اردو زبان کے کچھ الفاظ اتنے ڈراؤنے نہیں ہوتے لیکن سابقے اور لاحقے لگنے سے ذرا
زیادہ وضع دار بن جاتے ہیں اور بعض کے معانی و مطالب بھی بدل جاتے ہیں۔ بعض الفاظ
ذومعنی بھی ہوتے ہیں جنکے بارے متکلم کی وضاحت ضروری ہوتی ہے ۔انگریزی زبان میں رچے
بسے پھلے پھولے لوگوں کے لیئے بڑی مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔ مثلا لفظ حرم کو لے لیں
۔ اس سے حرم بیت اﷲ شریف اور حرم نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام مراد لیا جاتا ہے
اور دونوں کے لیئے لفظ حرمین استعمال کیا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ کی اطراف میں حدود
مقرر ہیں کہ جن کے اندر شکار کرنا ، لڑنا جھگڑناوغیرہ ممنوع ہے۔ اس علاقے کو حرم
کہتے ہیں کیونکہ یہاں کچھ کاموں کا کرنا حرام ہے۔ اور یہ علاقہ قابل احترام ہے۔ اس
کے باہر کو حل کہتے ہیں جہا ں حرم کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح حرم زنان
خانے کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ اکبرالہ آبادی نے کہا میاں مسجد سے نکلے ۔ حرم سے
بیبیاں نکلیں ۔یہاں حرم پردہ دار گھرانے کے طور پر مستعمل ہے۔ حرم بھی ذومعنی لفظ
ہے ۔ اسکے معانی ناجائز، ممنوع، خلاف شرع، ناشائستہ اور مقدس و پاک کے ہیں۔ اسی طرح
حرام زادہ بہت برا لفظ ہے جو نسب کی نفی کرتا ہے یعنی حرام کی اولاد لیکن یہ بھی
ذومعنی ہے ۔ اسکے معانی شریر ،فسادی اور بدذات بھی ہیں۔ اگر کوئی کسی کو حرامی کہ
کر کہے کہ میں نے احترام کے معنی میں استعمال کیا ہے تو اس پر گالی دینے کا الزام
درست نہ ہوگا۔ ہمارے بعض سرائیکی لوگ کسی کو بیٹھنے کے لیئے پیڑی یا بنڈا دیں تو
ایک ایسا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب دوسرے علاقوں میں عورت کی شرمگاہ کیلیئے
استعمال ہوتا ہے۔ اب جوناواقف ہوگا وہ تو اسے گالی تصور کرے گا اور کہے گا کہ تم نے
کتنا غیر مہذب لفظ استعمال کیا ہے اور اگر یہی لفظ کسی جج کے لیئے استعمال کر بیٹھے
اور وہ جج صاحب بلوچستان یا پوٹھوہار سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ عدالت کے عتاب سے
ہرگز نہیں بچ سکے گا۔ یہ لفظ جناب عمران خان صاحب چئیرمین تحریک انصاف کے آبائی
علاقے میں عام بولاجاتاہے۔ عدالتی معاملا ت میں جج صاحبان کو علاقائی زبانوں اور
زبان زد عام الفاظ کاادراک ہونا چاہیئے اگر کسی کو ان کا علم نہ ہوتو زبان دانوں سے
معلومات حاصل کریں۔ کیونکہ اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا کہ صرف ان قسموں پر
مواخذہ ہے جو دلی ارادہ کے ساتھ کی جائیں اور یوں ہی بے سوچے سمجھے الفاظ پر مواخذہ
نہیں۔ جناب عمران خان صاحب کا ایسے ہی کچھ الفاظ کی وجہ سے مواخذہ عدالت عظمیٰ میں
ہے ۔ مواخذہ کرنیوالے جانیں اور ماخوذ جانیں لیکن اہل علم حضرات کو الفاظ یا ضرب
الامثال کی تشریح کرنے کا حق حاصل ہے۔ سیدنا اما م اعظم رحمۃ اﷲ علیہ استاذالائمہ
ہیں۔ آپکی تحقیق کے سامنے کون دم مارسکتا ہے مگر آپکے دونامور شاگرد اور محقق امام
حضرت ابی یوسف اور حضرت امام محمد رحمۃ اﷲ علیہما کئی مسائل میں اپنے استاد سے
اختلاف کرتے ہیں، کچھ مسائل میں دونوں متفق ہیں اور استاد ایک طرف ہیں۔ لیکن حضرت
امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے شاگردوں پر توہین استادکا حکم نافذ نہیں
فرمایا۔ دیگر ائمہ بھی حضرت امام اعظم سے مستفیذ ہیں لیکن انکے احکامات فتاویٰ آپ
سے مختلف بھی ہیں۔ کئی مقدمات میں ہماری کورٹس کے خلاف بالا عدالتوں میں جب جاتے
ہیں تو نچلی عدالت کے فیصلوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ بعض اوقات انکے خلاف جج صاحبان
سخت ریمارکس بھی استعمال کرتے ہیں۔ نچلی عدالتوں کے فیصلوں میں واضح جانبداری کا
ذکر کرنے کے باوجود متعلقہ جج کے خلاف کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔
کئی جج رشوت لے کر فیصلے کرنے میں مشہور ہوتے ہیں اور بہت کم قانون کی گرفت میں آتے
ہیں۔ موجودہ قاضی القضاۃ کی جرات ، دلیری اور استقامت نے ملک میں عدلیہ کو بڑی حد
تک اعدلو اھوالتقویٰ (تم عدل کرووہی تقویٰ ہے) پر عمل کرنے میں تحفظ فراہم کیا ہے۔
۔ عدلیہ کا وقار ججوں کے ہاتھ میں ہے جسے انہوں نے اپنے کردار اور تقوی سے قائم
رکھنا ہے۔ جہاں تک ضلعی کورٹس کا تعلق ہے تو اعلیٰ عدلیہ انکی کی کارکردگی سے بخوبی
واقف ہے ۔ بڑے لوگوں اور برسراقتدار لوگوں کو ممنون کرنے کی روائت قائم ہے۔
انتخابات میں یہی لوگ فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت صادق
اور امین امیدواروں کا انتخاب کرنا انہی لوگوں کا کام تھا ۔ جو انہوں نے نے
دیانتداری سے سرانجام نہیں دیا۔ انتخابات کیا شفاف ہوئے؟ اس بارے میڈیا نے سارے پول
کھول دیئے۔ ایک امیدوار جیت گیا مگر اس کا مخالف زیادہ سیاسی پشت پناہی کا حامل تھا۔
اس نے اپنی موجودگی میں دوبارہ گنتی کرائی اور جیتنے والے مخالف کو ریٹرننگ آفیسر
نے اپنے دفتر میں داخل نہیں ہونے دیا اور اس نے رات باہر عدالت کی سیڑھیوں پرگذاری۔
دوسرے روزہارے ہوئے کو جیت ہوا کردیاصرف یہی نہیں کہ جیتے ہوئے کو ہارا بنایا بلکہ
اسے ایک دن کے لیئے اڈیالہ جیل کی یاترا بھی کرائی۔ ایسے متعدد واقعات ہیں ۔ یہ
سارا الزام یا جرم ان حضرات کے سر پر عائد ہوتا ہے کہ جو ضلعی عدالتوں میں انصاف
مہیا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ عوام یا عمران خان انہیں بحیثیت جج لعن طعن نہیں کررہے
بلکہ انکے اس انتظامی کردار پر بات ہورہی ہے کہ جو باعث عار، بدنامی اور رسوائی کا
موجب بنا۔ ایسے کردار کو ہمارے معاشرے میں شرمناک کے لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ بلکہ یہ
کردار انتہائی درجہ کا جرم ہے اور ایسے ججوں کو جناب چیف جسٹس صاحب عبرتناک سزا دیں
جو قومی ذمہ دار ی کے ساتھ ایسی شرمناک حرکت کرتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ لفظ شرمناک
گالی کے زمرے میں آتا ہے کہ جس سے کسی کی ذلت و اہانت مقصود ہو۔شرم حیا،
حجاب،عار،ندامت،پشیمانی،غیرت،عزت، حرمت اور ناک کے معنی بھی اسی کے مترادف ہیں ناک
عضو کے علاوہ اسکا معنیٰ ہے غیرت ، شرم ،نمود کی چیز، عزت و آبرو، عظمت، شان ،بزرگی۔
جب شرم کے ساتھ ناک کا لاحقہ لگا تو اس کا معنی ہوا قابل شرم، شرمیلا۔ ہماری عدلیہ
انگریزی زیادہ سمجھتی ہے۔ ہمارا تمام نظام عدل فرنگی کی زبان میں رچا بسا ہوا ہے۔
شرمناک کو انگریزی میں discrditable,ignominious,inglorious,outrage, disgraceful,
