جب پنجاب اسمبلی میں صوبے کا بجٹ
اجلاس ہورہا تھا تو اسی دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی خواتین
ارکان اسمبلی میں بینظیر بھٹو کے خلاف ریمارکس پر تلخ کلامی ہوگئی۔ دوران
اجلاس تو دیگر اراکین اسمبلی نے بیچ بچاﺅ کرا دیا لیکن پیپلز پارٹی کی کچھ
اراکین نے دھمکی دی کہ اجلاس کے بعد نپٹ لیں گی۔ چنانچہ انہوں نے ”حسب
روایت“ اپنا ”وعدہ“ نبھایا اور خوب نبھایا۔ اجلاس کے بعد جب اراکین اسمبلی
ہال سے باہر آئے تو پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے قاف لیگ کی رکن ( جس نے
مبینہ طور پر ریمارکس دیے تھے ) کو گھیر لیا۔ اسی گھیراﺅ کے دوران
ماشاءاللہ خواتین اراکین اسمبلی کی فصاحت و بلاغت سے بھری گالیاں سن کر
یقین آگیا کہ جمہوریت ”گراس روٹ لیول“ پر پہنچ چکی ہے اور ہماری خواتین
اراکین اسمبلی بھی مردوں سے ہرگز کم نہیں، کم از کم گالیوں کے بارے میں۔
ابھی کچھ دن پیشتر نذیر ناجی صاحب کی اسی معاملہ میں فصاحت و بلاغت سنی
جاچکی ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں انٹرنیٹ کے ذریعہ پہنچ چکی ہے اور اب
رہی سہی باقی کی کسر پنجاب اسمبلی کی خواتین اراکین نے پوری کردی.... ”اللہ
کرے زور زباں اور زیادہ....!“
متذکرہ بالا فصاحت و بلاغت کے اظہار کے موقع پر جب میڈیا والے اپنے کیمرے
سیدھے کر کے پہنچے تو خواتین کے جذبات میں مزید شدت پیدا ہوتی صاف نظر آرہی
تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ میڈیا کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرتیں، اپنی اور
پوری قوم کی ”عزت“ بچا لیتیں، لیکن انہوں نے اس موقع کو مزید غنیمت جانتے
ہوئے ”زبانی“ حملے جاری رکھے بلکہ اس میں اضافہ بھی کردیا۔ سارا تماشہ دیکھ
کر ہمیں خواتین کی ”کشتیاں“ یاد آگئیں جو اکثر ٹی وی چینل ”سکرول“ کرتے
ہوئے نظر آجاتی ہیں، بس ایک دوسرے کا وہ ”حال“ کرنے کی کسر باقی رہ گئی تھی
جو ”حال“ ان کشتیوں (ریسلنگ) میں دکھایا جاتا ہے۔ اس منظر نامے میں اچانک
صبا صادق، جی ہاں وہی صبا صادق جو ہر حکومتی پارٹی میں جانے کو اپنا فرض
اولین سمجھتی ہیں۔ وہ اسی وقت تک مسلم لیگ (ن) میں ہوتی ہیں جب تک مسلم لیگ
(ن) کے والی وارث پاکستان میں ہوتے ہیں ورنہ وہ ”پرویزین“ یعنی پرویز مشرف
اور پرویز الٰہی کی بلائیں لیتی نظر آتی ہیں، چپ چاپ کھڑی تھیں۔ بڑے
معصومانہ انداز میں کیمرے کی جانب دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کہ کاش
وہ ابھی مسلم لیگ (ق) میں ہی ہوتیں تو آج وہ بھی ”پردہ سکرین“ پر اسی طرح
جلوہ افروز ہوتیں اور پورا ملک بلکہ پوری دنیا انہیں بھی ”اپنے فن“ کا
مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوتی۔ کسی شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ
عورت رہے مردوں میں تو عورت نہیں رہتی
بٹ جاتی ہے ٹکڑوں میں، سلامت نہیں رہتی
پہلا مصرعہ تو ہو بہو سچ ثابت ہوگیا ہے، اتنے زیادہ مردوں میں صرف 33 فیصد
خواتین؟ تو ایسا تو ہونا ہی تھا.... ایسی ایسی ”مردانہ“ گالیاں ایک دوسرے
کو ”مرحمت“ کی گئیں کہ ایسی گالیاں مرد حضرات بھی خواتین کے سامنے انتہائی
”مجبوری“ میں ادا کرتے ہیں، تبھی تو سبھی چینلز پر بار بار
”ٹوں....ٹوں....“ کی آوازیں سنائی جارہی تھیں اور ساتھ ہی مزے لے لے کر
خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات بار بار کہہ رہے تھے کہ ایسے الفاظ ادا
کئے جارہے ہیں جو ہم سنا نہیں سکتے.... چنانچہ ارباب اختیار کو سنجیدگی سے
سوچنا چاہئے کہ اب کی بار جو ”سترھویں“ ترمیم لائی جائے اس میں خواتین کی
نشستیں 66 فےصد ہونی چاہئیں ورنہ کم از کم 51 فیصد تو لازمی ہونی چاہئیں
تاکہ ان پر ”مردانہ“ رنگ غالب نہ آئے.... لیکن میرا دوست اشرف کہتا ہے کہ
ایسی صورت میں مرد حضرات پر ”خواتینانہ“ یا ”زنانہ“ رنگ غالب آنے کا بھی
امکان ہے، جس طرح کچھ خواتین آپس میں باتیں کررہی تھیں، ایک نے پوچھا ”یہ
مرد آپس میں کیا باتیں کر کے اتنے قہقہے لگا کر، ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنستے
ہیں“؟، دوسری خاتون نے جواب دیا ”جیسی باتیں ہم لوگ کرتے ہیں“ پہلی کہنے
لگی ”افوہ! کتنے گندے ہیں یہ“! ہمارا خیال ہے کہ ہمیں ذائقہ بدلنے کی کوشش
کرنی چاہئے، اگر مردوں پر ”خواتینانہ“ رنگ غالب آبھی گیا تو زیادہ سے زیادہ
کیا ہوگا؟ |