چاند تیری زمیں ،پھول تیرا وطن

تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے،جو وزیراعظم پاکستان ہے جو وزیر پاکستان ہے جو ممبر و منسٹر اسمبلی پاکستان ہے،امن ہے گیس ہے بجلی ہے نہ پانی پھر بھی دل ہے پاکستانی،ٹماٹر 160روپے کلو آٹا چالیس روپے کلو گھی دو سو بیس روپے کلو،چینی ساٹھ سے ستر روپے کلو ،رحمتوں کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی کھجور پچاس سے دھرک مار کر دو سو ساٹھ روپے کلو ، چکن تین سو روپے کلو ،گوشت چار سو روپے کلو اور مٹن کا نام نہ ہی لیں تو بہتر ہے آنیوالے کل کی فکر نہ گذرے وقت پر کوئی پچھتاوا ،ہم پھر بھی زندہ قوم ہیں،نہ گھر میں کوئی محفوظ نہ بازاروں میں اور تو اور مسجدوں میں بھی امان نہیں،خلق خدا کٹ رہی ہے مر رہی ہے حکمران اپنے اللے تللوں میں مگن نہ کل کسی کوان کیڑے مکوڑوں کی فکر تھی نہ آج ہی کسی کے کان پر کوئی جوں تک رینگ رہی ہے،اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج جس دن کہیں دھماکہ نہیں ہوتا کہیں لاشیں نہی گرتیں اور آدم کے بیٹے بیٹیوں کے سروں کی فصل نہیں کٹتی اس دن لوگ حیرانی سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں عجیب بات ہے آج کہیں بلاسٹ نہیں ہوا،کبھی کسی دور میں آندھی طوفان اور ریت کے بگولوں کو دیکھ کے بڑے بوڑھے کہتے تھے آج کہیں ناحق خون ہوا ہے کوئی بے گناہ قتل ہو ا ہے مگر آج ان آندھی طوفانوں اور بگولوں نے بھی ہم پر چار حرف بھیج کر غالباً اپنی راہیں کہیں اور پھیر لی ہیں،یہاں تو حساب کتاب کے لیے بھی اب باقاعدہ کیلکولیٹراور کمپیوٹر کی ضرورت ہے کہ لاشیں اس اسپیڈ سے گرتی ہیں کہ ابھی پچھلی خبر بریکنگ لائن سے ہٹتی نہیں کہ اس سے اگلی اور اس سے بڑی تیار ہوتی ہے، ڈرون تیکنالوجی کی آزمائش کا نظارہ ابھی ماند نہین پڑتا کہ جنت کے طلبگار ہاتھوں میں ٹکٹ تھامے بارود اوڑھے کسی مسجد و امامبارگاہ یا جنازے کو مشق ستم بنا ڈالتے ہیں سمجھ نہیں آتی قوم کہاں ہے کیا ان حالات میں ہم پر قوم کی تہمت لگائی جاسکتی ہے اور وہ بھی زندہ قوم ہونے کی۔کیا ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں، ایک طرف لوٹ مار کا بازار گرم تو دوسری طرف ماہ رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی کوششیں،ایک طرف مل کے مزدوروں کے بونس اور تنخواہوں میں کٹوتیاں دوسری طرف سیٹھ صاحب کا ہر سال عمرہ ماہ رمضان کی شب بیداری کے لیے سعودیہ کا سفر،ایک طرف منڈی میں تین قسم کے ریٹ پر زمینداروں سے خریدے گئے تین قسم کے مال کی فوراً فوراً ملاوٹ اور ملا نے کے بعد دوسری طرف مال ٹرک پہ لوڈ ہوتے ہی رائے ونڈکے لیے بستر باندھ کے بظاہر اﷲ کے لیے گھر سے نکلنے کی تیاری،اور اسی اﷲ کے پیغمبرﷺ کی اس بات سے غالباً کوئی سروکار ہی نہیں کہ ــ․؛جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں،،یہاں حرام مال جیب میں ڈال کے لوگ مارکیٹ میں حلال اور صاف ستھرا گوشت