۱۶۰۰ء میں انگریز ہندوستان آئے۔ سازشوں کے
زور پر سیاسی امور میں مداخلت شروع کی اور رفتہ رفتہ پورے ملک پر قابض
ہوگئے۔ حکومت مسلمانوں سے چھینی۔ ’لڑاؤ اور حکومت کرو ‘کی پالیسی اپنائی۔
ملک میں دوقومیں بستی تھیں۔ مسلمان اور ہندو۔ انگریز کو معلوم تھا کہ
مسلمان اگر مضبوط رہے تو کسی نہ کسی دور میں پھر اپنی کھوئی ہوئی حکومت و
امارت حاصل کر لیں گے اس لیے اس نے مسلمانوں کو کم زور سے کم زور تر کرنے
کے لیے بہت سی حکمتیں اختیار کیں، چالیں چلیں، سازشوں کے جال بُنے۔
۱۸۵۷ء میں ایک انقلاب کی دستک سنائی دی۔ قائد انقلاب مولانا فضل حق
خیرآبادی، مولانا صدرالدین آزردہ دہلوی، مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی،
مولانا فیض احمد عثمانی بدایونی، ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی، مولانا احمداﷲ
شاہ مدراسی، مولانا رضا علی بریلوی، مفتی عنایت احمد کاکوروی اور ان جیسے
علماے کرام نے انگریزی اقتدار کے خلاف بلند و بانگ آواز اٹھائی۔اس سے
انگریز کو اندازا ہو گیا کہ اب بھی مسلمانوں میں دم خم باقی ہے۔ اسی کے بعد
اس کی پالیسی میں قدرے تبدیلی آئی۔ اس نے ہندوؤں کو اپنے مقاصد کے لیے
استعمال کیا، ادھر مسلمانوں میں گروہ بندیاں کیں۔شانِ و ناموسِ رسالت میں
بے ادبی کی فضا ہم وار کر کے متاعِ ایمانی پر ضرب لگائی۔ جس کے زخم سے اب
بھی لہو رس رہا ہے اور اختلافات کی فضا کا تعفن بجائے کم ہونے کے بڑھتا ہی
جا رہا ہے۔
انقلاب ۱۸۵۷ء گو کہ بہ ظاہر ناکام رہا لیکن اسی چنگاری کو بعد میں شعلہ
بننا تھا۔ یہی آزادی کی پہلی جنگ کہلائی۔ یہی آزادی کی پہلی اینٹ اور بنیاد
تھی جس کا ثمرہ ۱۹۴۷ء میں آزادی کی شکل میں ملا۔ لیکن ادھر مسلسل سازشوں کے
تحت ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے تذکرے کو ختم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کا سبب
ظاہر ہے کہ ۱۸۵۷ء کا انقلاب مسلمانوں بالخصوص علماے اسلام کا مرہونِ منت
تھا، یہی آزادی کی تمہید تھا، اسی لیے اگر اسے صفحۂ قرطاس سے مٹا دیا جائے
تو ملک عزیز کے لیے مسلمانوں کی قربانیوں کے نقوش خود بہ خود حاشیۂ ذہن سے
محو ہو جائیں گے۔ رہی بات آزادی کی، ۱۹۴۷ء کی صبح درخشاں کی تو اس کے تذکرے
میں پہلے ہی مسلمانوں کو حاشیے میں ڈالا جا چکا ہے۔ اس طرح ملک کی تاریخ کو
مسخ کیا جا رہا ہے، تاریخ نویسی نہیں تاریخ گری کی جارہی ہے۔ جو تاریخ
اقتدار کے سائے میں لکھی جاتی ہے وہ حقایق سے دور لے جاتی ہے۔
ہندوستان مسلمانوں سے چھینا اور اُن کے حوالے کیا جو مسلمانوں کے پہلے ہی
دشمن تھے۔اس طرح مسلمانوں سے نفرت کا جو بیج انگریز بو گئے آج اس کا تناور
درخت سامنے ہے۔ جو ذہنی فضا تیار کی گئی تھی اس کے نتائج مسلم کش فسادات کی
شکل میں مختلف ادوار میں رونما ہوتے رہے۔ آزادی کے فوری بعد نام کو چند
مسلمان عہدے پر رکھے گئے۔ لیکن تمام تر اختیارات انھیں حاصل رہے جن کی
