گنگ چھے حلقہ 3 سے الیکشن لڑوں گا

عزیزم۔۔!! ذرا غور سے پڑھنا اور دعا بھی کرنا کیونکہ یہ حال احوال گنگ چھے حلقہ تین کی سنا رہا ہوں جہاں بربریت ،ڈھاکہ، رشوت خوری و دیگر سماج دشمن فعلیں اپنی بولی بولتی جا رہی ہے۔ سرکاری دفادتروں میں بہت پہلے اطلاعات بہم پہنچائے جاتے ہیں کہ اس دفعہ الیکشن میں درج ذیل عوامل پر سختی سے عملدرآمد ہوں گی۔ خلاف ورذی کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ دھاندلی نہیں ہونے دینی ہے۔ یہ یہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں گے۔شکایت کا کوئی موقع آنے نہیں دینی ہے۔وغیرہ۔ ان تمام ایمانداری کے لبوں پر جذبہ ایمان تب غالب آجاتی ہے جب حکم ِامتناعی پوری رنگ ڈھنگ کے ساتھ اپنی جلوے بکھیرتے ہیں۔ جوں جوں الیکشن نزدیک ہوتی ہے سیاسی رہنمائیں اپنی تگ و دو کو تیز کرتے نظر آتے ہیں۔ اوربھلا کیوں نہ کرتے ۔۔انہیں تو قراقرم ہائی وے پر سے چلتے ٹرکوں پر نقش ــ ’’محنت کر حسد نہ کر‘‘ وغیرہ کی اقوالِ ذریں معلوم ہے ۔ بہر کیف اپنی اپنی کارندوں کو نصیحت کچھ ذیادہ کرتے ، ان سے اور انکے مابین تعلقات کی جوخلا ہے ان پر رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔سیاسی مگر انتہائی نیک منصوبہ بندیوں کی فہرست بندی اور ان پر عملدرآمد کے نت نئے ـ’’جائز‘‘ طریقے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔لوگوں کی دکھ درد میں شامل ہو کر احسان جتانے لگتے ہیں۔ ’’مستقل‘‘ اور ’’اچھی‘‘ نوکریوں کا حسین سا تحفہ لے کے نادر لوگوں کے در پر پہنچتے ہیں۔ ان غریوبوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ۔ کیوں نہ خوشی منائیں آخر نوکری جو ملنے کو ہے۔ لوگوں سے ایسے ملتے ہیں جیسے برسوں سے جانتے ہوں۔ سماج میں خوشی کا سماں ہوتا ہے۔ ہر شخص کچھ اچھائی بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں( نمائندے) صاحب نے مجھ سے ہاتھ ملا کر بچوں کی خبر لی۔ امیر و غریب کو وہ سیاسی نمائندے عجیب رنگ دیکر اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں گنگ چھے حلقہ تین کی ہو رہی ہے۔نہیں معلوم کہیں اور بھی ایسا ہوتا ہو مگر ہوتا ہے تو بھی اس حد تک کی فکر انگیز سیاسی مہم نہیں ہوتی ہو گی۔

خیر، سنیے ایک بیٹے کی معصوم سی سوال کا ان گنت جواب اپنے بوڑھے اور غریب باپ کی زبانی ۔ ابو اس دفعہ مجھے الیکشن میں کاغزات نامزدگی کے لئے اپنی کاغذات بھی جمع کروانی ہے میری بڑی خواہش ہے کہ میں علاقے کی غریب اور نادر لوگوں کو انصاف دلا کر انکے حق کو ان تک پہنچانا چاہتا ہوں۔تعلیم کو عام کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذہ فارم بھراتے وقت مجھے اطلاع کرنا۔ ٹیلفون پر میلوں دور بیٹھ کر ذکر شدہ باتوں کاحلقہ تین کی آب و ہوا سے خوب واقف انکے ابو کا جواب کچھ یوں تھا۔

