کل پاکستان کے دارالحکومت اسلام
آباد میں سکندر نامی شخص نے پاکستان کے ایک عام آدمی کی انتہائی پریشان، نآ
امید اور مایوس سوچ کی عکاسی کی. ایک انتہائی پریشان سوچ جس کو عصر، مغرب
اور عشاء کی نمازوں کی فکر تو نہیں تھی لیکن اسکو پاکستان میں اسلامی نظام
کے نفاز کی فکر اپنی جان، مال اور بچوں سے کہیں زیادہ تھی. ہمیں بطور قوم
شاید اسلام کے احکامات یا بنیادی اراکین کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن ہم
یہ ضرور چاہتے ہیں کہ باقی تمام پاکستانی پکے مسلمان بن جائیں، ایسے مسلمان
جسکا ہمیں خود بھی نہیں پتا.
سکندر یا زمرد خان نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن
میں نے اپنے اور میڈیا نے کیا کردار ادا کیا یہ اہم ہے-
خبر جنگل کی آگ کی طرح نہ صرف پاکستان، پاکستانی میڈیا، سوشل میڈیا بلکہ
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پھیل گئی اور ہم میں سے کچھ لوگ تو ٹیلی ویژن کے
آگے بیٹھ گئے اور کچھ بنفس نفیس حاضری لگانے ڈی چوک پہنچ گۓ، رش کا یہ عالم
تھا کہ اسلام آباد میں ٹریفک جام ہوگیا اور چند ایمبولینس بھی اس کی نظر
ہوگئیں. لیکن مجھے کیا -
میڈیا نے ہمیشہ کی طرح انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں "سب سے پہلے" کی جنگ
میں کاندھوں پر میڈل سجائے اور لمحہ با لمحہ آپ تک براہ راست اور بلا تعطل
نشریات باہم پہنچائیں! شاباش میڈیا. کیوں کے اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید آج
میں زندہ نہ ہوتا یا شاید میرے جیسے ناظرین کسی نہ کسی طرح اپاہج ہو چکے
ہوتے.
ایسے واقعات سے ہم کب سبق سیکھیں گے؟ چند دوستوں کا خیال تھا کے سکندر کو
کسی سنائپر کا نشانہ بنا کر پانچ منٹ میں ڈرامہ ختم کر دینا چاہیے تھا. خیر
سب کی اپنی اپنی راۓ ہے، چند آ راء پیش خدمت ہیں.
١. ایسے کسی بھی واقعے میں ایک صالح جسکو انگلش میں میڈییٹر کہا جاتا ہے کی
خدمات حاصل کر لینے سے کسی بھی جانی نقصان سے بچ جانے کے امکانات بڑھ سکتے
ہیں.
٢. جاۓ وقوعہ کا فوری طور پر گھیراؤ کیا جاتے تا کے میرے جیسے لائیو میچ
دیکھنے کے خواہش مندوں کو دور رکھا جا سکے.
٣. میڈیا کو ایسے کسی بھی واقعے یا کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کی لائیو
کوریج سے روکنے کے لیے قوانین بناۓ جائیں. شاید قانون مرتب دینا پارلیمنٹ
کا واحد کام ہے.
اور اگر ہو سکے تو خود کو بدلیں اور ایسے تماشے دیکھ کر اپنا قیمتی وقت ضاع
نہ کریں- |