تلاش کر رہے ہوتے ہیں،ڈٹ کے منافع کماتے ہیں بلکہ سارا سال رمضان کا انتظار کرتے ہیں،دو چار ہوٹلوں کو کپڑے سے چھپا کر اور باقی تمام ہوٹلز بند کر کے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی شتر مرغ جیسی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے کیا کبھی آج تک کسی نے سبزی فروٹ کے ٹھیلوں کو بھی بند کرنے کی کوشش کی ہے کیا سیب اور آڑو کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا،مگر یہاں ہر کام الٹا اور اس کی منطق بالکل نرالی ہے روزہ صبر کا نام ہے جس کا اجر بھی اﷲ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا پھر روزے کو کسی حلوائی نانبائی سے خطرہ کیسا،اور اس سب کا فلسفہ کیا ہے کہ آپ جب بھوکے ہوں تو آپ کو کسی غریب اور مسکین کی بھوک کا احساس ہو ورنہ اﷲ کو ہمارے بھوکے پیاسے رہنے کی نہ ضرورت ہے نہ اسے اس سے کوئی غرض،ہمارے رکھنے سے اس کی بے بہاشان کریمی میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ ہمارے نہ رکھنے سے نعوذبااﷲ اس خالق ارض و سماء کوکوئی فرق ہی پڑتا ہے،مگر ہم سب سے سے زیادہ بدتمیزی اور بداخلاقی کا مظاہرہ شاید رمضان میں ہی کرتے ہیں،کسیء غریب محتاج کو مہینے بھر کا راشن دینا تو دور کی بات ہماری تو افطاری میں بھی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وی آئی پیز کو جمع کیا جائے،ہمارے دستر خوان پہ ایک افطار پارٹی پہ جتنا خرچہ آتا ہے میں کامل یقین سے کہتا ہوں کہ اس سے ایک غریب کے پورے مہینے کے راشن پانی کا بندو بست ہو سکتا ہے،چلیں یہ تو عوام کی بات ہے سرکار اور سرکاری ہرکارے کیا کرتے ہیں اس مہینے میں ،صبح دفاترز کی ٹائمنگ آٹھ سے ایک بجے کر دی جاتی ہے گویا روزہ رکھ کے کسی پر احسان کیا جا رہا ہے اول تو کوئی آٹھ بجے آتا نہیں اور اگر کوئی آجائے تو آتے ہی روزہ لگ گیا روزہ لگا ہوا کی گردان کی جاتی ہے اور کوشش یہی ہوتی ہے کوئی سائل متھے نہ ہی لگے تو بہتر ہے ،کیا یہ درس دیتا ہے ہمیں روزہ اور رمضان،اس کے بعد عید کی آمد سے بہت پہلے ایک نئے عزم اور ولولے سے لوٹ مار کی تیاری شروع کر د ی جاتی ہے ٹیلر تک اپنے دام میں منہ مانگا اضافہ کر لیتے ہیں،جو سوٹ عام دنوں میں چار سو کا بن جاتا ہے اس کی سلائی عید کی آمد کے ساتھ ہی آٹھ سو ہو جاتی ہے نائی شیو اور بال ترشوانے کے چارجز ڈبل کر دیتا ہے ، ٹرانپورٹر من مانے کرایوں کی وصولی پہ آجاتے ہیں،عید اپنے پیارون کے ساتھ مناننے والے ہزاروں افراد اڈوں پر اپنے بال بچوں سمیت ان کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں،ان ٹرانپورٹرز کو چیک کرنے والے حکومتی اہلکار اپنی عیدی کی تلاش میں مصروف ہوتے ہیں،تھانہ کچہری پٹواری، تحصیلدار، گرداور، بلدیہ ، ضلعی انتظامیہ کے اہلکار،الغرض جس کسی پہنچ جہاں تلک ہے وہ حصہ بقدر جثہ عوامی ذلالت میں اپنی سی کوشش کرتا ہے کسی بھی ایسے ڈیپارٹمنٹ میں سے جن سے ایک عام