کراچی میں اس وقت پاکستانی عدالتی نظام کے
متوازی طالبان عدالتی نظام مختلف علاقوں میں قائم ہوچکے ہیں اور کراچی کے
ان حساس علاقوں میں باقاعدہ طالبان عدالتیں قائم کرکے فیصلے بھی دے رہے ہیں
اور اپنے احکامات و ٖفیصلوں پر عمل در آمد کرانے کے لئے اپنی رٹ بھی قائم
کئے ہوئے ہیں۔کراچی کے مختلف علاقوں میں طالبان کا سب سے اہم اثر روسوخ ،
کواری کالونی، سلطان آباد ، اسلامیہ کالونی ،پیر آباد،پختون آباد ، رشید
آباد ، نیو سلطان آباد ،کیماڑی ،مچھر کالونی ،پٹھان کالونی،بنارس کالونی ،
فرنٹئیر کالونی ، دیر کالونی ، عثمان غنی کالونی ، عمر فاروق کالونی ، پہاڑ
گنج ،اجمیر نگری ، میٹرول، اتحاد ٹاؤن،طوری بنگش کالونی،شیر پاؤ کالونی،
لانڈھی داؤد چورنگی،سہراب گوٹھ، گلشن معمار ، منگھو پیر سمیت کئی اورغیر
معروف علاقوں میں موجود ہے۔طالبان ان علاقوں میں دفاتر صبح و شام کام کرتے
ہیں تو دوسری جانب سیکورٹی اداروں کی جانب سے شدت پسندوں کی گرفتاری کی
اطلاعات بھی منظر عام پر آتی ہیں لیکن اس سے حالات میں کسی قسم کی تبدیلی
رونما نہیں ہو رہی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے رہائشی اپنے
علاقائی و گھریلو مسائل کے حل کیلئے بھی باقاعدہ درخواستیں دیتے ہیں جہاں
موقع پر ان کے درخواستوں پر عمل در آمد کرایا جاتا ہے۔ کراچی میں طالبان کی
جانب سے عدالتی نظام اب باقاعدہ عوامی مسائل حل کر رہاہے اور خواتین کی بڑی
تعداد اپنے گھریلو مسائل کے حل کیلئے بھی ان دفاتر کی جانب رخ کرتی
ہیں۔کراچی میں پہلے مرحلیکے طور پر پختون گنجان آباد آبادیوں میں طالبان کا
اثر قائم کیا جاچکا ہے اور کراچی کی کوئی بھی ایک ایسی آبادی نہیں ہے جہاں
طالبان کا اثر و نفوذ موجود نہ ہو۔طالبان اس سے قبل افغانستان میں امریکی
جنگ کی بنا ء پر پاکستان کے اہم شہروں اور گنجان آباد علاقوں کی جانب راغب
ہوئے اور آخری پناہ گاہ کے طور پر کوئٹہ ، کراچی کے ایسے علاقوں کو منتخب
کیا جہاں پہلے سے لسانی کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ لسانی کشیدگی کی بنا ء پر
سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے سیکورٹی اداروں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ آپر
یشن کو روکوا دیا جاتا تھا ، لیکن ان سیاسی عناصر کو اس بات کا اندازہ نہیں
تھا کہ یہ آگ ان کے اپنے گھروں کو بھی جلا سکتی ہے۔کراچی میں بد قسمتی سے
ایسے عناصر اپنے جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو عرصہ دراز سے ترقیاتی
محرومی کے شکار طبقے کو احساس محرومی کی نشاندہی کرتے ہیں۔کراچی کی قدیم
آباد آبادیوں کو کچی آبادی ہونے کے سبب کم و بیش تمام حکومتوں نے نظر انداز
کیا اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنا پر ایسے عناصر کو پنپنے کا موقع
ملا جنھیں اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان آبادیوں کو استعمال کرنا تھا ۔ قیام
پاکستان کے بعد سے آباد آبادیاں جب ترقیاتی طور پر وسائل کی غیر منصفانہ
تقسیم کا شکار بنی تو عوام کے درمیاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مختلف
قومتیوں کے درمیان غلط فہمیوں نے جگہ پانا شروع کردیں۔ عوام کی جانب سے
مناسب نمائندگی کے تصور نے بھی کچی آبادیوں کی محرومی کو دور نہیں کیا اور
