اَب بھی مُجھے یاد ہے کہ میرے
طالبعلمی کے زمانہ میں میرا ایک کلاس فیلو بہت شرارتی ،زِدی ،لالچی اور خود
غرض ہونے کے ساتھ ساتھ تنہائی پسند بھی اِنتہا کا تھا وہ اپنے لبو لہجے و
رہن سہن سے تو بہت ذہین لگتا لیکن حقیقت میں زیرو تھا، جب ہم آٹھویں جماعت
میں داخل ہوئے تو عربی اور اسلامیات مضامین کیلئے ہمیں ایک بہت ہی قابل اور
شفیق اُستاد مِلے ،مگر اِس لڑکے کا رویہ جو اُن سے بھی مختلف ہی رہا،جب بھی
وہ اپنے مضامین پڑھانے کیلئے کلاس روم میں داخل ہوتے تو یہ لڑکا روم کے
دوسرے دروازے سے باہر بھاگ جاتا اِس کا نام پرویز تھا کُچھ دِن گُزرنے کے
بعد اِس پرویز نامی لڑکے نے کُچھ دوسرے لڑکوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگتے
ہوئے ساتھ بھگانا شروع کردیا ،جب لڑکے زیادہ غائب رہنے لگے تو ایک دِن یہ
بات ہمارے اُستاد محترم نے بڑی محسوس کی، جِس پر اُنہوں نے رجسٹر حاضری
اُٹھایا اور حاضری بولنا شروع کر دی ،جب پرویز نام بولنے کی باری آئی تو
کُچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نام بولا غیر حاضر پا کر پُوچھ گچھ کی اور اپنی
نشست سے اُٹھ گئے ،جِس پر مُجھے شک ہوا کہ شاید وہ پرویز کو بلانے کیلئے
نکلے ہوں اِس لئے میں بھی جلدی سے اپنی نشست سے اُٹھ کر اُن کے پیچھے بھاگا
اور قریب جاکر پوچھا کہ اگرآپ اِجازت دیں تو پرویز کو میں بُلالاؤں ؟میری
یہ بات سُن کر اُستاد محترم مسکرائے اور بولے کہ بیٹا میں پرویز کو بُلانے
نہیں میں تو وضو کرنے جا رہا ہوں اُن کی یہ بات سُن کر میں کلاس روم میں
واپس ٓگیا اور کُچھ دیر بعد وضو کرکے وہ بھی تشریف لے آئے ہمیں لیکچر دیا
اور چلے گئے اگلے روز اُنہوں نے روٹین ٹائم سے تقریباً 20منٹ پہلے آکر سب
سے پہلے وہ دروازہ باہر سے لاک کیا جہاں سے یہ پرویز اپنے ساتھیوں کو لئے
بھاگتا تھا اور دوسرے دروازے سے خوداندر داخل ہو گئے اُن کی آمد پر تمام تر
طُلبا احتراماًاُٹھ کھڑے ہوئے لیکن یہ لڑکا بیٹھا رہاوہ آگے بڑھے اور شفقت
سے اِس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگے کہ بیٹا اچھے بچے ایسے نہیں
کرتے اپنے اُستاد کی آواز میں یہ جملہ سنتے ہیں پرویز نے سر اُوپر اُٹھایا
اور اُنہیں دیکھ کر کانپتی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا اُستادِ محترم کے
اپنی نشست کے قریب پہنچ جانے پر سبھی طلبا کے ساتھ یہ لڑکا بھی بیٹھ گیا
اِتنے میں اُستادِ محترم بھی تشریف فرما ہوگئے وہ اکثر ہمیں بغیر کِتاب
دیکھے لیکچر دیا کرتے تھے اِس دِن بھی اِنہوں نے بغیر کِتاب کھولے ہی لیکچر
شروع کیا اور بتایا کہ ظہورِ اسلام کے وقت پرویز نامی ایک شخص یہودی قبیلے
کا سردار تھا وہ بے حد گستاخِ رسول اور اِسلام کے خاتمہ کیلئے منصوبے بندی
کرنے کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ساتھ ساتھ دنگے فسادات کروانے کا بھی بڑا
شوقین تھا۔۔۔۔۔۔۔! خیر اُن کا یہ لیکچر تو بہت لمبا تھا لیکن مختصر یہ کہ
اُنہوں نے اپنے اِس لیکچر میں ہمیں ہدایت کی کہ پرویز نام رکھنے سے اِسلام
میں منع کیا گیا ہے لہذا یہ نام ٹھیک نہیں آئندہ کوئی بھی کِسی کو اِس نام
سے نہ پکارے اور نہ ہی کوئی یہ نام رکھے اگر کِسی نے رکھا ہے تو فوراً
تبدیل کر لے کیونکہ یہ نام جب بھی میری زُبان پر آتا ہے تو مُجھے یوں لگتا
ہے جیسے میں نے کِسی کو اِنتہائی غلیظ قسم کی گالی دے دی ہو اور میرا وضو
ٹوٹ جاتا ہے اُستادِ محترم کی یہ بات سُنتے ہی پرویز نے چار دِن کی چھٹی کی
درخواست لکھی اور گھر چلا گیا جب پانچویں دِ ن واپس لوٹا تو اُس نے اپنا
نام شفیق رکھا ہوا تھا اِس دِن کے بعد اِس نے خود کو مکمل طور پر ہی تبدیل
کر لیا،لیکن آج پرویزوں کی برسات ہورہی ہے مگر لیکچر دینے والا کوئی
نہیں،پرویز نام کے لوگ ہما رے بہت سے اہم ترین اُحدوں پر فائز رہ چکے ہیں