آدمی کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے وہاں اکثریت ہلاکو اور چنگیز خان کی باقیات نظر آتی ہیں،آپ ان تمام محکموں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک معمولی فٹ پاتھ اور بازار سے چند ریڑھیاں تک ان لو گوں سے ہٹتی نہیں اور اگر ان کے دعوے دیکھے جائیں تو لگتا ہے کہ یہ عوام الناس کے لیے آسمان سے تارے توڑ لانے کو مرے جا رہے ہیں غریب شخص کی اگر خدانخواستہ چوری ہو جائے تو وہ تھانے اس ڈر سے نہیں جاتا کہ بچا کچھا ادھر لٹ جائے گا،آج اس ملک میں اپنے جائز ترین کام کے لیے بھی کسی ایم این اے کسی ایم پی اے کے ڈیرے پر حاضری ضروری ہے،مشرف کے مارشل لاء میں ایک ناظم عوام کے سروں پہ مسلط تھا مگر تھا تو ایک۔ مگر اس وقت چکوال ضلع میں لگ بھگ آدھا درجن وڈے ڈیرے ایسے آباد ہیں کہ جن کی مرضی و منشاء کے بغیر ایس ایچ اوز پتلونیں بھی نہیں پہنتے،اس عوام کی نجانے ابھی کتنی ذلالت اور باقی ہے یہ جس کو چوکیدار بناتے ہیں وہی بعد میں چور بلکہ ڈاکو نکلتا ہے جسے راہنما اور راہبر بناتے ہیں وہ تھوڑے ہی عرصے بعد راہزن بن جاتا ہے،اس قوم نے اس چاند میری زمین اور پھول میرا وطن پر کتنا جبر اور کتنا کتنا ظلم سہا اس کی انتہا نہیں اس نے عشروں پر پھیلے مارشل لا ء بھی بھگتے اس نے جمہوریت کے نا م پر عفریت بھی آزمائے ، ہر آنے والا ایک سے ایک بڑھ کر نکلتا ہے اور کمال حیران کن بات یہ ہے کہ ہر نیا آنیوالا اپنے پیش رو کی مکمل تصویر ہوتا ہے،زیادہ دور مت جائیں سابقہ پیپلز پارٹی کا دور دیکھ لیں شاید ہی اس ملک و قوم نے اس سے برا دور دیکھا ہو مارشل لاؤں کے علاوہ،آج کے حکمران جو کل تک اپوزیشن میں تھے بے شمار اصلاحاتی پیکج کے وعدے کرتے تھے ہمیں مو قع ملا تو ہم تقدیر بدل دیں گے پاکستان کو بدل دیں کچھ نے کہا ہم نیا پاکستان دیں گے اور جب اﷲ نے موقع دے دیا تو واقع تقدیر بدل دی اپنا کوئی دور پرے کا عزیز رشتے دار بھی نہیں چھوڑا جسے نوازا نہ ہو انہوں نے ،کچھ بھی تو مختلف نہیں پیپلز پارٹی کے دور سے ۔ان کے پاس لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے لارے لپے لگانے والا راجہ تھا تو ان کے پاس خواجہ،نہ وہ کچھ کر سکا نہ ان سے کوئی امید،انہوں نے پاکستان بدلنا تھا اپنے اہل و عیال کی حالت بدل دی ایک ایک کوچن کے حکومت میں شامل کیا ،انہوں نے بھی کالا باغ ڈیم کو سرد خانے میں ڈالا، ارادہ ان کا بھی یہی ہے،ان کے دور میں بھی کرپشن عام تھی آج بھی نندی پور جیسے پراجیکٹ سوالیہ نشان بن چکے ہیں، اس وقت بھی دعوے ملک کو پیرس بنانے کے تھے آج بھی کاشغر تک راہداریوں کے خواب، ان کے دور میں بھی پولیس کا سارا زور عام اور؛ ماڑے؛ افراد پر تھا حالت آج بھی وہی ہے،ان کے پاس گورنری کے لیے سلمان تاثیر تھا یہ اس کی ہی فوٹو کاپی سرور خان امپورٹ کر لائے،ان کی ایم کیو ایم سے گاڑھی چھنتی تھی جو ن لیگ کو اس وقت سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم نظر آتی تھی اور آج اﷲ کی شان دیکھیے اسی ایم کیو ایم کے ساتھ ن لیگ کاجپھا مظبوط سے مظبوط ہوتا جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی بغل میں منہ دے کر ایم کیو ایم پر ہلکی ہلکی تنقید شروع کر چکی ہے، جی ہاں اسی ایم کیو ایم پر جو ان کی سب سے بڑی اتحادی تھی ،انہوں نے اپنے دیرینہ اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو کھڈے لائن لگا دیا تھا صورتحال ادھر بھی وہی ہے اس وقت بھی سارا زور بیرونی دوروں اور سیر سپاٹوں پر تھا اور آج کیا ہو رہا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،اس وقت بھی لوگ دھڑا دھڑ سڑکوں چوکوں اور چوراہوں بلکہ مسجدوں میں مر رہے تھے اور یہ قتل عام آج بھی اسی رفتار بلکہ زیدہ اسپیڈ میں جار ی و ساری ہے،کل عبدالرحمٰن تھے آج نثار آگئے ہیں فرق صرف ملک اور چوہدری کا ہے،اور آج چودہ اگست پر نغمے اور ترانے ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں ،چاند میری زمین پھول میرا وطن ،اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،قوم تو حکمرانوں کی قوم کو ذلت کی پاتال میں دھکیلنے اور پہنچا دینے کی بھرپورخواہش اور کوشش کے باوجود ابھی زندہ اور پائندہ ہے اور رہے گی مگر زمین انہی کی چاند ہے جو حاکم ہیں وطن انہی کا پھول ہے جو ہم پر مسلط ہیں اور جو سارے کمحض کرپشن کے لیے اس پرچم کے سائے تلے ایک اور یک جان ہیں،چاند زمین پر مسجدوں پر خودکش حملے نہیں ہوتے ، قانون موم کی ناک نہیں ہوتا،جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا محاورہ بھی وہاں فٹ نہیں آتا،اورپھول زمین پر سکول جانیوالے ننھے پھولوں پر گھات لگانے والے غارت گر نہیں ہوتے، اور اگر ہوں تو دوسری سانسنہیں لے سکتے خدارا بس کر دیں اب اس قوم کو ان جذباتی نعروں اور کھوکھلے اور پرفیب نظاروں سے باہر نکلنے دیں بہت ہو چکا ہر دفعہ چودہ اگست یوم آزادی جو اصل میں پندرہ اگست ہے پر حکمران اور ذمہ داران تجدید عہد کرتے دکھائی دیتے ہیں کونسا عہد اور کونسی تجدید پھر سال بھر چھٹی اور اگلے سال پھر تجدید عہد،اس ساری صورتحال پر حساس دل رکھنے والے حیران و پریشان ہیں کہ جائیں تو کدھر جائیں اور کریں تو کیا کریں،،آخر میں انور مسعود کی نظم کے چند اشعار،،،،،،
سوچی پئے آں ہنڑ کی کرئیے
کیسے کیسے اسلحے بن گئے،،،،،،وڈے وڈے مسئلے بن گئے
وڈے شہر وسا بیٹھے آں،،،،،،،سارا چین گنوا بیٹھے آں
سوچی پئے آں ہنڑ کی کرئیے
رزق سیاست عشق کبتا،،،،،،کجھ وی خالص رہن نہ دتا
ساری کھیڈ ونجا بیٹھے آں،،،،دودھ وچ سرکا پا بیٹھے آں
سوچی پئے آں ہنڑ کی کرئیے
جی کردا اسی ووٹاں پائیے،،،،مارشل لا تو جان چھڑائیے
ووٹاں شوٹاں پا بیٹھے آں،،،،جمہوری رولا بھی ہنڈا بیٹھے آں
سوچی پئے آں ہنڑ کی کرئیے
سودا کوئی بجھدا ناں ای،،،،،کوئی رستہ سجھدا ناں ای
رستے دے وچ آ بیٹھے آں ،،،سوچی پئے آں ہنڑ کی کرئیے
سوچی پئے آں،،،،،،،،،،