سالوں سال گذر جانے کے باوجود قدیم آبادیاں زندگی کی بنیادی ضروریات سے
محروم ہوگئیں۔ہسپتال، سرکاری اسکول ، ڈسپنسریاں، پارک ،میدان، کیمونٹی
سینٹرپختہ گلیاں سڑکیں، گندے و صاف پانی کا انتظام اور اسٹریٹ لائیٹس جب
صرف پختہ آبادیوں تک محدود ہوگئیں تو بتدریج ان کچی آبادیوں میں کسی خورد
رو پودے کی طرح ناجائز تجاوازت اور بنا کسی پلاننگ کی آبادی کاری کے سبب
آمد و رفت کے تمام راستے بند ہوتے چلے گئے اور ان آبادیوں کی شکل ایک ایسے
جنگل کی طرح ہوگئیں جہاں سے آنے جانے کا کوئی راستہ واضح نہیں تھا کہ ایسے
کسی پختہ آبادی کے مثل قرار دیا جاسکتا۔ اس سبب عوام کے اس بڑے طبقے میں
لسانی ، فرقہ وارانہ اور دیگر گروہ بندیوں کو پنپنے میں دشواری کا سامنا
نہیں ہوا۔ترقی نہ ہونے کے سبب اور عوام کے اس بڑے حلقے کو تعلیم و صحت نہ
ملنے کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں ایسے بچے ، نوجوانی کی عمر سے بڑھاپے
کی جانب گامزن ہوئے جن کے لبوں پر نئی نسل کی آبیاری کیلئے اپنے احساس
محرومی اور طبقاتی شکوے کے سوا کچھ نہیں تھا۔قانون نافذ کرنے والوں اداروں
کی جانب سے ان علاقوں سے چشم پوشی ان عناصر کے لئے جنت نظیر بن گئی جو کسی
نہ کسی طور اپنے نا پسندیدہ فعل کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے
چھپنے کے لئے محفوظ پناہ گائیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔کراچی ان محروم آبادیوں
میں محنت کش طبقہ ، جہاں اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی بنا پر صدائے
احتجاج بلند کرتے تو انھیں مسلسل نظر انداز کئے جانے کے سبب اب کالعدم
مذہبی جماعتوں نے کراچی کی صرف پختون آبادیوں میں ہی نہیں بلکہ کراچی کی
تمام کچی آبادیوں میں اپنا مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔طالبان کی جانب سے
پختون آبادیوں میں عدالتی نظام کا رائج کئے جانا دراصل حکومت کی جانب سے ان
آبادیوں کی محرومیوں کو بھی نظر انداز کئے جانے کا ردعمل ہے۔کیونکہ مشاہدے
میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بلدیاتی نظام کے طرح پنچائتی سسٹم پر ان
علاقوں کے رہائشیوں کو اعتراض نہیں ہے کیونکہ ان کے مسائل اور گھریلو جھگڑے
بغیر کسی وکیل یا مہنگے اور سست پاکستانی عدالتی نظام کی بہ نسبت جلد اور
فوری حل ہو رہے ہیں۔ جب ضیا الحق کے مارشل لاء میں اسلام کے نام پر روس زار
کے خلاف مجاہدین صف آرا ہوئے تو خود امریکہ کو بھی یقین نہیں تھا کہ ایک دن
ایسا بھی آسکتا ہے کہ اس کے تربیت یافتہ پسندیدہ طالبان اس کے خود اتنے
شدید مخالف بن جائیں گے کہ اس کا وسطی ایشا ممالک ، ایران اور چین کو زیر
کرنے کا خواب ادھورا رہے گا لہذا جب9/11کے واقعے کے بعد امریکہ کو دخل
اندازی کا سنہرا موقع ملا تو اس نے ایک لمحے کا انتظار کئے بغیر نیٹو سمیت
اپنی مسلح افواج کو افغانستان کی سرزمین میں اتار دیا اور پاکستان کی
امریکہ نواز حامی حکومت جس کی پہلی بنیادجنرل ایوب کے مارشل لاء کے بعد اس
کے حواریوں، جنرل یحی، جنرل ضیا ء الحق اور جنرل مشرف نے پالیسی جاری رکھ
کر پرائی جنگ میں 34لاکھ سے زائد افغانیوں سمیت ہزاروں پاکستانیوں کو جھونک
دیا۔ جس کا فطری نتیجہ امریکہ مخالف جذبات کی شکل میں نکلا ۔جیسے جہادی
