ايثار الكتاتني مصر سے تعلق رکھتی ہیں - وہ سعودی
عرب میں پیدا ہوئیں اور پھر مصر آگئیں پچیس برس کی عمر میں ہی انہون نے
مصری اور بین الاقوامی حلقوں میں بطور صحافی-مصنف /لکھاری -تجزیہ نگار اپنا
لوہا منوالیا ہے -چیں کی سیاحت کو گئیں تو چینی مسلمانوں کے بود و باش کا
باریک بینی سے جائزہ لیا اور یہ جائزہ اپنے مضموں اسلام ان چائنا میں سیدھے
سادے الفاظ میں رقم کردیا -
اس مضمون پڑھنے کے بعد تو مجھ پر حیرتوں کے کئی جہاں طلوع ہوئے اور میں
انگشت بدنداں رہ گیا - چین کی سوچ کہاں ہے اس تک تو ہمارے ہاں کوئی پہنچا
ہی نہیں - دوسری جانب اس چینی اشتراکی معاشرے میں مسلمان اپنے رویوں کی
تخلیق نو کرکے کیسے اپنی نأو آگے بڑھا رہے ہیں -یہ پڑھتا گیا اور غور و فکر
کے کئی در وا ہوتے رہے
قارئیں کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مضموں کا خلاصہ اور ترجمہ پیش کیا
جاتا ہے
ایک اندازے کے مطابق چین مین مسلمانوں کی آبادی دو کروڑ کےلگ بھگ ہے - جو
کہ برطانیہ کی آبادی کا ایک تہائی ہے -کچھ لوگوں کا کہنا ہےکہ مسلمانوں کی
آبادی دو کروڑ نہیں بلکہ دس کروڑ ہے -چین مین اسلام کی تاریخ اتنی ہی پرانی
جتنی عرب میں اسلام کی تاریخ - پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والسلم
اسلام کے وصال کےبعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی کے دور چین سے سفارتی
تعلقات قائم کئے گئے تھے -اور اسی سال یہاں مسجد کا قیام عمل میں لایا گیا
- -اور تقریبآ سو سال بعد مسلمان ان کی فوج کا حصہ بھی بنے یہ ایک حیرت کی
بات ہے کہ مسلمانون کے اپنے درمیان کسی قسم کے باہمی اختلافات نہیں ہیں -
اگر کچھ فرق بھی ہے تو وہ ان کے رہنے سہنے کے انداز -زبان - -خوراک - اور
روایات میں ہے - ہاں البتہ یہ بات ہے کہ مسلمان کو ابھی سیاسی امور میں حصہ
لینے پر کچھ دشواریان ہین جس کا سبب یہ ہے کہ چین میں اب بھی لادین افراد
کو زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے - مسلمان اپنے مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں
کے معاشرہ میں ضم ہونے کے لئے کسی اقدام سے پیچھے نہیں ہٹتے -
مسلمانوں نے چینی زبان -چینی طرز لکھائی اور دیگر ثقافتی امور پر پورا عبور
حاصل کر لیا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ ہمیشہ
دیگر گروہوں یا آبادیون سےجدا ہوجاتے جو کہ خود ان کے لئے فائیدہ مند نہیں
ہوتا-
چین میں مسلمان مساجد کی تعمیر چین کی تعمیراتی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے
کرتے ہیں مثلآ بیرونی طور پر پگوڈا ٹائپ کی چھتیں - چینی خطاطی - چینی طرز
کے محراب ٔوغیرہ لیکن اندر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اندر سے اسلامی تشخص
برقرار رکھا ہوا ہے یعنی وہی ھشت پہلو مینار - وہی عربی خطاطی -وہی مخصوص
محراب وغیرہ -ایسے علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہان کے بازاروں میں
احادیث پر مشتمل دیوارون پر لٹکانے والی تختیان اور ھینگنگ فروخت کے لئے
نظر آتی ہیں -اسی طرح چینی ثقافتی طروف اور برتن بھی نظر آتے ہیں جن پر
قرآنی آیات تحریر ہوتی ہیں -
چیں میں آبادی پر قابو پانے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہین لیکن یہ
اقدامات اور قوانیں سب پر یکساں لاگو نہین ہوتے - بلکہ صرف ان آبادیوں اور
گروپ پر لاگو ہوتے ہین جنکی آبادی زیادہ ہے مثلآ ہوئی گروپ پر یہ پابندی
عائد ہے لیکن دوسرے گروہوں کی آبادیاں جن میں افراد کی تعداد کم ہے وہاں یہ
قانون نہین نافذ کیا گیا انہیں دو بلکہ تین بچے بھی پیدا کرنے کی اجازت ہے
- جن گروہون کو یہ مراعات ملی ہیں ان میں مسلمانوں کے گروہ یا آبادیاں بھی
شامل ہیں -
اس وقت چین میں مختلف لحاظ سے آبادیوں کے پینسٹھ گروپ ہیں -ان گروپوں میں
دس گروپ ایسے ہیں جن میں مسلماں شامل ہیں - ان دس گروپوں میں ایک گروپ
Hui--OR --- Huizhou ہوئی یا ہوئی ژو گروپ ہے جو کہ ایک کروڑ کے قریب ہے -
یعنی مسلمان آبادی کا پچاس فیصد - دوسرا بڑا گروپ Ui Ghur یوئی غرکا ہے جس
میں مسلمان اکتالیس فیصد کے قریب ہیں -- ہوئی گروپ چینی بولتا ہے جبکہ باقی
ماندہ ترکی زبان -اس تجزئے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہوئی مسلمان وہ ہیں
جو ثقافتی تمدنی اور زبان دانی کے لحاظ سے اصل چینی ہیں باقی نہیں - یہ
ہوئی مسلمان مختلف صوبوں میں پھیلےہوئے ہیں یہ چینی معاشرے پر کسی قسم کا
بوجھ نہیں تھے بلکہ ماضی میں تو مملکت چیں کے تمام امور مملکت میں حصہ بھی
لیتے رہے تھے -
منگولوں کے دور میں انہیں پہلی مرتبہ ایک نیا مسئلہ درپیش آیا تھا - جب
منگولوں نے تیرھویں صدی مین چین پر قبضہ کیا تو مسلمانوں کو بیرونی قرار
دیا اور اسی سماجی حیثیت کے ساتھ رہنے کی اجازت دی - ماوزے تنگ کے بعد کے
ادوار میں ہوئی گروپ کی معاشی قوت کا اندازہ لگاتے ہوئے نئی مملکت نے انہیں
خصوصی مراعات دین -اب معاملات کا رخ بدل چکا ہے - حکومت نے ہر ایک کو اپنے
مذہب پر عمل کرنے کی کچھ آزادی دیدی ہے - |