الیکشن یعنی انتخابات اس مرحلے
کو کہا جاتا ہے جس میں عوام اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق آزاد رائے دہی کے
ذریعے ان عوامی نمائندوں اور سیاست دانوں کو منتخب کرتے ہیں جنہیں وہ آئندہ
دور میں برسرِ اقتدار دیکھنا چاہتے ہوں۔یوں عوامی مینڈیٹ کے ذریعے منتخب
ہونے والی حکومت کو جمہوری حکومت اور اس کے دور کو جمہوری دور کہا جاتا ہے۔
۱۱ مئی ۲۰۱۳ کو پاکستان میں دسویں عام انتخابات منعقد ہوئے۔۱۹۷۰ کے عام
انتخابات کے بعد جو کہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے، یہ پہلا
موقع تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں رائے دہندگان ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے
اپنے گھروں سے نکلے۔ نہ صرف غریب بلکہ پاکستان کا امیر ترین طبقہ بھی جنہوں
نے رائے دہی کہ کبھی اپنی ضرورت نہیں سمجھا تھا اپنی رائے دہی استعمال کرنے
گھروں سے نکلا۔ نہ صرف مرد، نوجوان بلکہ عورتوں اور بزرگوں نے بھی اس امر
میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔گزشتہ انتخابات جس میں عوام کا ٹرن آؤٹ ۳۹
فیصد تھا، اس دفعہ ۰۲․۱۶ فیصد بڑھ کر ۰۲․۵۵ فیصد ہوگیا جسے تبدیلی کی ایک
علامت سمجھا جا رہا ہے۔
انتخابات کا طریقہ کار اور تمام انتظامات ۱۹۷۳ء کے آئین کے تحت، جو کہ
پاکستان کی تاریخ کا پہلا مکمل آئین تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی
مسٹر ذوالفقار علی بُھٹو کی جانب سے پیش کردہ تھا جس کے مطابق پانچ سال
مکمل ہونے پر پاکستان کی تمام قومی و صوبائی اسمبلیاں اور وفاقی کابینہ از
خود تحلیل ہوجائیں گی۔آئین کے مطابق ہی تمام اسمبلیوں کی مدّت پوری ہونے کے
بعد ۶۰ دن کے اندر اندر انتخابات کرانے اور اس کی تاریخ کا اعلان کیا
گیا۔اس دورانیے میں ملک کا نظام چلانے کے لئے اقتدار نگران حکومت کو سونپا
گیا۔نگران حکومت میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا سیاسی و مذہبی جماعت سے
کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس فعل کا بنیادی مقصد شفاف اور غیر جانبدار انتخابات
کا انعقاد ہوتا ہے۔
انتخابات کے تمام انتظامات الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مکمل کیا۔۱۹۷۳ء کے
آئین کے تحت ہی اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا کام ہی انتخابات کے
انتظامات شفاف طریقے سے مکمل کرنا تھا۔ جس میں ووٹر لسٹوں کی تیاری سے لے
کر اتنخابات کے نتائج تک تمام چھوٹے بڑے کام شامل تھے۔ آئین کے تحت ہی
انتخابات کے بعد ایک ہفتے کے اندر نتائج کا اعلان کیا گیا۔ غیر حتمی اور
غیر سرکاری نتائج کی آمد کا سلسلہ تو اسی روز شروع ہوگیا تھا لیکن الیکشن
کمیشن کی جانب سے باقاعدہ حتمی اور سرکاری نتائج انتخابات کے اگلے روز سے
آنا شروع ہوئے جو تین چار دن تک جاری رہے۔ تھوڑے دنوں بعد ہی امیدواروں کی
کامیابی کے نوٹیفیکیشن بھی جاری کردئیے گئے۔
ان جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان پیپلز
پارٹی اور متحدہ قومی مؤومنٹ سرِ فہرست ہیں۔ انتخابات سے تقریباً تین ہفتے
قبل انتخابی مُہم کا آغاز ہوا جس میں کئی جماعتوں نے بھر پور حصّہ لیا۔ یوں
تو انتخابی مہم کا اختتام الیکشن سے دو روز قبل یعنی ۹ مئی،۲۰۱۳ء کو ہونا
تھا لیکن یہ انتخابی مہم مزید دو روز قبل یعنی ۷ مئی،۲۰۱۳ء کو حادثاتی طور
پر اختتام پذیر ہوگئی جب تحریکِ انصاف کے سربراہ جناب عمران خان صاحب لاہور
کے ایک جلسے میں اسٹیج پر چڑھتے ہوئے لفٹر سے گِر کر شدید زخمی ہوگئے تھے۔
اس حادثے و واقعے کے بعد تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جلسے اور
کارنر میٹنگز فوری طور پر منسوخ کردیں۔
سندھ، سرحد اور بلوچستان مین تو دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے باعث کوئی
خاطر خواہ انتخابی مہم نہ چل سکی البتہ پنجاب مین یہ مہم زور و شور سے جاری
رہی جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پہلی بار انتخابات میں حصّہ لینے والی
جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے بھر پور حصّہ لیا اور ان انتخابات میں اصل
مقابلہ بھی ان دونوں جماعتوں کے درمیان دیکھنے میں آیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے رجسٹرڈ 216 جماعتوں میں سے 112 جماعتوں
کو انتخابی نشان الاٹ کئے گئے جن میں سے تقریباً تمام جماعتوں نے انتخابات
میں حصّہ لیا۔ ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) یکطرفہ مقابلے کے بعد
بھاری اکثریت سے نہ صرف کامیاب ہوگئی بلکہ غیر مخلوط حکومت بنانے کے بھی
قابل ہوگئی۔ میاں محمد نواز شریف نے تیسری بار وزیرِ اعظم پاکستان منتخب ہو
کر تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ پاکستان کی سابق اور پہلی خاتون
وزیرِ اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں تو یہ ریکارڈ شاید ان
کے حصّے میں بھی آسکتا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے
بعد بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی اِن انتخابات
میں گزشتہ دور میں اپنے غلط فیصلوں اور ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کے
باعث صرف ایک صوبے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔ گزشتہ دور میں برسرِ اقتدار
رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں
کا عوام نے بھر پور ازالہ اور احتساب کرتے ہوئے اس محاورے کو سچ ثابت
کردکھایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
پاکستان کی تاریخ مین پہلی بار ایسے انتخابات منعقد ہوئے جس میں نو منتخب
حکومت کو گزشتہ حکومت نے پُر امن اور آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کیا۔
گزشتہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی پہلی ایسی حکومت تھی جس نے اپنا پانچ سالہ
دورِ حکومت مکمل کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ نو منتخب حکومت پاکستان کے مفاد، سالمیت اور نظریہء
پاکستان کو مدِّ نظر رکھ کر کوئی خاطر خواہ اقدامات کرنے میں کامیاب ہوتی
ہے یا پھر گزشتہ حکومت کی طرح اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے اور ان
کے نقشِ قدم پر چلنے کو ترجیح دیتی ہے۔
اللّٰہ تعالٰی سے دُعا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے
اور اسے نیک صالح حکمران و عوام عطا فرمائے۔
(آمیٰن) |