بیٹا ذرا غور سے سننا کہیں میرے بیٹے کی ٹھوس جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ مگر جیت کے لئے کچھ یو ں ایمانداری دکھانی ہو گی کہ ہم بھی باقی امیدواروں سے پیچھے نہ رہے۔ لہٰذہ ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا ہو گا کہ ٹھیکہ داروں کے ٹھیکہ جات کے بلز کیسے پاس کرنی ہے تاکہ علاقے میں موجودعظیم ٹھیکہ داروں کے ووٹ بینک ہمارے حق میں رہے۔ کچھ علاقوں میں جہاں آبادی کی تناسب باقی علاقوں کی نسبت کافی ذیادہے وہاں سےpwd میں 470 کی کوئی 300 نوکریوں کو تقسیم کرنا ہو گا تاکہ ان کے خاندانوں کی ووٹ کی گارنٹی ہو۔ لوگوں کے گھر گھر جا کر انکو نوکری کی بشارت دینی ہو گی۔بیٹا چونکہ ہم اس حلقے میں پہلی بار کاغذات نامزدگی کرو ارہے ہیں تو ہمیں سابقہ تاریخ کو بخوبی پڑھنا ہو گا کہ سابقہ امیدوار وں نے ووٹ کیسے حاصل کیے تھے۔ہمیں کچھ علاقوں میں جا کر وہاں کے سرکردہ گان کو لالچ دینی ہو گی یا ہو سکے تو کچھ نوٹ بھی رکھ آنا پڑے تاکہ ووٹ پر اثر اچھا رہے۔ایک بار وہ لوگ ہماری مٹھی میں آئے تو بس باقی تمام لوگ ناچتے ہوئے چلے آئیں گے۔اور ہاں یاد رکھناکہ ہم جنکو پیسہ ،نوکری یا جو بھی اجرت دیں گے وہ صرف ایک سودا ہو گی تاکہ بعد از انتخابات ہمیں انکا کوئی احسان نہ اٹھانہ پڑے۔اب تک آپکے اس بوڑھے باپ نے کئی انتخابات اپنی نظروں سے دیکھے ہیں۔ یہاں ایک بہت سستی مگر اچھی عادت بھی اپناتا رہا ہے ۔ وہ یہ کہ ہمیں لمبی سی ترقیاتی سکیموں کا خواب عوام کے سامنے رکھنی ہو گی۔ کچھ جلسوں میں انکا بار بار ذکر کرنا اور بھرپور اعتماد کے ساتھ وعدے بھی کرنے ہوں گے۔کیونکہ ہمیں جیتنے کے لئے عوام کو اعتماد میں لینے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنی دینی چاہئیے۔میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا حلقہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ مہنگا حلقہ ہے۔ کیونکہ یہاں سیاسی امیدوار اپنی اپنی پانچ سالوں کی ہر طرح ’’ جائز‘‘طریقے سے کی گئی آمدنی کا تقریباً 65% حصہ عوام پر اسی انتخابات میں خرچ کرتے ہیں۔ اب عوام تک پہنچانے کے لئے آپ بے فکر رہیں۔ آپکے ابو کو ہر طریقے کا پتہ ہے کہ کسطرح سے ان تک زر پہنچایا جاتا ہے۔ اچھا آتے وقت ٹی وی ، اوون اور ڈالڈا پانچ سیر کی کثیر تعداد میں آرڈر دیکر آنا تاکہ انتخابات کے دو دن پہلے پہنچ پائے اور تسلی سے راتوں رات ضرورت مندوں تک تقسیم ہو سکے۔آٹے کے لئے ہم یہاں سے بندوبست کریں گے کیونکہ آٹا ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک سمگل کرنا جرم ہے۔اور ہاں اسٹیٹ بینک سے ہزار کے نوٹوں کا کچھ بنڈل بھی لے آنا تاکہ لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کو بھی پیسے دینے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔سرکاری آفیسروں کے لئے کچھ پیکیج بھی تیار کروانا ہوتا ہے۔ انہیں اپنے حلقے سے کہیں دور تبادلہ کرنا ہے اور الزام مخالف کسی امیدوار پر لگانی ہے اور اسی دوران خود جا کر انہیں واپس تعینات بھی کرنا ہے ۔ عوام کو یہ احساس جتلانا ہے کہ ہم اچھے اور ایماندار لوگوں کوعوام کی خدمت کے لئے لے آئے ہیں۔کچھ اساتذہ کو بھی ادھر اُدھر کر کے پھر واپس اپنی جگہوں پر تبادلہ کروانی ہے تاکہ عوام کی دل جیتنے میں کامیاب ہو جاؤں اور مخالف امیدواروں پر کیچڑ اچھالنا بھی آسانی ہو۔دوسرے امیدواروں کی سابقہ الیکشن کی منشوروں اور انتخابات کے بعد کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں اچھے وعدوں کے کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی بلکہ اس سے بھی بڑھا چڑھا کے ہم وعدے کر سکتے ہیں کیونکہ بعد میں ہمیں ایسے وعدے نبھانے نہیں پڑتے۔ مزے کی بات یہ ہے بیٹا کہ جو کارکردگی پچھلے امیدواروں کی رہی ہے اس حساب سے ہمیں بھی وہ کلمات سننے میں نہیں آئیں گے جو شہروں میں شمعوں کے بجھتے ہی محکمہ برقیات کو اعزازی طور پر بخشتے رہتے ہیں۔

عوام بہت سادہ لوح ہے اورانتخابی طریقے تھوڑے سے مزے دار ہیں۔ہمیں راتوں کو اٹھ کر لوگوں کے گھروں تک پیسے بھی پہنچانے ہوں گے اور اسکی پرواہ پہلے لوگوں کو بھی نہیں رہی ہے کہ رات کے اندھیرے میں پیسہ ہماری ووٹر ز کو مل رہے ہیں یا مخالف امیدواروں کے ووٹروں کو۔ہم اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانا چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے یہ خدمتِ خلق ادا ہونے میں کوئی کسر باقی رہے۔ بیٹا اب باقی حساس باتیں ٹیلیفون پر کرنا مناسب نہیں لہٰذہ ہم گوشہ نشینی میں اہم معاملات طے کریں گے۔ اﷲ حافظ۔
ہمیں ان باپ بیٹوں کی قدرے نادانستہ مگر باہمت گفتگو سن کراپنی رائے حلقہ نمبر تین کے بارے میں جورکھنی چاہیے وہ یہاں سمجھانے کی شائد ضرورت نہیں کیونکہ انہوں نے ہر ایک منصوبہ بندیوں اور نیکیوں کا تفصیلی ذکر کر لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باپ بیٹوں یا ان جیسا جواں مرد اور با حوصلہ امیدواروں کا حلقہ تین سے انتخابات لڑنے آتے ہیں یا انتظار کرنا ہو گا کہ اتنی مال و دولت (جتنی انہوں نے اندازاً تخمینہ لگایا ہے )کے حامل شخص کا انتخابا ت کے لئے کاغزات نامزدگی جمع کرے اور حلقہ تین میں انتخاب لڑ کر تاریخ کا حصہ بنے۔ اور رہی بات ان باپ بیٹوں کی انتخابات میں حصہ لینے کی ۔ تو وہ انکی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ غریب ہیں اوربے حد جذبہ رکھتے ہیں مگر وقت اور تاریخ کے ساتھ چلنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اب ہم اس حوصلے اور امید کے ساتھ آنے والی بلدیاتی انتخابات کی اور نئے عزم والے رہنماوں کے چہروں کا نام سننے کا انتظار کریں گے کہ نئے لوگ نئی جذبہ لیکر آیں گے اوراندھیر نگری کو چراغ پا بنا پائیں گے۔
Kamal Anjum
About the Author: Kamal Anjum Read More Articles by Kamal Anjum: 13 Articles with 15148 views I belong to skardu Baltistan and now I am a student of Masters in Educational Planning and Management from NUML Islamabad. 2013.. View More