تنظیموں نے بھرپور اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور اسلام کے نام پر
سرشار ہونے والے سادہ لوح مسلمانوں کو مسالک ، فقہ ، شریعت اور دین کے نام
پر برواختہ کرکے امریکہ سے فروعی مفادات حاصل کئے جاتے رہے۔نیٹو سپلائی سے
قبل متعدد ایسے امور سامنے آئے جس نے سب کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ حکومتی
ایسے عناصر جو کل تک امریکہ نواز پالیسوں کے ہمنوا رہے اب قوم کو حقائق سے
بے خبر رکھ کر ایسے عوامل مصنوعی طور پر رونما کر رہے ہیں جس کے سبب عوام
آنے والے اہم اور خطرناک خطرے سے اس وقت آگاہ ہو جب پلوں سے پانی گذر
جائے۔پاکستان کے قیام کے بعد سے لیکر آج تک کسی حکومت نے اپنی غلطیوں سے
سبق حاصل نہیں کیا اور ملک کے دو لخت ہونے کے باوجود نوکر شاہی کے طرز عمل
میں تبدیلی کا کوئی عنصر نہیں پایا گیا ۔جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے کہ ملک
کو درپیش خطرات کا ادراک کرنے کے بجائے ملک کی تمام سیاسی ، مذہبی جماعتیں
اقتدار کے حصول کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔آج بھی وقت ہے کہ افغانستان میں
در اندازی ،حقانی گروپ ، کوئٹہ میں طالبان شوری کی موجودگی اور جنوبی
وزیرستان میں جہادی کیمپوں کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ کیا جا سکتا ہے
اور یہ تمام امور کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے ۔بلوچستان کی ناگفتہ صورتحال
کو اگر کنٹرول نہیں کیا گیا تو بنگلہ دیش کے طرح امریکہ کو بلوچستان اپنے
مفادات کے حصول کیلئے اہم بیس میسر آجائے گا اور افغانستان میں بیٹھ کر چین
، ایران اور وسطی ایشا کے ممالک کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی
ناک میں نکیل ڈال دیگا ۔ہمیں ان خطرات ، اور ماضی کی غلط پالیسوں کا ادارک
کرکے اقتدار کی رسہ کشی کے بجائے اخوت ، اتحاد اور ملی قومی جذبے کا عملی
مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان ہوگا تو سب کچھ ہے ۔ہماری سیاسی ،شخصی ،
اجتماعی اور انفرادی آزادی پاکستان کی بقا سے وابستہ ہے ۔ کوئی قوم جب غلام
بن جاتی ہے تو صدیاں لگتیں ہیں اس کو خوئے غلامی سے نکالنے کیلئے ، لہذا
اپیل ہے کہ بلا امتیاز رنگ و نسل ،مذہب پاکستان کی سلامتی کے لئے تن من دھن
سے یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔کیونکہ یہ ناگزیر ہے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے
کہ تمام اختلافات پس پشت ڈال کر کس طرح بیرونی خطرات کا مقابلہ کیا جاسکتا
ہے۔کراچی میں طالبان کی جانب سے عدالتی نظام پر حکومت کی جانب سے خاموشی
بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ بھلا ملک بھر کی ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود
کس طرح طالبان کراچی میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ہمیں اس بات
پر غور کرنا چاہیے کہ عرصہ دراز سے محروم طبقہ اپنے مسائل کا حل چاہتا
ہے۔ایسے اپنے مسائل کا حل جہاں سے ملے گا وہ اس جانب تیزی سے راغب
ہونگے۔سرکاری مراعات مخصوص علاقوں تک محدود ہونے کے سبب ،ان احساس محرومی
کے شکار علاقوں میں طالبان کے قدم مضبوط کرانے کا بھی سبب بنا ہے۔عوام کے
دیرینہ مسائل حل کئے بغیر کسی بھی قوت سے مقابلہ ممکن نہیں۔ |