مصر میں قتل عام کسی بڑے بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے

جون 2013 کو مصر کی منتخب حکومت کا ایک سال مکمل ہوا ہی تھا کہ مصری عوام کو ایک بار پھر فوجی آمروں اور عالمی استکباری قوتوں کے نرغے میں دے دیا گیا۔ اس دن سے آج تک مصر کے گلی کوچوں میں روزانہ عوام کا خون بے دریغ بہایا جارہا ہے۔جو لوگ امریکی سرپرستی میں کی گئی فوجی بغاوت کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں ان کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔فرعون کی جانشین کہلانے والی مصری فوج نے صرف ایک دن میں تقریباً دوہزار سے زائد اسلام پسندوں کو شہید اور دس ہزارسے زائد کو زخمی کردیا ہے۔ اس وحشیانہ کارروائی سے چند روز قبل ہی مصری فوج نے احتجاج میں شریک افراد پر فائرنگ کر کے تین سو سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھااور ہزاروں کو زخمی کردیا تھا۔اس سارے قضیے میں مصر کی فوج، سیکولر قوتیں،مصر کی سلفی جمہوری جماعتیں اور ان کی پشت پناہی پر امریکا ،اسرائیل، یورپین یونین اور کئی عرب ممالک ہیں۔ یہ تمام کردار اس وقت ایک فرنٹ پر جبکہ اخوان المسلمین کے ساتھ بعض اسلامی جماعتیں دوسرے فرنٹ پر ہیں۔

واضح رہے کہ آج سے لگ بھگ تین سال پہلے خطہ عرب(مشرق وسطیٰ) کے عوام اپنے اوپر مغرب کی طرف سے مسلط کردہ آمروں کے خلاف نفرت کی انتہا تک پہنچ چکے تھے اور اس نفرت کے ساتھ ساتھ ان میں کچھ کرنے کا عزم بھی پیدا ہوچکا تھا۔ مغرب عوام کے دلوں میں بڑھتی ہوئی نفرت کا ر ±خ موڑنے کے لیے سازشیں بن رہا تھا تاکہ چہرہ بدل کر عوام کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور اپنا پرانا ایجنڈا نئے چہروں کے ذریعے جاری رکھا جاسکے لیکن اسی دوران تیونس سے ا ±ٹھنے والی تحریک بیداری نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نتیجتاً تیونس کے بعد مصر کے آمر کو بھی ایوان اقتدار چھوڑنا پڑا لیکن اس آمر کی مشینری یا دوسرے لفظوں میں اسٹیبلشمنٹ اپنا کام کرتی رہی ۔ فوج، سیکورٹی آپریٹس، پولیس، خفیہ ادارے اور ان کے ساتھ ساتھ عدلیہ ،پرائیویٹ میڈیا اور بیوروکریسی کی ہمدردیاں اسی طبقے کو حاصل رہیں۔جبکہ مصر میں گزشتہ دو سال کے عرصے میں کل چھ مرتبہ عوام کو پولنگ اسٹیشنوں کا منہ دیکھنا پڑا۔ پہلی مرتبہ مارچ 2011 میں پھر نومبر2011 اور جنوری 2012 میں جب ایوان زیریں اور ایوان بالا میں عوام نے اسلام پسندوں کو بالترتیب 73% اور 80%کے ساتھ کامیابی دلوائی اور بالآخر جون2012 میںاخوان المسلمین کے محمد مرسی نے اسٹیبلشمنٹ کے احمد شفیق کو شکست سے دوچار کیا اور ملک کے پہلے جمہوری صدر بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔اس تمام عرصہ میں اخوان المسلمین نے امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات اچھے بنا کر رکھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکا نے ہمیشہ جمہوریت کی رٹ لگائے رکھی ہے۔مصر کے بارے میں بھی امریکا کا زور ہمیشہ اس نکتے پر رہا ہے کہ جمہوری اقدار کو جڑ پکڑنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اِسی صورت مصر میں بہتر حکمرانی کا تصور فروغ پاسکتا ہے۔اخوان نے اسی نظریے کے تحت بہت سی باتوں میں امریکا کی ہاں میں ہاں ملائی۔امریکا کی جانب سے جمہوریت کی اس حد تک حمایت کے باوجود جب سے صدر مرسی کی قیادت میں اخوان المسلمین عام انتخابات میں فتح مند رہی ہے، امریکا کو سخت تشویش تھی کہ صدر مرسی کی حکومت اہم امور میں امریکا کی پالیسیوں سے الگ اور مختلف راہ اختیار کرے گی۔اس دوران امریکا چاہتا تھا کہ اقتدار میں دوسری جماعتوں کی شراکت کے ذریعہ صدر مرسی کے اختیارات کم کیے جائیں لیکن چونکہ اخوان المسلمین کو پچاس فی صد سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل تھی لہذا اخوان کو اقتدار میں دوسری جماعتوں کو شریک کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور دوسری جماعتیں بھی سیاسی مصلحتوں کے تحت اخوان کی حکومت میں شامل ہونے کے لیے آمادہ نہیں تھیں۔ بالاخر امریکا نے فوقیت اسی بات کو دی کہ صدر مرسی کو اقتدار سے ہٹا دیا جائے۔ امریکا کو جمہوری طریقے سے آئی حکومت بھی برداشت نہ ہوئی اور منتخب حکومت کو گرانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔مصر کی جمہوری حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بارے میں امریکا کا کہنا تھا کہ مصری فوج نے یہ سب کچھ جمہوریت کی بقا کے لیے کیا ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ مصر میں ہونے والی ” فوجی بغاوت“ مغربی طاقتوں کی نظر میں فوجی بغاوت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک اسرائیل کے پڑوس میں ایک مسلمان ملک میں حکومت کا خاتمہ ہے۔ ایک برطانوی نامور جریدے میں رابرٹ فسک ( Robert Fisk) نے کہا کہ یہ شاید دنیا کی واحد ”فوجی بغاوت“ ہے جو امریکا کے نزدیک فوجی بغاوت نہیں اس لیے اب مصر محفوظ ہاتھوں میں ہے اور جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار صرف اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز تک محدود رہیں گے۔ انسانیت کے علمبردار اور جمہوریت کاواویلا کرنے والے ممالک بھی مصر میں اسلام پسندوں کی حکومت کے خاتمے پر خاموش تماشائی بنے رہے اور اب مصر میں فوج کی جانب سے اسلام پسندوں کے خلاف کیے جانے والے ظلم پر بھی سب نے چپ سادھ لی ہے۔امریکا، اسرائیل، مصری فوج اور مصری فوج کی حمایت کرنے والے اس بات سے نابلد ہیں کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو انتقامی جذبات جنم لیتے ہیں۔ مصر کے اسلام پسند تو اپنے مقصد پر اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں،اخوانیوں نے ایک بار حکومت کی تنبیہ کو نظر انداز کر دیا ہے اور ایک بار پھر دھرنے دینے کے لیے جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مختلف حصوں میں اخوان المسلمین کے حامی ریلیاں نکال رہے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں، مصری فوج کے خلاف ان کے دل میں چھپی نفرت ان کے نعروں اور مظاہروں سے دیکھی جاسکتی ہے۔القاعدہ بھی امریکاو اسرائیل کے خلاف انتقامی جذبات کی شکل میں منظر عام پر آئی تھی۔دنیا جانتی ہے کہ جب جمال عبدالناصر کے دور میں اخوان پر پابندی لگائی گئی تو اس پابندی نے بہت سے پرامن اخوانیوں کو مصر میں حکومت کی تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کی بجائے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور بہت سے اخوانی پرتشدد القاعدہ کی شکل میں سامنے آئے۔ امریکا اور اس کے ٹاﺅٹ ایک بار پھر یہی غلطی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میںدنیا بھر کے اسلام پسندوں میں تشدد کے جذبات جنم لیں گے۔مصری فوج نے جمہوری طریقے سے اپنے مطالبات منوانے والے اسلام پسندوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر مجاہدین کے اس موقف کو سچا ثابت کردیا کہ جمہوریت کے ذریعہ تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اسلام پسندوں کو عسکریت کی جانب مائل کرنے کے حوالے سے صومالیہ کے جنگجو گروپ الشباب کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے دوسرے روز ہی صومالیہ کے جنگجو گروپ الشباب نے اپنے بیان میں کہاتھا:”مصر میں رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہے کہ اقتدار جمہوریت سے نہیں بلکہ طاقت سے حاصل ہوتا ہے۔ اسلام پسند اگر منتخب بھی ہوں تو انھیں حکومت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اخوان المسلمین کو تاریخ سے تھوڑا بہت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان سے قبل الجزائر میں (اسلام پسندوں) اور حماس کی منتخب حکومت کو چلتا کیا گیا تھا۔ اخوان المسلمین کب خواب غفلت سے بیدار ہوگی اور اسے اپنی کوششوں کے بے سود ہونے کا ادراک ہوگا۔“سوچنے کی بات ہے کہ اگر اسلام پسندوں کے بے تحاشہ قتل کے بعد تمام اسلامی ممالک کے اسلام پسند اپنے مطابات منوانے کے لیےہتھیار اٹھالیتے ہیں تو ان کا مقابلہ کیسے کیا جاسکے گا، جب کہ اسلامی ممالک میں مسلح جدوجہد کرنے والوں کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ اگر ان کی تعداد کم ہوتی تو ان کے خلاف جتنے اقدامات کیے جاچکے ہیں ان کو ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود بھی انہوں نے حکومتوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اگر ان میں مزید اضافہ ہوجائے توکس قدر بڑی قیامت برپا کریں گے۔پوری دنیا سے صرف ایک القاعدہ کا مقابلہ کرنا مشکل ہے اور اگر مصر میں اسلام پسندوں کے خلاف جارحانہ اور انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے ہر اسلامی ملک میں نئی القاعدہ جنم لے لیتی ہے تو اس کا ذمے دار کون ہوگا؟
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701753 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.