تبدیلی والی سرکار

90 دن میں خیبر پختونخواہ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعویدار حکمران گذشتہ 55 دنوں میں تو کوئی کمال نہ دکھاسکے آگے جتنے بھی دن رہتے ہیں یہ بھی ختم ہو جائینگے حکومت میں آنے کے بعد ان کئے جانیوالے کاموں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تبدیلی والی سرکار کچھ بھی نہیں کر پائے گی حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی دیکھ کر سوشل میڈیا پر دوسروں کو گالیاں دینے والے برگر فیملی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو بھی یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ تبدیلی کم سے کم اس حکومت کے بس کی بات نہیں اسی وجہ سے اب خیبر پختونخواہ میں نئے ووٹرز جو گیارہ مئی کے انتخابات میں نکلے تھے اور انہوں نے صرف انتخابی نشان بلے کو ووٹ دیا تھا یہ دیکھے بغیر کہ اس بلے کے پیچھے کون کھڑا ہے اور اسی بنیاد پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون پر ریکارڈ ووٹ بھی پڑا تھا اب ضمنی انتخابات سے قبل تبدیلی والی سرکار کی اپنی پارٹی میں دھڑے بندی اور رشتہ داروں میں ٹکٹ بانٹنے کی سیاست نے ان کو بھی کچھ عقل دیدی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کچھ آنیوالا نہیں کیونکہ سوٹے کے شوقین حکمران سمیت متعدد بھگوڑے سیاستدان جو اس سے پہلے کسی اور پارٹی کے جیالے کہلاتے تھے اب میز کے اس طرف بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں اور انہوں نے صوبے کے عوام کیلئے کچھ نہیں کرنا ان وزراء کی کارکردگی صرف میڈیا پر بیان بازی تک ہی رہ گئی ہے -یہی وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے ون انہی کی پارٹی کا سب سے پرانا کارکن نظریاتی گروپ بنا کر حصہ لے رہا ہے کیونکہ اس کو اپنی پارٹی میں سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں یہ ہے تبدیلی کے دعویدارحکمران جنہوں نے پارٹی کیلئے خون دیا تھا آج انہیںسچ بولنے پر نوٹس مل رہا ہے جبکہ ایک امیدوار جو تبدیلی والی سرکار کی طرف سے الیکشن لڑ رہا ہے اس پرخود کارکن افغانی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں واللہ اعلم بالصواب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کوئی تبدیلی والی سرکار کے امیدوار کے حق میں انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں نہ ہی کارکن نہ ہی صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ممبران جنہوں نے گورنر ہائوس میں پارٹی رہنماء کو یہاں تک کہہ دیا کہ جس نے انہیں پارٹی ٹکٹ دیا ہے وہی ان کیلئے انتخابی مہم بھی چلائے اور اب جذباتی نعرے لگانے والے رہنماء سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ یہ کس عذاب میں پھنس گئے ہیں-

