14 اگست پاکستان کی عوام کا آزادی کا دن ہے۔ یہ آزادی کا
دن انتہائی جو ش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947 ء
میں برطانیہ اور ہندوؤں سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا قومی
تہوار پاکستان میں سرکار ی سطح پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔تمام
پاکستانی اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں
کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پورے ملک میں ہر طرف سبز ہلالی جھنڈیاں اور
پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔شام میں جشن چراغاں منایا جاتا ہے۔
14 اگست 1947ء کو جب آزادی کی دولت نصیب ہوئی اس وقت کا جذبہ آج کہیں نظر
نہیں آتا. اس وقت ہم ذات پات، علاقے اور لسانی گروہوں کی بجائے ایک ملت تھے
جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھے تھے ۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر برصغیر کے
مسلمان ایک ہوئے جس کے باعث ہمیں الگ وطن ملا. لیکن آج وہ جذبہ میسرنہیں ہے۔
ہم نے اﷲ کی رسی کو چھوڑ دیا اور صوبائیت، لسانیت اور قومیت کے علم بردار
بن گئے ہیں۔ کل ہم نے اﷲ سے وعدہ کیا کہ ہمیں ایک الگ خطہ زمین مل جائے تو
ہم اس میں اسلام کے مطابق قانون سازی کریں گے اور اسلامی قوانین کا نفاذ
کریں گے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک تقریب سے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا
بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلا م کے اصولوں
کو آزما سکیں‘‘۔
مگر آج ہم اپنے اﷲ ، رسول ، کتاب کے ساتھ ساتھ اپنے قائد کے فرمان کو
فراموش کرچکے ہیں۔ آج ہم اسلامی اصولوں کی بجائے یہودی کے بنائے ہوئے
اصولوں کے تابع ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے صرف اﷲ کے نام کی
خاطر اپناگھر بار، جائیدادیں چھوڑیں، ہزاروں لوگ شہید ہوئے، ماؤں اور بہنوں
کی عصمتیں لٹیں صرف اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین حاصل کیا جائے جہاں اپنے
دین اسلام کے مطابق زندگی گزارسکیں ۔جب لوگ ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تو
یہاں پر موجودمسلمان بھائیوں نے ان کوآگے بڑھ کرنہ صرف گلے لگایابلکہ ان کے
زخموں پر مرہم بھی رکھا۔
پاکستانی قوم کو ارضِ وطن کا 67واں یومِ آزادی مبارک ہو۔لیکن یوم آزادی
منانے سے پہلے ہم سوچ لیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا بحیثیت ملک ہم
آزاد ہیں کہ اپنی خارجہ پالیسی خود بنا سکیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ اتنی آزاد
ہے کہ وہ قیامِ پاکستان اوراسلام کے مطابق قانون سازی کرسکے؟کیا ہماری
افواج اتنی آزاد اور خود مختار ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں کی حدود میں گھس کر
شہریوں کو قتل کرنے والے ڈرون طیاروں کو تباہ کرسکے؟قائد کے اس وطن کی خاطر
میں تو یہ اشعار ہی پیش کرسکتا ہوں جن میں سب کچھ عیاں ہے۔
بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاجاتا ہے مومن
اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے
تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ لیکن بدقسمتی سے ہم نے چھوڑی تو صرف اﷲ کی
رسی اور دنیا کی تمام رسیاں اور علم کو تھام لیاہے۔ آج ہم تفرقے میں نہیں
بہت سے ’’تفرقوں ‘‘ میں بٹے ہوئے ہیں۔آج ہم ایک مسلمان ہونے کے بجائے وہابی
، دیوبندی ،بریلوی، شیعہ اورسنی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی نہیں
ان مسالک میں بھی اپنے اپنے مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے ۔
پھر انہیں فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں۔ کیا اسلام ایک
دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے؟ مگر ہم اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے
اپنے پاکستان (جو تمام دنیا کے لیے اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور واقعتاً
ہے بھی )میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے کافروں کا طرزعمل اپنا
رہے ہیں۔ قائد کے اس دیس میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی کی جارہی
ہے، ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، ایک دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچا یا جارہا
ہے۔بقول شاعر
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
14اگست کے دن پاکستان بھر میں مختلف مقامات پر تقریبات ہوتی ہیں۔اس دن کا
آغاز توپوں کی سلامی سے کیا جاتا ہے ۔ صدر پاکستان اور وزیراعظم قومی پرچم
بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز
کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔مگر یہ عہد صرف زبانی کلامی
ہوتا ہے اس عہد پر عمل نہیں ہوتا۔ آج پاکستان کوقائم ہوئے 66برس ہوگئے ہیں
مگر آج کل جو دور گزررہا ہے وہ میں بیان نہیں کرسکتا اور بد قسمتی سے اپنوں
کی مہربانیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں سے ہر آنے والا دن نئی آفات اور
پریشانیاں لے کر داخل ہوتا ہے ۔ ہر طرف قتل وغارت ہورہی ہے جیسے قیام
پاکستان کے وقت ہوئی تھی۔
ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم
لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز
ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے لہرایا جاتاہے۔ جشن آزادی کی ریلیاں نکالی
جاتی ہیں۔یوم آزادی کے موقع پر ریڈیواور ٹیلی ویژن پر خصوصی پروگرام نشر
کیے جاتے ہیں ۔ ملی نغمے پیش کیے جاتے ہیں۔اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے
ہیں۔ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے نظر نہیں آتے اور ناچ گانے والوں
کو ہیروبنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
عوام اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں، علماء اکرام، تاجروں،
صنعتکاروں اور اساتذہ سے ''قائداعظم کا پاکستان'' مانگتی ہے۔ جہاں فیصلے
ملک کے مفاد میں ہوتے ہوں۔ جہاں میرٹ کو ہر دوسرے عمل پر ترجیح حاصل ہو۔
جہاں قانون کی پابندی امیر غریب کے لئے یکساں ہو۔ جہاں اسلام کے مطابق
زندگی گزاری جائے اور اسلامی قوانین اپنائے جائیں۔
دعا ہے کہ اﷲ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے کہ وہ پاکستان کو اسطرح کا
پاکستان بنا دے جس کا خواب ہمارے قائد نے دیکھا تھا۔ جہاں پر صرف اور صرف
اسلام کی حکمرانی ہواور ہر طرف خوشحالی و ترقی ہو۔آخر میں پاکستان کی سسکتی
اور تڑپتی قوم کو آزادی کی مبارک ہو۔دعاگو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو دن
دگنی اور رات چوگنی ترقی دے ۔ آمین (بشکریہ پی ایل آئی) |