اور اب بھی ہیں مگر اُن کے ناموں کے ساتھ کوئی نا کوئی اِسلامی نام بھی
لکھا و پکارا جاتا ہے جبکہ پرویز خٹک وہ واحد شخصیت ہیں جِن کے نام کے ساتھ
اُن کی ذات کے علاوہ کچھ نہیں لکھا و پکارا جاتا ،اِس طرح اُن کا نام صرف
اور صرف پرویز ہی لگتا ہے، جِس سے یوں لگتا ہے جیسے اسلامی تعلیمات اُن کے
قریب سے بھی نہیں گُزری ،اور اب ہماری اب کی نئی نسل میں پرویزوں کی آمدکی
سب سے بڑی وجہ امریکی پالیسی کے تحت ہمارے حکمرانوں کی جانب سے ہمیں ا
اسلامی تعلیمات سے بہت دُور دھکیل دیئے جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں ،اِس
سلسلہ میں ہمارے سابق آمر حاکم پرویز نے تو اپنے دورِحکومت میں ہماری
اندرونی پالیسی غیر ملکی اسلام و ملک دشمن قوتوں کے سامنے عیاں کرکے اُس
وقت اِنتہا ہی کر دی جب امتحانات سے کچھ ہی عرصہ قبل اسلامی مضامین میں سے
چند ایک اسلامی چیپٹر ز میں ردوبدل کی اور فیل ہونے والے طلبا کے رزلٹ
کارڈز پر فیل لکھنے کی بجائے اُنہیں ایف گریڈ دے کر پاس کرنے کے احکامات
جاری کئے تھے ،اِس کے بعد دوسرا کار نامہ یہ سرانجام دیا کہ کُچھ لو اور
کُچھ دو کی بنیاد پر ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اُن پر واضع کرتے ہوئے
ہمارے کلمہ گو بھائیوں کے خون کا سودا کر لیا جِس کے بعد غیر ملکی اسلام
دشمن طاقتوں کی ہمارے پاک وطن آمد پر کِسی بھی قسم کوئی روک ٹوک نہ رہی اور
وہ ڈرون حملوں کے ذریعے ہمارے پاک سر زمین کو ہمارے ہی خون سے لال کرنے لگے
اِس دوران وہ ہمارے حساس اداروں کے لوگوں کے ساتھ مِل جُل کر رہتے ہوئے
ہمارے رہن سہن و اسلام سے مکمل آشناہو گئے اور ہماری مذہبی تنظیموں تک
رسائی حاصل کر کے اُن کو اپنے کنٹرول میں کر لیا پھر ایسے خود کش دھماکے
شروع ہوئے کہ اِنہیں روکنے کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا ہمارے خون سے جتنی
ہماری زمین لال ہوتی اُسی ہی کے حساب سے دہشت گردی کے خاتمہ میں امریکی
امداد کے نام پر ڈالر گِرتے ،کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے وہ سودا تو
پورے کے پورے ملک کا ہی کر سکتا تھا لیکن ہم شاید اِس لئے محفوظ رہے کہ اُن
کے نام کے ساتھ مشرف بھی آتا تھا جوجاتے جاتے محترمہ بے نظیر شہد جیسی عظیم
قائد سے ہمیں محروم کر گیاجِس کے نتیجہ میں ہم ایک ایسی ہستی کے چنگل میں
پھنس گئے کہ جِس نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ہمارے منہ کا نوالہ
بھی چھین لیا جب اِس طرح جب ہمارے اعمال کی سزا ہم پر مکمل ہوگئی اوربھوک
پیاس کے ماروں کی ہماری جان لبوں پہ آگئی تو تب جا کے ہمیں ایک امن پسند
اندرونی و بیرونی طاقتوں کی چالوں سے بخوبی واقف محبِ وطن پاکستانی شہری
حاکم نصیب ہوا جس کی وفاق میں آمد پر امریکہ و بھارت نے بظاہر تو خوش آمدید
کہا مگر اندر سے جل کر راکھ ہوگئے اور اب اِسکے داخلہ و خارجہ پالیسی کو
تھوڑا کنٹرول کرتے ہوئے قیام امن کو کسی حد تک ممکن بناتے ہی بھارت نے بو
کھلاہٹ کا شکار ہو کر کنٹرول لائن پر شرارتیں شروع کر دی ہیں دوسری طرف
اسلام آباد میں اسلم نامی شخص دہشت گردی بھی اسی ہی سلسلہ کی ایک کڑی ہے
خٹک جی اس دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں اپنا نام بنانا چاہتے ہیں تو
اِنہیں بھی زمرد خان جیسی بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا عورتوں کی طرح گھر
بیٹھ کر وزیر اعظم سے خط و کِتابت کرنا دہشت گردی کا حل نہیں لیکن ایسا وہ
کر نہیں سکتے کیونکہ اُن کا نام صرف پرویز ہے اور موجودہ مسائل بھی پرویز
کا دیا ہوا ہی ایک تحفہ ہیں خیر پرویزوں سے متعلق مزید پھر کبھی سہی کیونکہ
تحریر پہلے کافی لمبی ہو چکی ہے اِس لئے آج کیلئے اِتنا ہی آپ شام 6کے بعد
میرے موبائل نمبر 03143663818پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں(فی ایمان ِﷲ) ۔ |