آئین کا سبق دوسروں کو پڑھانے والے اٹھارھویں ترمیم کے بعد خودبھی کابینہ کا حجم مقررہ سائز کے برابر نہ رکھ سکے خیبرپختونخوا حکومت کی کابینہ کا حجم بھی آپے سے باہر ہوگیا ہے مشیروں کی بھرتی کا عمل اب بھی جاری ہے اور کچھ تو ایسے رہنما ء بھی ہیں جنہوں نے سرکاری رہائش گاہیں بھی حاصل کرلی ہیں اور ممبر ان صوبائی اسمبلی کیلئے بنے ہاسٹلز میں اپنے چہیتوں کے ساتھ براجمان ہیںساتھ ہی تعلیم صحت کیلئے پالیسی اور تبدیلی لانے کے دعویدار اتنی تبدیلی لا چکے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں بین الاقوامی امدادی ادارے کو شامل کرلیا گیا ہے آکسفورڈ سطح کا تعلیمی نظام لانے کے دعویداروں نے گورنر ہائوس و وزیراعلی ہائوس میں تعلیمی اداروں کے قیام کا بھی اعلان کیا تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے البتہ صحت کے شعبے پر مسلط ہونیوالوں کے رشتہ داروں نے صرف ایک ماہ میں لاکھوں روپے کی گاڑیاں ضرور خرید لی ہیں یہ وہ واضح تبدیلی ہے یہ ایک ایسی واضح تبدیلی ہے جو ہرایک کو نظرآرہی ہے لیکن اس پر بول کوئی نہیں رہا-تبدیلی والی سرکار کی ایک خوبی کا اعتراف کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ اسی پارٹی نے ایک ایسی خاتون کو قبائلی خاتون کے طور پر متعارف کروایاہے جس کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے بنوں سے ہے لیکن چونکہ قبائل کو دھوکہ میں رکھنا بھی تھا اسی لئے ان کاتعلق بنوں کے بجائے وزیرستان سے ظاہرکیاگیا ہییہاں وہ پشتو مثل یاد آتی ہے کہ "سہاگن وہی جو پیا من کو بھائے" سو ہم کون ہوتے ہیں تبدیلی والی سرکار کے ان کارناموں پرکچھ کہنے والے اگر انہوں نے بنوں کی خاتون کو قبائلی بنا دیا تو یہ شائد انکی تبدیلی ہوگی- تبدیلی لانے کے دعویدار وں نے خیبر پختونخواہ میں جہاں اور بہت سارے کارنامے حکومت میں آنے کے بعد انجام دئیے ہیں وہیں یہ غیر آیئنی کارنامہ بھی انہی کے سر جاتا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ جس کا صوبے کی حکومت میں کوئی کردار ہی نہیں ہوتاسرکاری اجلاسوںمیں بیورو کریٹس کو احکامات دیتا نظر آرہا ہے اور اجلاسوں کی سربراہی بھی کرتا دکھائی دیتا ہے شکر ہے کہ کچھ سرپھرے موجود ہیں جنہوں نے اس معاملے پر بات کی ورنہ تو معاملہ اس سے بھی آگے چلے جاتا -دوسری پارٹیوں کے سربراہوں پر تنقید کرنے والے اپنی پارٹی کے حکمرانوں کے دو عہدوں پر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں شائد یہ بھی رشتہ داروں کی سیاست ہے جس پر انہوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں-

یہ بھی تبدیلی ہی ہے کہ چودہ اگست کے پروگرام جو کہ پولیس لائن پشاور میں ہوتا آرہا ہے میں صوبے کا سربراہ تک موجود نہیں تھا شائد انہیں قوم کی آزادی سے زیادہ کوئی اہم کا تھا اس لئے پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت تک گوارا کرنا نہ سمجھا حالانکہ راقم نے اس دن ایسے جج کو پشاور ہائیکورٹ کے تقریب پرچم کشائی میں دیکھا جنہوںنے سینیارٹی بنیادوں پر اختلاف ہونے پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا لیکن چونکہ پروگرام قوم کی آزادی کا دن کا تھا تو اسی دن کی وجہ سے وہی جج اختلاف رائے کے باوجودپرچم کشائی کی تقریب میں شریک ہوا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں کو ملک سے محبت ہوتی ہے وہ اپنا اختلاف بھی اسی دن کی مناسبت سے چھوڑ جاتے ہیں - خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی کرنے والے سابق حکمرانوں سے لاکھ اختلاف سہی لیکن انکے رہنماء تو جشن آزادی کی ہر تقریب میں پہنچ جاتے تھے ان پر غداری کے الزامات تو بہت لگتے ہیں لیکن ان کا کردار تو کم از کم ایسا نہیں تھا جو آج کی تبدیلی والی سرکار کا ہے-خیبر پختونخواہ کے عوام ایسی تبدیلی نہیں چاہتے تھے اگر ایسی ہی تبدیلی آنی تھی تو اس سے پہلے والے کون سے برے تھے -ان حالات میں جب عوام کی قسمت میں تبدیلی ہی نہیں اورجذباتی نعرے لگانے والے رہنماء بھی اپنی زبان کی وجہ سے عدالت عظمی تک پہنچ گئے ہیں اگر صوبائی حکمران ایسی ہی کارکردگیاں دکھاتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب تبدیلی کے خواہشمند عوام ہی انہیں بھی جلد ہی تبدیل کرینگے-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497664 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More