humiliating ان تمام الفاظ کے معانی تقریبا ملتے جلتے ہیں۔ مثلا کسی فعل کا موجب
رسوائی ہونا، باعث عار ، باعث ذلت،قبیح، مذموم، انتہائی ظلم،بے حرمتی ، باعث ذلت و
خفت ہونا کہ کسی سے ایسا فعل سرزد ہوجائے جو اسکی شان اور منصب کے خلاف ہو ۔
انتخابی عمل سرانجام دینے والے کوئی بھی ہوں لیکن جب انہوں نے عوامی رائے پر شب خون
مارے تو عوام نے انکی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا بلکہ احتجاج کیئے
گئے اور جلوس نکالے گئے۔ عالمی رائے عامہ بھی یہی ہے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے۔
عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالا جائے تو ان کا احتجاج فطری عمل ہے اور مظلوم کو اپنے حق
پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا حق ہمارے اﷲ اور رسول نے ہمیں دیاہے۔
انتخابات کے نتائج پر تنقید ایک جمہوری عمل ہے۔ متاثرہ افراد یا جماعتوں کی جانب سے
انتخابی عذرداریاں بھی سننے میں آیا ہے کہ ٹریبیونلز میں منتظر سماعت ہیں۔ سابقہ
تجربہ کی روشنی میں عذرداریوں کے فیصلے ابھی نہیں ہو پاتے کہ شبخون مارنے والے پانچ
سالہ اقتدار کے مزے لے کر چلتے بنتے ہیں اور عوام کے اصل منتخب نمائندے سماعت کی
انتظار میں ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں تو کیس عدالتوں میں منتظر سماعت ہوتے ہیں اور
فریقین کی دوسری یا تیسری نسل انکے فیصلوں کو سن پاتی ہے۔ چونکہ انتخابی عذرداریاں
ججوں نے سننی ہیں لھذا ان کو تنقید کا نشانہ تو بننا پڑے گا اگر وہ اپنا عادلانہ
تقدس بحال رکھنا چاہتے ہیں اور رکھنا بھی چاہیئے تو ترازو کا حق ادا کرتے رہیں۔ کسی
جماعت یافرد کی امارت و سیاست سے ہرگز خائف نہ ہوں ۔ اﷲ کے حکم کہ تم لوگوں میں
انصاف کرو پر عمل کریں ۔ نفع ونقصان اور خیروشر اﷲ کے اختیارِ کلی میں ہے۔ جناب چیف
جسٹس عزت مآب چوہدری افتخار محمد صاحب کے اسوہ سے رہنمائی حاصل کیجائے کہ جنہوں نے
غاصب، عامر، طاقتور پرویز مشرف کے سامنے بند کمرے میں اپنے ایمان و استقامت کا
لازوال مظاہرہ کیا۔ اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ عامر آج ذلت و خواری سے دوچار ہے۔
میرا اپنا خیال ہے کہ کسی کی اصلاح مقصود ہوتو اسکی خامیوں کو اسکے سامنے اجاگر کیا
جائے تاکہ وہ ایک اچھا عامل بن جائے۔ جناب چیف جسٹس صاحب سے التماس کروں گا کہ وہ
عوام کو اجازت دیں کہ ججوں پر کھلم کھلا تنقیدکریں لیکن بجا طور پر اور ثبوت کے
ساتھ۔اگر جناب چیف جسٹس صاحب ان کو معصوم عن الخطا قرار دینگے تو انکے ویژن کے خلاف
ہوگا۔ نہائت ادب و معذرت کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رہے کہ ہمارے ملک میں انصاف کے
حصول کے لیئے جتنا گڑڈالو اتنا میٹھا ہوگا کے اصول کے تحت پچاس لاکھ تا ایک کروڑ
فیس وصول کرنے والے قانون دان جب کرسی عدالت پر رونق افروز ہونگے تو عدل گستریوں کا
کیا سماں ہوگا؟ ذرا ان امور پر بنظرغائر توجہ فرمائی جائے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ عزت مآ
ب چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار محمد صاحب اپنے ویژن میں کامیاب ہوں تاکہ اس
ملک کے مظلوم عوام آزادی کا سانس لے سکیں آمین۔
|