سرگرمیاں اسلام دشمنی کی غماز رہیں۔ جمہوری امارت میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ
حاصل ہوتا ہے۔ لیکن قانونی نکات کو نظر انداز کر کے ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق
کی پامالی کی جاتی رہی ہے۔ مقصد یہی رہا کہ مسلمان ترقی نہ پاسکے۔ عروج نہ
پا سکے۔ان میں دم خم نہ رہے۔ پھر امتیاز بھی برتا گیا۔ وقفے وقفے سے بھگوا
طاقتیں مسلم حقوق کو چیلنج کرتی رہتی ہیں۔
اکیسویں صدی کے آتے آتے عالمی سطح پر دہشت گردی کا معاملہ درپیش ہوا۔ لیکن
اس میں بھی مسلمانوں پر الزام و اتہام ڈال کر دہشت گردی کی بنیادوں کو نظر
انداز کیا گیا۔ اور پھراس کے طلسم کدے سے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح
گڑھی گئی۔ حالاں کہ ساری دنیا کے مسلمان دہشت گردی کے مخالف ہیں۔ دہشت گردی
کے خاتمہ کے لیے اسلام کا کردار بنیادی ہے۔ لیکن اس اصطلاحی سازش کاپورا
پورا فائدہ ہندوستان کے فرقہ پرستوں نے اُٹھایا۔ دہشت گردی کے ہزاروں دھبے
جن کے ماتھے پر تھے اور گجرات کے خون کی سرخی تازہ تھی کہ اندرون خانہ ایک
نیٹ ورک تیار کر لیا گیاجس کے لیے لگتا ہے بہت پہلے سے ہی زمین ہم وار کر
لی گئی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو بموں کی زد پر رکھا جارہاہے۔ خون
سے ہولی کھیلی جارہی ہے، پھر اس کا جرم مسلمانوں ہی کے سر ڈال دیا جارہاہے۔
تحقیق میں بھی جانب داری برتی جارہی ہے۔ قصداً مجرم کو آزاد اور مظلوم کو
قید میں رکھا جارہا ہے۔وہ تو بہتر ہوا کہ ایک آفیسر نے مالیگاؤں سانحہ کے
بعد درست تحقیق کی اور اصل مجرموں کو بے نقاب کر کے آئینہ دکھا دیا۔ بھگوا
دہشت گردی کا چہرہ کیا بے نقاب ہوا عالمی سطح پر اس پروپے گنڈے کی بخیہ
اُدھڑ کر رہ گئی کہ مسلمان ہی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ آزادی
کے بعد بھی مسلمانوں کی آزادی چھیننے کی مسلسل کوششیں رہی ہیں۔ ہر طرح سے
پریشان کیا گیا ہے۔ ہر حربے آزمائے گئے اور مسلمانوں کو تباہی کے دہانے تک
پہنچایا گیاہے۔ اقبالؔ نے آزادی سے پہلے کے عرصے میں جو کہا تھا وہ
مسلمانوں کے موجودہ حالات کے تناظر میں صحیح و درست معلوم ہوتا ہے:
ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد
ضروری ہے کہ مسلمان عزم محکم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ خود اعتمادی کے ساتھ سرگرم
عمل ہوں تا کہ فرقہ پرستوں کو پھر انگریز کے کاز کو آگے بڑھانے کا موقع نہ
ملے۔ لیکن اس کے لیے عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ ہر میدان میں خود بڑھنا ہے۔
تعلیم و تجارت، معاشیات و اقتصادیات اور صنعت و حرفت میں نئے آفاق تلاش
کرنے ہیں تا کہ باوقار طریقے سے زندگی گزار سکیں اور ملک عزیز میں اپنے
پورے اسلامی تشخص کے ساتھ سر اٹھا کر آزادی کے ساتھ جی سکیں:
باطل دوئی پسند ہے، حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول |