آڈٹ

صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر نے سندہ بھر کے بلدیاتی اداروں کی گذشتہ دس سالوں کی آڈٹ کرانے کے احکامت دیئے ہیں۔جس میں اربوں روپے کی کرپشن کے انکشافات ہونے کا امکان ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اندرون سندہ میں ناظمین کی اکثریت کا تعلق پی پی سے تھا ۔اور ایسے بااثر افراد یا انکے حمایتی بھی ناظمین تھے جو حالیہ انتخابات میں پی پی میں شامل ہوگئے۔جبکہ ضلع نوابشاہ میں صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپر بھی ناظمہ تھیں ۔تو کیا ان سب کا احتساب ہوسکے گا۔یا پھر یہ سب متحدہ پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے۔کیونکہ کراچی ۔حیدرآباد میں متحدہ کے ناظمین تھے ۔کہیں ایسا تو نہیں پی پی کے حمایتی سابقہ ناظمین کو تو کلین چٹ دے دی جائے اور متحدہ کے سابقہ ناظمین کے گرد پھندہ کس دیا جائے ۔موصوف وزیر بلدیات آج تک سیکریٹری بلدیات علی احمد لونڈ کے خلاف تو کاروائی کر نہیں سکے ۔جو کہ کئی سالوں سے غیر قانونی طور پر اس سیٹ پر برجمان ہیں۔اور جنکی آشیر باد سے چند سیکشن افسران نے بلدیاتی اداروں کے بجٹ کی منظوری سمیت دیگر معاملات کی مد میں کروڑوں روپے کمائے۔پی پی کی سابقہ سندہ حکومت کے دوران محکمہ بلدیات سندہ میں ہزاروں افراد کی غیرقانونی بھرتی کا انکشاف ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق زیادہ تر بھرتیاں گذشتہ سال اگست2012 تک کی گئیں۔بتایا جاتا ہے کہ سندہ اسمبلی میں صوبے کے کنٹریکٹ اور ایڈہاک پر کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین کو مستقل کرنے کے لئے پاس کی گئی قرارداد کی روشنی میں ہزاروں ملازمین کو مستقل کیا گیا۔مگر دیگر محکموں کی طرح محکمہ بلدیات کے بدعنوان سیکشن افسران نے اسے اپنی کمائی کا زریعہ بناتے ہوئے سندہ بھر کی تعلقہ مونسپل کے افسران کی ملی بھگت سے ہزاروں افراد کو گریڈ پانچ تا گریڈ چودہ کی مختلف اسامیوں پر بھرتی کیا۔اور مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی رشوت وصول کی گئی۔اور سیکریٹری بلدیات علی احمد لونڈ کی مبینہ چشم پوشی کے سبب ہزاروں اآفر لیٹر جاری کرکے ان افراد کو مختلف ٹی ایم ایز میں جوائننگ دی گئی۔ذرائع کے مطابق ان اسامیوں کے لئے اخبارات میں اشتہارات تک نہیں دیئے گئے۔اور غیر قانونی آفر لیٹر پر بھر تیاں کی گئیں۔اور اس سلسلے میں ایک ہی گھر اور خاندان کے کئی افراد تک کو بھرتی کیا گیا۔ذرائع کے مطابق اس بہتی گنگا میں ٹی ایم اے افسران اور یونین رہنماؤں کے علاوہ سیاسی رہنماؤں نے بھی ہاتھ دھوئے۔جنہوں نے اپنے رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کو اہم پوسٹوں پر بھرتی کرایا۔جبکہ ہزاروں کارکنان کو بھی بھرتی کیا گیا۔اسکے علاوہ الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے بھی ہزاروں افراد کو بھرتی کیا گیا۔ذرائع کے مطابق غیر قانونی طور پر بھرتی کئی بااثر ملازمین نے محکمہ بلدیات سیکریٹریٹ کے بعض سیکشن افسران کی ملی بھگت سے گریڈ سولہ سے گریڈ سترہ تک غیرقانونی ترقی حاصل کرکے ٹاؤن آفیسر اور ٹی ایم او کی پوسٹیں حاصل کرلی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ سندہ حکومت کے احکامات پر محکمہ بلدیات نے غیر قانونی طور پر بھرتی بیس ہزار سے زائد ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اور اس سلسلے میں ڈپٹی کمیشنرز کی زیر نگرانی قائم کمیٹیوں نے فہرستیں مرتب کرلی ہیں۔ذرائع کے مطابق ان فہرستوں میں جون 2012سے جون 2013 تک بھرتی ہونے والے ملازمین کو شامل کیا گیا ہے۔جبکہ ملازمین کی اکثریت کو جنوری سے اگست2012تک بھرتی کیا گیا۔دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ فہرستوں میں شامل با اثر ملازمین نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔اور اس سلسلے میں سیاسی اثرو رسوخ بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
anwar khanzada
About the Author: anwar khanzada Read More Articles by anwar khanzada: 14 Articles with 22655 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.