وادیٔ نلتر کی قدرتی رعنائیوں ، جادوئی جھیلوں ، دلفریب آبشاروں ، ٹھنڈے
میٹھے چشموں ، نیلگوں بل کھاتے گُنگُناتے ندی نالوں ، گھنے جنگلوں ، جنگلی
خوشبودار پھولوں اور منفرد گلیشیئرز کی سیر و سیاحت کی روداد گلگت بلتستان
کے قلم کار اشتیاق احمد یاد ؔ کے اس سفر نامے میں ۔
تحریر: اشتیاق احمد یادؔ۔ گلگت
اِمسال ہم نے گلگت بلتستان کی حسین و جمیل وادی ’’ وادیٔ نلتر ‘ ‘ جانے کا
فیصلہ کیا ۔ یہ وادی ضلع گلگت میں واقع ہے ۔ گلگت شہر سے قریب ترین
سیرگاہوں میں سے یہ حسین ترین سیرگاہ ہے ۔ اس کی بے پناہ دلکشی کی وجہ سے
اسے ’’پاکستان کا سوئٹزر لینڈ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ وادیٔ نلتر دنیا کے
مشہور پہاڑی سلسلہ ’’ سلسلہ ء قراقرم ‘‘ پر واقع ہے ۔ نلتر پائین ، نلتر
بالا اور نگرے اس کے اہم گاؤں ہیں ۔
|
|
گلگت بلتستان کے دارالخلافہ اور ہیڈ کوآرٹر ’’ گلگت شہر ‘‘ سے نلتربالا کا
فاصلہ 40کلومیٹر ہے ۔ گلگت شہر کے شمال کی جانب یونیورسٹی روڈ سے ہوتے ہوئے
براستہ وادیٔ نومل ، نلتر پائین اور نلتر بالا پہنچنا پڑتا ہے ۔ گلگت سے
نلتر پائین تک سڑک پکی ہے جہاں تک تقریب سوا گھنٹہ کا سفر ہے ۔ وہاں سے آگے
سڑک کچی اور قدر ے دشوار گزار ہے ۔ جہاں سے نلتر بالا تک پندر ہ بیس منٹ کا
سفر ہے ۔ ہم دوستوں نے وادیٔ نلتر میں تین دن قیام کا فیصلہ کیا اور اس
کیلئے 29, 28, 27جون 2013ء کی تاریخیں طے کیں ۔ دوتین دن پہلے اس پروگرام
کی منصوبہ بندی کی اور انتظامات کو حتمی شکل دی ۔ روانگی سے قبل گلگت کے
بازار سے اشیائے خوردونوش کی خریداری کی۔ بالآخر 27جون کی سہ پہر تین بجے
گلگت سے اپنی منزل کی جانب رختِ سفر باندھ لیا ۔ ہم دوستوں کا گروپ عاصم
بشیر، محمد جمیل ، طفیل عباس، قاسم ولی اور راقم پر مشتمل تھا۔ چونکہ سڑک
کافی دشوار گزار اور چڑھائی پر مشتمل ہے ۔ اس لئے ہم نے اپنے دوست قاسم ولی
کی Wills Jeepمیں نلتر جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ جیپ Four Wheel Driveہے اور
اس میں اسپیشل گیر بھی ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ انتہائی دشوار گزار اور
کچی سڑکوں پر بھی خوب دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جبھی تو اسے ’’پہاڑوں کی
شہزادی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
ہم براستہ یونیورسٹی روڈ اور نومل روڈ سے ہوتے ہوئے وادیٔ نومل پونے چار
بجے پہنچے۔ وہاں ایک ہوٹل میں چائے پی اور گاڑی میں سوار ہوکر نلتر کی جانب
چل دیئے۔ آگے بڑھتے ہوئے وادیٔ نومل سے بائیں جانب نلتر نالے میں داخل ہوئے
۔ یہ دو پہاڑوں کے درمیان کافی تنگ نالہ ہے جہاں بائیں جانب سڑک بنی ہوئی
ہے ۔ نالے میں پہنچتے ہی آب و ہوا تبدیل ہوئی ۔ ہم دوست کبھی سنجیدہ گفتگو
کرتے ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی گنگناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور سفر کو
انجوائے کر رہے تھے ۔ نلتربالا سے پہلے نلتر پائین کے قریب ’’ نلتر ہائیڈرو
پروجیکٹ ‘‘ کے پاور ہاؤسز اور عمارتیں بنی ہوئی ہیں ۔ اس پروجیکٹ کی
پیداوار 18میگا واٹ ہے ۔ تقریباً چار بج کر دس منٹ پر ہم نلتر پائین سے
گزرے ۔ نلتر پائین شرح خواندگی اور سماجی و معاشی ترقی کے اعتبار سے نلتر
بالا سے کافی آگے ہے۔ کچھ ہی دیرمیں کچی سڑک اور چڑھائی شروع ہوئی۔ جس میں
قاسم نے کمالِ مہارت سے گاڑی چلائی ۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ کافی تعداد
میں کاریں بھی نلتر کی طرف جارہی تھیں ۔ مگر روڈ کی ناگفتہ بہ حالت اور
چڑھائی کی وجہ سے انہیں سخت دشواری کا سامنا ہورہا تھا ۔ یہاں تک کہ چڑھائی
عبور کرنے کیلئے دو یا تین سواری کار سے اترکر کار کو دھکے دے رہے تھے ۔ تب
جاکے بڑی مشکل سے کاریں چڑھائی عبور کر رہی تھیں ۔ بس ذرا سی تبدیلی کے
ساتھ ایسا کچھ موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ بھی ہورہا تھا ۔ یہ سیاح ایسا نہ
کرتے بھی تو کیا کرتے ۔۔۔ آگے دلکش نظار ے نظریں بچھائے ان کے منتظر تھے ۔
ہم تقریباً پانچ بجے نلتر بالا کے ابتدائی حصہ میں داخل ہوگئے ۔ یہاں داخل
ہوتے ہی ہمارے احساسات و جذبات میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ۔ کیونکہ واقعتا
گھنے جنگل ، ترو تازہ سبزہ ، گنگناتی ندیاں ، جھرنے ، دل و آنکھوں کو
لبھانے والے آبشار اور ناچتے کھیلتے بادل نظریں بچھائے ہمیں خوش آمدید کہنے
منتظر تھے۔ہم لطیف احساسات و جذبات اور مسرورکن کیفیات کے ساتھ ان نظاروں
سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نلتر بالا کے مرکز پہنچے ۔ یہاں قلیل تعداد میں
دکانیں اور ہوٹلز ہیں جبکہ کافی تعداد میں مقامی لوگوں کی رہائش گاہیں ہیں
۔ نلتر بالا کے درمیان سے نلتر کا خوبصورت نالہ بہتا ہے ۔ یہ گاؤں سطح
سمندر سے تقریباً 8000فٹ بلندی پر واقع ہے۔نلتربالا کے مشرق کی جانب مقامی
آبادی ، دوکانیں ، ہوٹلز اور کھیت کھلیاں ہیں ۔ مغرب کی جانب نالے سے اس
پار نگرے کا ایریا ہے ۔ جو قدرتی حُسن کے اعتبار سے لاجواب ہے ۔ جنوب کی
جانب نلترپائین ہے ۔ جہاں سے گزرتے ہوئے ہم نلتر بالا پہنچے تھے ۔ جبکہ
شمال کی جانب نلتر کی جادوئی جھیلیں، گلیشیئرز اور مشہور درّے ہیں۔ جس کی
وجہ سے موسم گرما میں یہاں موسم بڑا معتدل اور خوشگوار رہتا ہے ۔ آج کے روز
یعنی 27جون 2013ء کو یہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15ڈگری سینٹی گریڈ رہا
جبکہ گلگت میں تقریباً 30ڈگری سینٹی گریڈ اور پاکستان کے بڑے شہروں میں
تقریباً 35سے 38ڈگری سینٹی گریڈ رہا ۔
چونکہ دن ڈھلنے کو تھا اس لئے ہم سیدھے Hutکی جانب بڑھے ۔ یہ Hutشمال کی
جانب نلتر بالا کے تقریباً آخری حصے میں بر لب ِ نالہ گھنے جنگل کے بیچ و
بیچ واقع ہے ۔ ہم نلتر بالا کی مین سڑک سے بائیں جانب مڑے اور گھنے جنگل سے
ہوتے ہوئے Hutپہنچے ۔ Hutمیں ذرا سستانے کے بعد قاسم اور جمیل نے آلو
اُبالنے کیلئے ہانڈی چولہے پر چڑھا ئی ۔ آلو اُبلنے تک کافی وقت تھا ۔ اس
لئے آم لیکر ہم ساتھ والے نالے کے کنارے گئے اور آموں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد
تناول کیا۔ وہاں نالے سے اُس پار جنگل اور قدرتی مناظر سے لطف اندو ز ہونے
اور فوٹو گرافی کرنے کے بعد واپس Hutکی طرف آئے۔ پھر ہم Hutکے ارد گرد
جگہوں کو Exploreکرنے باہر نکلے ۔ Hutسے مشرق کی جانب چند قدم کے فاصلے پر
کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا اور آنکھوں کوخِیرہ کرنے والا ایک چشمہ ہے ۔ اسے
دیکھتے ہی ہم غیر ارادی طور پر چیخ اٹھے کہ واہ کتنا دلفریب اور حسین و
جمیل چشمہ ہے ۔ جی چاہتا ہے کہ اسے چُوم لیں ۔ چشمہ سے نکلنے والا صاف و
شفاف پانی چھوٹی چھوٹی بل کھاتی گنگناتی رنگ برنگ ندیوں کی شکل میں بہتا ہے
۔ جہاں ترو تازہ گھاس اور پھول ان ندیوں کے حسن میں چار چاند لگاتے ہیں۔
یقین جانیئے اس چشمے اور ننھی ندیوں کا نظارہ منفرد ، لازوال اور بے مثال
ہے ۔ انسان کو انسان کے علاوہ قدرتی چیزوں سے بھی محبت ہوتی ہے ۔ گویا مجھے
اس چشمے اور ساتھ بہتی ندیوں سے محبت ہوگئی ۔ میں وصلِ یار کے حسین لمحات
سے بہت محظوظ ہوا۔ چونکہ ابھی روشنی تھی اس لئے ہم نے مختلف زاویوں سے فوٹو
گرافی بھی کی ۔ واپس Hutآئے ۔ آلو اُبل کر تیار تھے ۔ ہم نے اُبلے ہوئے آلو
مزے مزے سے کھائے ۔ ایسی ٹھنڈی جگہوں میں اُبلے ہوئے آلو کھانا ایک طرح سے
ہمارے علاقے کی روایت ہے ۔ اس کے بعد کچھ دیرہم نے آرام کیا ۔
|
|
27،28،29جون 2013کو ’’گلگت آرٹس اینڈ کلچرل کونسل ‘‘ کی جانب سے نلتر بالا
(نگرے)میں ’’نیشنل یوتھ میوزیکل فوک فیسٹول نلتر‘‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔
اس لئے ہم فیسٹول کو دیکھنے روانہ ہوئے ۔ ہم شام کو فیسٹول پہنچے جہاں گلگت
آرٹس اینڈ کلچرل کونسل اور گلگت بلتستان کے دیگر کونسلوں کے گلوکاروں اور
فنکاروں نے مختلف علاقائی زبانوں میں گانے گائے اور روایتی رقص پیش کیا ۔
اس سے ہم بڑے لطف اندوز ہوئے ۔ پھر ہم واپس اپنی قیام گاہ کی طرف آئے ۔ میں
اور قاسم نے چکن کڑھائی بنانے کی ذمہ داری لی اور کافی محنت کے بعد اسے
تیاری کیا۔ ہمیں زیادہ تجربہ نہیں تھا ۔ اس لئے اسے پکانے میں ہم زیادہ
انصاف نہیں کر سکے ۔ پھر بھی یہ ڈش کافی حد تک ذائقہ دار تھی ۔ کھانا تناول
کرنے کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔ گپ شپ کی۔ پھر سو گئے ۔ صبح اٹھے چشمے میں
ہاتھ منہ دھویا ،تیار ہوئے ناشتہ کیا اور نلتر بالا کے شمال کی جانب واقع
جھیلوں کی طرف جانے کی تیار کی ۔ ہم جھیلوں کی طرف ذرا دیر سے روانہ ہوئے ۔
چونکہ سڑک کچی اور دشوار گزار ہے ۔ اسلئے گاڑی کی رفتار قدرے سست تھی ۔ یہ
سڑک کبھی نالے کے کنارے ، کبھی گھنے جنگلوں کے بیچ اور کبھی سرسبز و شاداب
کھیتوں سے گزرتی ہے ۔ اس سفر کے دوران کبھی نالے کا شور ، کبھی جنگل کا
سناٹا ، کبھی سڑک کے بیچ بہتا پانی پھر قدرے پُر خطر سڑک ۔۔۔ یہ ایک طرح سے
زبردست Adventureتھا اور جسے ہم انجوائے کر رہے تھے۔ اس دوران عاصم اور
قاسم نے باری باری ڈرائیونگ کی ۔ ہم ایک گھنٹے بعد پہلی جھیل پہنچے ۔ نلتر
بالا سے یہاں تک فاصلہ 13کلومیٹر ہے ۔روڈ کی ابتر صورتِ حال کی وجہ سے ہمیں
ایک گھنٹہ لگا ۔ گاڑی سے اتر کر جونہی میری نظر جھیل پر پڑی تو ایک لمحے
کیلئے میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر کھولیں ۔ مجھے یقین نہیں آرہا
تھا کہ جسے میں دیکھ رہا ہوں یہ حقیقت ہے یا کہ ایک تصور۔ آنکھیں کھول کر
دوبارہ دیکھا تو واقعی قدرت کا ایک کرشمہ میرے سامنے تھا۔ یقین کیجئے لمحہ
بھر کیلئے میں دنیا کے اس منفرد منظر میں کھو سا گیا ۔ ڈوب سا گیا ۔ گویا
ایک سحر مجھ پر طاری ہوا۔ صاف شفاف نیلگوں پانی ، جھیل کے کئی دلفریب اور
دل آویز رنگ ، جھیل کے اندر رنگ برنگی گھاس اور درخت ، جھیل کے ارد گرد
درخت اور سبزہ ، بیسوں زاویے جہاں سے جھیل کے کئی انوکھے منظر ، جھیل کے
ارد گرد سے نکلنے والے ٹھنڈے میٹھے چشمے اور جھیل کے اندر مچھلیاں ۔۔۔ یہ
سارے نرالے منظر آنکھوں کو ٹھنڈک ، جاں کو راحت ، دل کو فرحت اور روح کو
طمانیت بخش رہے تھے ۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اس جھیل کا جمال باکمال
ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس ’’طلسمی جھیل ‘‘ کا شمار دنیا کی
خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے مجھ سے اور میرے جذبات سے
اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اس کی قدرتی رعنائیوں سے بھر پور لطف اندوز
ہو رہے ہیں اور خوب انجوائے کر رہے ہیں ۔ اس جھیل کو شینا زبان میں چُھمو
بری (مچھلیوں کا تالاب ) کہتے ہیں۔ کسی سیاح نے اس کے منفرد اور جاذبِ نظر
رنگوں کی وجہ سے اسے ’’ست رنگی جھیل‘‘ کا نا م دیاہے ۔ کافی کوشش کے بعد
معلوم ہوا کہ اس جھیل کو بَشکری جھیل (Bashkiri Lake) بھی کہتے ہیں ۔ جبکہ
میں نے اس کی سحر انگیزی کے باعث اسے ’’طلسمی جھیل ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ مجھے
لگتا ہے کہ مستقبل میں جمالیاتی حِس بدرجہ اتم رکھنے والا کوئی سیاح اسے
’’جمالیاتی جھیل ‘‘ کا نام دے گا۔ کیونکہ یہ حُسن و جمال میں بے مثال ہے ۔
اس جھیل کو دیکھ کے مجھے صحیح اندازہ ہوا کہ شعراء اکثر اپنے اشعار میں
محبوب کی آنکھوں کو جھیل سے تشبیہ کیوں دیتے ہیں ۔طلسمی جھیل کی حرارت اور
شرارت نے میری شاعرانہ حِس کو بیدار کیا ۔ جس کی وجہ سے کچھ دیر تخیل میں
غوطہ زن سا ہوا۔ اور یہ اشعار کہہ ڈالے۔
تمہاری جھیل سی آنکھوں میں کھونا چاہتا ہوں
تری پلکوں کے سائے میں ،میں سونا چاہتا ہوں
گھڑی بھر کے لیے نظریں ملاؤ میری نظروں سے
میں خود کو میری جاں ان میں ڈبونا چاہتا ہوں
گراؤ میری آنکھوں میں تم اپنے خوشنما آنسو
انہی سے روگ اپنے دل کے دھونا چاہتا ہوں
تری آنکھیں مرے ناسور زخموں کے ہیں مرھم
بسا کے خود کو ان میں ٹھیک ہونا چاہتا ہوں
اس جھیل کے ایک طرف جمال خان نامی مقامی شخص ایک کمرہ پر مشتمل ہوٹل چلاتا
ہے اور سیاحوں کیلئے ایک ٹینٹ کا انتظام بھی کیا ہے اور جھیل کی سیر کیلئے
ایک دیسی کشتی جسے شینا زبان میں جالو کہتے ہیں کا بھی بندوبست کیا ہے ۔
جھیل میں سیر کیلئے جمال خان ایک چکر کے مبلغ 100روپے وصول کرتا ہے ۔ اس
دیسی کشتی میں جھیل کی سیر کا اپنا ہی لطف ہے ۔ کچھ دیر طلسمی جھیل کا بڑے
انہماک اور ذوق سے مشاہدہ اور نظارہ کرنے کے بعدہم نے جھیل کے چاروں اطراف
چکر لگایا اور یوں چکر لگایا جیسے دربارِ حُسن میں طواف کر رہے ہوں۔ پھر
درجنوں زاویوں سے اس کے حُسنِ لازوال کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کیا ۔ ہم
نے دیکھا کہ جھیل کے ارد گرد مقامی ، ملکی و غیر ملکی سیاح خیمہ زن تھے اور
ان میں سے کچھ کھانا پکانے اور کچھ کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔ اور کچھ
ہماری طرح دیوانہ وار فوٹو گرافی کر رہے تھے ۔ طلسمی جھیل سطح سمندر سے
تقریباً 8100فٹ بلند ہے جبکہ آج کے روز یعنی 28جون 2013کو یہاں کا زیادہ سے
زیادہ درجہ حرار ت 5سے 8ڈگری سنٹی گریڈ رہا ۔ دیکھنے میں یہ جھیل زیادہ
گہری نظر نہیں آتی ہے مگر بقول جمال خان کے اس کی گہرائی تقریباً 70فٹ ہے ۔
جبکہ یہ جھیل تقریباً 100سال سے زائد عرصے سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے
ہے ۔
طلسمی جھیل سے تقریباً آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور جھیل ہے جسے شینا
زبان میں چکر بری کہتے ہیں جبکہ کسی سیاح نے اس کی مخصوص رنگت کی وجہ سے
اسے ’’فیروزی جھیل ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ ہمارا سفر ابھی جاری تھا۔ ہم فیروزی
جھیل کی جانب روانہ ہوئے اور تقریباً 5منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہاں پہنچے ۔وادیٔ
نلتر میں یہ وہ مقام ہے جہاں سڑک ختم ہوتی ہے ۔ اگر سیاح اس سے آگے جانا
چاہیں تو Hikingیا Trackingکے ذریعے جاسکتے ہیں ۔ یہاں سے بائیں جانب کافی
بلندی پر گلیشیئر کے قریب ایک جھیل ہے جبکہ سامنے کی جانب کافی کھلی جگہ ہے
۔جہاں سے کافی فاصلے پر دو مشہور درّے (Passes) ہیں ۔ ایک درّہ درّۂ
ڈینتر(Dainter Pass) ہے جو نلتر اور ضلع ہنزہ نگر کے گاؤں چھپروٹ کو آپس
میں ملاتاہے ۔ اس کی بلندی 4500میٹرہے ۔ جبکہ دوسرا درّہ درّۂ پکورہ ہے جو
نلتر اور ضلع غذر کی وادی وادیٔ اشکومن کو آپس میں ملاتا ہے ۔ اس درّے کی
بلندی 4710میٹر ہے ۔ غیر ملکی سیاح بالخصوص اور ملکی اور مقامی سیاح
بالعموم اوسطاً 5دنوں کی Trackingکے بعدان درّوں سے گزر کر ایک گاؤں سے
دوسرے گاؤں پہنچتے ہیں۔
ہم نے فیروزی جھیل کے پاس کچھ دیر آرام کیا اور اس کے نظاروں سے جی بھر کے
لُطف اندوز ہوئے ۔ ہم نے یہاں سے Hikingکے ذریعے گلیشیئر کے پاس موجود جھیل
تک جانا تھا۔ ہم یہاں سے تقریباً سوا تین بجے روانہ ہوئے ۔ ہمیں شروع شروع
میں یہ Hikingکافی مشکل اور چیلنجنگ لگی ۔ کیونکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ
بلندی کی وجہ سے سانس پھول رہا تھا ۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری ۔ جمیل
پروفیشنل ٹورسٹ گائیڈ بھی ہے اس وجہ سے اُسے Hikingاور Trackingمیں اچھی
خاصی مہارت حاصل ہے ۔ جبھی تو وہ تیز تیز چڑھائی چڑھ رہا تھا۔ عاصم اور
قاسم کی رفتار بھی ٹھیک تھی جبکہ میں اور طفیل قدرے آہستہ آہستہ چڑھائی چڑھ
رہے تھے ۔ ہم گلیشیئروالی جھیل کی دیدار اور وصال کے اشتیاق میں تھکاوٹ کو
مات دے رہے تھے اور عزم و ہمت سے اُوپر چڑھ رہے تھے ۔ جمیل اور گائیڈ ہم سے
ذرا آگے نکلے ۔ ہم وہاں پہنچے تو گائیڈ مشتاق اپنی مادر ی زبان گوجری میں
گانا گا رہا تھا ۔ جبکہ جمیل خوب جُھوم رہا تھا ۔ وہاں پہنچ کر ہم بھی گانے
سے محظوظ ہوئے ۔ پھر وہاں سے آگے بڑھے اور جھیل کے کافی قریب پہنچے ۔ جھیل
سے ذرا پہلے ہمیں برف کی لمبی چادر دکھائی دی ۔ تقریباً10منٹ ہم نے اس برف
کی چادر پر Hikingکی اور خوب لطف اندوز ہوئے ۔ بالآخر سہ پہر چار بجے ہم اس
مقام پر پہنچے جہاں سے جھیل کا پردہ اٹھتا ہے اور اس کی دید نصیب ہوتی ہے ۔
ہمیں فیروزی جھیل سے یہاں تک پہنچنے میں 45منٹ لگے ۔ اگر ہم سب پروفیشنل
Hikerیا Trackerہوتے تو ہمیں یہاں پہنچنے میں 30منٹ لگتے ۔ بحرحال عام لوگ
یہ Track 45منٹ سے ایک گھنٹے کی Hikingمیں طے کرسکتے ہیں۔
|
|
جھیل سے پردہ اٹھتے ہی ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی اور تھکاوٹ اور سانس
پھولنے کا عمل گویا رفو چکر ہوگیا ۔ یہاں ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریا ں چرا
رہا تھا ۔ یہ منظر بھی دیدنی تھا۔ ہم جھیل کے ساتھ بہت بڑے گلیشیئرز کے
اُوپر پہنچ گئے اور یہاں سے جھیل ، پہاڑوں اور آبشاروں کا ٹکٹکی باندھ کر
نظارہ کرنا شروع کیا۔ اس جھیل کو شینا زبان میں بُروروک بری( گدلا تالاب )
اور کوٹو بری (بہرہ تالاب ) کہتے ہیں۔ گدلا تالاب کی وجہ تسمیہ تو آسانی سے
سمجھ میں آتی ہے کہ اس جھیل کا پانی اچھا خاصا گدلا ہے جبکہ بہر ہ تالاب
نام پڑنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ۔ اس موقع پر عاصم نے بڑی دلچسپ بات کہی
۔ اُس نے کہا کہ نوعیت اور بناوٹ کے اعتبار سے طلسمی جھیل ’’جمالی ‘‘ جبکہ
یہ جھیل ’’جلالی ‘‘ ہے ۔ عاصم کی یہ بات ہمیں دل کو لگی واقع طلسمی جھیل
میں بھلا کا جمال ہے جبکہ یہ جھیل بڑی جلالی لگتی ہے ۔ ہم اور دیگر سیاحوں
نے ان جھیلوں کے مختلف نام رکھ کر ایک طرح سے ایک کنفیوژن پیدا کردی ہے ۔
خیر ہمارے ذوق اور حِس نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ مگر محکمہ سیاحت
گلگت بلتستان کو چاہئے کہ وہ ان سب جھیلوں کے نام رکھ کے ہر جھیل کے ساتھ
جھیل کے نام کا سائن بورڈ لگادیں ۔ اس سے یقینا سیاحوں کی کنفیوژن دور ہوگی
۔ محکمہ سیاحت کی جانب سے ابھی تک یہ کام سرانجام نہ دینا بڑی حیرت کی بات
ہے ۔
یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباً 12ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ اس جھیل کا شمار دنیا کی بلندترین جھیلوں میں ہوتا ہے ۔
اس روز یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 5ڈگری سنٹی گریڈ رہا ۔ جبھی ہمیں
کافی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی مگر اس ٹھنڈ سے ہم سب خوب مزے لے رہے تھے ۔
گلیشیئرکے اُوپر کھڑا ہونا ہمیں بہت بھلا لگ رہا تھا اور مسرت اور طمانیت
کی عجیب و غریب کیفیت سے دوچار تھے ۔ اس مقام سے آگے بائیں جانب چھوٹے بڑے
گلیشیئرز اور برف کے حصے یہاں کے حُسن کو دوبالا کر رہے تھے جبکہ ایک گہرا
آبشار یہاں کی رعنائیوں میں چار چاند لگا رہا تھا ۔ ہم نے زندگی کے اس
یادگار سفر کو مزید یادگار اور منفرد بنانے کیلئے برلبِ جھیل، گلیشیئر کے
اُوپر، گائیڈ مشتاق کے لائیو گانے پر روایتی رقص بھی کیا ۔ اس دوران ہمیں
ایسا لگ رہا تھا جیسے ہمارا انگ انگ جھوم رہا ہے اور سُرور و مستی میں ڈوبا
ہوا ہے ۔ ہمارا روایتی رقص جوش و جذبے میں مکمل غوطہ زن تھا ۔ رقص کے
اختتام پر میں نے سوچا کہ 12ہزار کی بلندی پر واقع آسمان کو چھوتی جھیل کے
کنارے ، آبشار کے پہلو میں گلیشیئرکے اُوپر رقص کرنا ہماری زندگی کی کتاب
کے ابواب میں ایک حسین باب کا اضافہ ہے ۔
وہاں سے روانہ ہونے سے چند منٹ قبل ہلکی پھلکی بارش اور ژالہ باری ہونے
لگی۔اور ہمیں لگاگویایہاں کے بے بدل گزارے لمحات کو یادگار بنانے کے لیے
موسم نے اپنا رنگ دیکھایا ہو ۔ واپسی سے پہلے ہم نے یہاں کے مخصوص مناظر کی
بھی خوب عکس بندی کی ۔ بہت زیادہ حسین اور سنہری یادوں کے ساتھ 5بجے واپس
فیروزی جھیل کے لئے روانہ ہوئے ۔ اُترائی کی وجہ سے صرف 15منٹ میں ہم
فیروزی جھیل پہنچے ۔ وہاں گائیڈ مشتاق اور اُسکے بیٹے کو خیر باد کہا اور
گاڑی میں بیٹھ ـــکر’’ طلسمی جھیل ‘‘ کی طرف روانہ ہوئے ۔
’’طلسمی جھیل ‘‘پہنچ کر سب سے پہلے تربوز کھانے کا فیصلہ کیا ۔کیونکہ سخت
Hikingکی وجہ سے ہمارے جسم کے کافی کلوریز جل گئے تھے ۔ اُوپر سے بھوک بھی
ستا رہی تھی سو ہم نے سیر ہوکر تربوز کھایا ۔ اس کے بعد جھیل کے کنارے
درختوں کے نیچے سیخ کباب (باربی کیو) پکانے کا انتظام کیا ۔ یہ کام زیادہ
تر جمیل اور قاسم نے سرانجام دیا ۔ میں اور عاصم نے اُن کی مدد کی جبکہ
طفیل نے چائے تیار کی ۔ دنیا کی حسین و جمیل جھیل کے کنارے ، جنگلی پیڑوں
کے سائے تلے ، بینی بینی خوشبودار ہوا کے جھونکوں میں ، قوسِ قزح کے رنگ
بکھیرے پانی کا نظارہ کرتے ہوئے اور بوندا باندی سے فیض یاب ہوتے ہوئے گرما
گرم اور لذیز سیخ کباب کھانے اور چائے کی چسکیاں لینے کے یہ لمحات نہایت
مسرور کن ، انمٹ اور یادگار تھے ۔
کھانے پینے سے فارغ ہوکر ایک دفعہ پھر جھیل کی جمالیاتی کشش نے مجھے اپنی
طرف کھینچا۔ میں دوستوں سے ذرا پرے ہٹ کر جھیل کے کنارے ایک ٹیلے پر بیٹھ
گیا اور انتہائی ارتکاز کے ساتھ شاعرانہ تخیل پر مبنی جمالی نظروں سے جھیل
کا نظار کرنے لگا۔ بوندا باندی کا سلسلہ جاری تھا۔ بارش کے قطرے پانی کی
سطح کو مَس کر کے حسین بلبلے بناتے ، یہ بلبلے چند لمحوں میں خوشی سے
جھومتے ہوئے اپنا وجود کھو دیتے اور گویا طلسمی جھیل کا حصہ بننے پر فخر
محسوس کرتے کیونکہ اُن کو اس بات کا ادراک تھا کہ جب ’’میں ‘‘ ’’ہم ‘‘ میں
بدلتا ہے تو زیادہ طاقتور اور کار آمد ہوتا ہے ۔ اُن کا یہ خیال بھی تھا کہ
اجتماعیت انفرادیت پر ہر لحاظ سے بھاری ہے ۔ اُن کے اندر جمالیاتی حِس بھی
کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی وہ اپنے آپ کو ایسے فنا کرتے جیسے کوئی شخص یا ذی
روح اپنے محبوب کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے ۔
اس غیر معمولی اور تخیل پر مبنی منظر کشی کے بعد میں واپس اپنے دوستوں کے
پاس آیا ۔ طلسمی جھیل میں سیاحوں کی آمد جاری تھی ۔ مقامی اور قومی سیاح
دیکھ کر مُسرّت ہورہی تھی لیکن غیر ملکی سیاحوں کی یہاں موجودگی میرے لئے
خوشگوار حیرت کا باعث تھی ۔ خوشگوار حیرت اس وجہ سے کہ آج سے محض چار روز
قبل 24جون 2013کو دنیا کی مشہور چوٹی نانگا پربت کے بیس کیمپ میں 9غیر ملکی
کوہ پیماؤں اور دو مقامی افراد کے بہیمانہ قتل کی واردات کے باوجود یہاں
غیر ملکی سیاحوں کا سیر و سیاحت کیلئے آنا تھا۔ اتنے بڑے واقعے کے باوجود
غیر ملکی سیاحوں کی گلگت بلتستان آمد انتہائی نیک شگون تھی ۔ اس بات سے
جہاں مجھے گلگت بلتستان کے باسیوں کی امن پسندی پر خوشی ہورہی تھی وہاں ان
غیر ملکی سیاحوں کی جرأت اور یہاں کی جادوئی کشش پر رشک آرہا تھا ۔ ہماری
دلی خواہش اور دعا ہے کہ جنت ِ نظیر خطّہ گلگت بلتستان میں ملکی اور غیر
ملکی سیاحوں کی آمد جاری و ساری رہے ۔ اس سے ہماری معیشت کو زبردست تقویت
ملتی ہے ۔
گلگت بلتستان اپنے قدرتی حُسن، دُنیا کی بلند ترین چوٹیوں ، تین عظیم پہاڑی
سلسلوں ، گلیشیئرزاور قدرتی جھیلوں وغیرہ کی وجہ سے ساری دُنیا میں مقبول
ہے نانگا پربت میں غیر ملکی و ملکی سیاحوں کا قتل نہایت دل سوز واقعہ ہے ۔
جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ہمیں اس امر کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت
بلتستان کی Geo-Strategicاہمیت بہت زیادہ ہے ۔ چین کی جانب سے KKHکی تعمیر
، اس کا توسیعی منصوبہ ، مستقبل میں کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن کا
منصوبہ ، وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس سے مستقبل میں دوستی اور تجارتی و
معاشی سرگرمیوں کے امکانات وغیرہ دنیاکی بعض قوتوں کو کھٹکتے ہیں۔ اس وجہ
سے یہاں وقتاً فوقتاً فسادات برپا کئے جاتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد حاصل
کئے جاتے ہیں۔ گلگت میں فرقہ وارانہ فسادات کی سب سے اہم کڑی مذکورہ بالا
تناظر سے جا ملتی ہے ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ گلگت بلتستان کے باسیوں میں اچھا
خاصا شعور اجاگر ہو رہا ہے اور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بظاہر فرقہ واریت کے
پیچھے گھناؤنی سازشیں کارفرما ہیں ۔ اس شعور اور اتحاد و یگانگت کا نتیجہ
ہے کہ کافی مہینوں سے گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا کوئی واقعہ پیش نہیں
آیا ہے ۔
اب ہمیں یہاں سے واپس نلتر بالا لوٹنا تھا ۔ سو ہم شام 7بجے بھر پور ترو
تازگی اور حسین یادوں کے ساتھ واپس نلتر بالا کی طرف روانہ ہوئے ۔ حسب ِ
معمول قاسم ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔ ہم مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے
نلتر بالا کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ راستے میں دل آویز اور متنوع مناظر ہماری
ترو تازگی اور فرحت میں مزید اضافہ کر رہے تھے ۔ مگر کبھی کبھار دھیان سڑک
کی ناگفتہ بہ حالت کی طرف بھی جاتا تھا ۔ اﷲ تعالیٰ نے وادیٔ نلتر کو قدرتی
حُسن سے مالا مال کیا ہے ۔ مگر متعلقہ محکموں کی عدم توجہی کی وجہ سے اس
جانب اُس تعداد میں سیاح متوجہ نہیں کئے جا سکے ۔ جس کی یہ وادی متقاضی ہے
۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کچی اور دشوار گزار سڑک ہے ۔ اگر اس جانب توجہ دی
جائے تو مقامی ، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کا رخ کرسکتی
ہے۔
|
|
ہم تقریباً سوا آٹھ بجے Hutپہنچے ۔ کچھ دیر سستایا ۔ آم کھائے اور تھوڑی دیر
بعد نلتر بالا کی حسین ترین جگہ ’’نگرے‘‘ روانہ ہوئے کیونکہ وہاں ’’نیشنل
یوتھ میوزیکل فوک فیسٹول نلتر‘‘ کا گرینڈ میوزیکل کنسرٹ ہونا تھا ۔ ہمارے
وہاں پہنچتے ہی میوزیکل نائٹ کا آغاز ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہم مختلف
النوع موسیقی اور روایتی رقص سے محظوظ ہوئے ۔ باقی پروگرام بارش کی نذر ہوا
ْ۔ جس کی وجہ سے ہمیں واپس آنا پڑا۔ گلگت بلتستان کی ثقافتی و ادبی انجمنیں
گلگت بلتستان کی موسیقی ، ثقافت اور ادب کو پروان چڑھانے کی بھر پور کوشش
کر رہی ہیں ۔ ایسی سرگرمیوں سے جہاں ہماراثقافتی و ادبی ورثہ محفوظ ہوتا ہے
وہاں معاشرہ میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے ، امن کو دوام بخشنے اور سماج
میں تواز ن قائم کرنے میں زبردست مدد ملتی ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ
جب تک کسی سماج میں ادب ، آرٹ ، موسیقی ، ثقافت ، سیاست ، معیشت ، مذہب ،
فلسفہ اور قدرتی ماحول میں ایک توازن قائم نہ ہو وہ معاشرہ عدم توازن اور
انتشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جبھی تو برج نرائن چکبست نے کیا خوب کہا ہے ۔
زندگی کیا ہے ؟ عناصرمیں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ؟ انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
وہاں سے ہم سیدھے Hutآئے ۔ یہاں پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا ۔ کھانا کھایا ۔
اُس کے بعد ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے ۔ صُبح اُٹھ کے تیار ہوکر ناشتہ
کیا ۔ چونکہ ہمارے ٹور کا آخری دن تھا اس لئے Hutکے اردگرد کچھ دیر مزید
گھومے پھر ے ۔ اس کے بعد ہم نے پیکنگ کی اور Hut، حسین و جمیل چشمہ اور اس
کے ساتھ بہنے والی ندیوں ، پھولوں ، نالے اور گھنے جنگل کو الوداع کیا۔ اور
اُس پار نگرے جانے کا پروگرام بنایا ۔ چونکہ اس ٹور میں ہم دو مرتبہ رات کے
وقت نگرے گئے تھے۔ اس لئے دن کے اُجالے میں اُ س جگہ کا دیدار ضروری تھا ۔
سو ہم اُس طرف چل پڑے اور دن 12بجے نگرے کی اُس جگہ پہنچے جہاں سرسبز و
شاداب گھاس کا ڈھلوانی میدان، اردگرد گھنا جنگل ، ساتھ ٹھنڈے میٹھے پانی کا
نالہ اور اس نالے سے ذرا اُوپر دل کو لُبھا دینے والا آبشار ہے ۔ جبکہ کافی
اُوپر برف اور چھوٹے بڑے گلیشیئرزیہاں کی خوبصورتی میں زبردست اضافہ کرتے
ہیں ۔ یہ جگہ جہاں قدرتی حسن کی وجہ سے بہت مشہور ہے ۔ وہاں ’’ سِکی
فیڈریشن آف پاکستان ‘‘ کی جانب سے لگایا گیا ’’سِکی لفٹ ‘‘ اور پاکستان
ائیر فورس کی جانب سے سالانہ سردیوں کے موسم میں منعقد ہونے والا ’’سِکی
کمپٹیشن ‘‘ کے باعث بھی بہت مقبول ہے ۔
ہم جونہی سِکی لفٹ والی جگہ پر پہنچے تو ہمیں لگا کہ ہر طرف چھوٹے بڑے قوسِ
قزح نمودار ہوئے ہیں ۔ کیونکہ فیسٹول کے اختتام کے بعد بچے ، بوڑھے ،
نوجوان ، لڑکے ، لڑکیا ں سب اس قدرت کے حُسن سے مالا مال جگہ کی طرف امڈآئے
تھے ۔ ہفتہ کی چھٹی کی وجہ سے بھی مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی بڑی تعداد
یہاں موجود تھی ۔ تقریباً ہر عمر کے لوگ کھیل کود میں مصروف تھے ۔ کچھ لوگ
فٹ بال اور کچھ کرکٹ کھیل رہے تھے جبکہ جنگل میں منگل کے مصداق کچھ لوگ
مختلف ٹولیوں میں روایتی موسیقی کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے ۔ ٹھنڈی ہوا
ماحول کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی ۔ رِ م جِھم اور نلتر کا تو چولی دامن
کا ساتھ ہے جن کی آنکھ مچولی اکثر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ وقفے وقفے سے بوندا
باندی اور بارش ہونے کی وجہ سے وادیٔ نلتر کو ’’بارش کا گھر ‘‘ بھی کہا
جاتا ہے۔ اس دوران میری مسرت کی انتہا نہ رہی اور یہ شعر کہہ ڈالا
پل پل بدلتے موسم سے
دل خوش ہوا روح شاد ہوئی
یہاں ہمیں طفیل اور قاسم کے دوست شفاعت حسین ملا۔ جو نلتر پائین کا رہائشی
ہے ۔ شفاعت ہمیں کافی اصرار کے بعدیہاں سے ذرا اُوپر نگرے کے دوسرے دلفریب
حصہ میں واقع اپنے دیسی Hutمیں لے گیا ۔ نگرے کے اس حصے کی خوبصورتی بھی
دیدنی ہے ۔ Hutپہنچنے کے بعد دوستوں نے شفاعت کے ساتھ ملکر کھانے پینے کا
بندوبست کیا ۔ عاصم نے بڑا لذیز حلوہ تیار کیا ، جمیل نے چپس بنائے اور
شفاعت نے چائے تیار کی ۔ کھانے پینے کے بعد میں نے شفاعت سے نلتر کے حوالے
سے کافی معلومات اکٹھی کی ۔ یہاں سے فارغ ہو کر کچھ اور عکس بندی کی ۔ پھر
وہ لمحہ آ پہنچا جب ہم نے شفاعت حُسین اور دُنیا کی حسین وادیوں میں سے ایک
وادی ’’ وادیٔ نلتر‘‘ کو الوداع کیا ۔ واپسی پر راستے میں ہم زندگی کے اس
یادگارسفرسے ملتے جُلتے گیت اور غزلیں گنگناتے ہوئے تقریباً رات آٹھ بجے
اپنے مقامی شہر گلگت پہنچے ۔
نہ بھولیں گے کبھی ہم اس سفر کو
سحر انگیز جھیلوں کے نگر کو
بڑے نایاب ہیں منظر یہاں کے
سکوں دیتی ہے یاں ہر شے نظر کو |