم اور ان کے استحصال کی روایت پر کاربند ہے بس صرف
انداز جدا جدا ہیں ۔ کانگریس کے اپنے انتخابی نعرے سے منحرفی اور مسلمانوں
سے کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی اس لئے اور اہم ہو جاتی ہے کہ محض اس ایک
وعدے کی وجہ سے ہی بھارتی مسلمانوں نے کھل کر کانگریس کی حمایت اور اس کی
فتح میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ اسلئے کانگریس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ
مسلمانوں سے کئے گئے اپنے وعدے کو عملی جامع پہنائیں اور ریزرویشن کے ذریعے
گزشتہ ساٹھ سالوں سے بھارتی مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے ظالمانہ رویئے
اور استحصال کا ازالہ کرے تاکہ ان ناانصافیوں اور محرومیوں کا تدارک ہوسکے
جو بھارت میں موجود مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ہورہا ہے کیونکہ ریزرویشن یا
کوٹا سسٹم اقلیتوں کے جسم نا تواں کے لئے وہی درجہ رکھتا ہے جو انتہائی
شدید مرض کی حالت میں آئی سی یو میں لائف سپورٹ سسٹم کا ہوتا ہے۔ بھارت میں
موجود مسلمانوں کو ذات اور برادری کے خانوں میں تقسیم کئے بغیر ہر اس مسلم
بچے کو مراعات فراہم کرائی جانی چاہئیں جو تعلیمی، سماجی یا اقتصادی طور سے
پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ سہارا پہلی نسل کے لئے ناگزیر، دوسری کے لئے مطلوب اور
تیسری کے لئے مستحسن ہوگا۔ اسلئے پہلے مرحلے میں اس بھید بھاؤ کو ختم کیا
جانا چاہئے جو مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ ریزرویشن کے
معاملہ میں 1950ء کے صدارتی آرڈر کی بنیاد پر برتا جارہا ہے۔ جسٹس رنگا
ناتھن مشرا کمیشن کی سفارش کے بمؤجب اس آرڈر میں ترمیم کی جائے اور جس طرح
اس سے قبل ترامیم کے ذریعہ سکھ، جین اور بودھ مذہب کے ایس سی ای ٹی طبقات
کو ہندو ایس سی ایس ٹی کے مساوی درجہ دیکر ریزرویشن کا مستحق تسلیم کرلیا
گیا ہے، اسی طرح مسلمان٬ عیسائی اور دلتوںکو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ اب
جب کہ سچر کمیٹی متعین طریقہ سے واضح کر چکی ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی
تعلیمی، سماجی اور اقتصادی طور سے پسماندہ ہیں اور ان کو باقی بھارتی قوم
کے شانہ بشانہ لانے کے لئے خصوصی اقدام کی اشد ضرورت ہے اور اس کے بعد جسٹس
رنگا ناتھن کمیشن یہ سفارش کر چکا ہے اقلیتوں کو 15 فیصد ریزرویشن دیا جائے،
اور خود کانگریس اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کر چکی ہے تو اب کسی دوسری
دلیل کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔ |