گذشتہ روز اسلام آباد میں جو
ڈرامہ دیکھا گیا اور جس طرح اس کا ڈراپ سین ہوا، اس نے صرف پاکستان کے عوام
کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو ششدر کرکے رکھ دیاایک شخص ہاتھوں میں دو گنیں
اٹھائے، اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ پوری اسلام آباد پولیس کو پوری ضلعی
انتظامیہ کو نچاتا رہا اور ایک ایسے علاقے میں یہ سب ڈرامہ ہوا جہاں پر
سیکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی ہے جسے عام زبان میں ریڈ زون کہا جاتا ہے اسلام
آباد کا ایسا علاقہ ہے جہاں سکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی ہے قرب و جوار میں
پارلیمنٹ ہاوس، سپریم کورٹ، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاوس اور دوسری کئی
اہم اور حساس جگہیں واقع ہیں اور حقیقتاً وہاں سکیورٹی ہائی الرٹ ہونی بھی
چاہئے اور چونکہ پورے ملک کے تمام اداروں کا کام صرف ان کو تحفظ فراہم کرنا
ہوتا ہے اس لئے وہاں ہر وقت سخت پہرا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
ناکے ہوا کرتے ہیں-
پندرہ اگست کی شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اس ہائی الرٹ کے علاقے میں سکندر
نامی ایک شخص دونوں ہاتھوں میں اسلحہ لے کر نمودار ہوتا ہے اور سڑک کنارے
اپنی گاڑی کھڑی کرکے ہوائی فائرنگ کرتا ہے پولیس اور دیگر اداروں کی طرف سے
گھیرے میں آجانے کے باوجود اس کا اور اس کی بیوی کا حوصلہ دیدنی تھا وہ
آرام سے دونوں گنیں ہاتھ میں لئے چوکس اہلکاروں کو دیکھ رہا تھا، اس کے
دونوں بچے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر موجود تھے جبکہ اس کی بیوی پیغام رساں کا
کام خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے تھی کیا سکند واقعی ذہنی مریض ہے یا اس
ساری کارروائی کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما تھے؟ اس کا نتیجہ تو تفتیش
کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے اس کے بہت
سے پہلو ہمارے سامنے ہیں پہلی بات یہ کہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی
کا پول بیچ چوراہے میں کھل چکا ہے اور ان کے حفاظتی انتظامات کی قلعی کھل
چکی ہے کوئی بھی شخص کسی بھی وجہ سے اسلحہ لے کر اسلام آباد جیسے شہر میں
ساڑھے پانچ گھنٹوں تک پوری انتظامیہ حکومت اور اس کے اداروں اور قوم کو
یرغمال بنائے رکھتا ہے اسلام آباد پولیس کے وہ سنائپرز کہاں گئے جو کوسوں
دور سے اڑتی ہوئی فاختہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟پوری قوم نے ٹی
وی کی سکرینوں پر لائیو دیکھا کہ اس ساڑھے پانچ گھنٹے میں بہت سے مواقع
ایسے تھے جن ’’سکندر‘‘ اپنی گاڑی سے دور بھی تھا اور ظاہر ہے ایک انسان
ہونے کے ناطے چاروں اطراف اس کی توجہ بھی نہیں تھی ایسے مواقع پر اس کے
زیریں جسم کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا ’’بوجوہ‘‘ ایسا نہیں کیا گیا، ایسا
کیوں نہیں ہوا؟ کیا ہمارے پاس یہ مہارت ہی نہیں یا کوئی دیگر عوامل کارفرما
تھے؟ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کے جوابات بہرحال حاصل کرنے ہوں گے اب بات
ہو جائے میڈیا کوریج کی تو رات لوگوں نے دیکھا کہ کوئی بھی ٹی وی چینل ایسا
نہیں تھا جو اس ڈرامے کی کوریج نہ کر رہا ہو اور شاید عوام میں بھی کوئی
بھی ایسا نہیں تھا جو اسی ڈرامے کے بارے میں پوچھ نہ رہا ہو شاید لوگوں کو
اس سے اچھی انٹر ٹینمنٹ حکومتی اداروں اور خاص طور پر اسلام آباد پولیس اور
انتظامیہ کی جانب سے مل ہی نہیں سکتی تھی اسی وجہ سے جو ڈرامہ فری میں
دیکھایا جا رہا تھا جس کی ریکارڈ ریٹنگ دیکھنے میں نظر آئی اور لوگ جوک در
جوق اس کو دیکھنے کے لئے آئے اور جو نہیں آ سکتے تھے انھوں نے اپنی ٹیلی
وژن سکریوں پر اسے خوب مزے لے لے کر دیکھا میڈیا کی کوریج کی وجہ سے جو
دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی اس کے بارے میں کسی ادارے نے نہیں سوچا کہ کیا ہم
اتنے نااہل ہو گئے ہیں کہ ایک شخص ہماری فورسس کو گھنٹوں چکروں میں ڈالے
رکھے اور ہم ایٹمی ملک ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے جفا کش سیکیورٹی رکھنے
کے باوجود اس کے آگے بے بسی کی تصویر بنے رہیں اس سے کیا سبق گیا ہو گا
بیرونی دنیا میں کہ کیا بحثیت قوم ہم اتنے نااہل ہیں کہ اپنی ریڈ زون کی
حفاظت بھی نہیں کر سکتے سب سے اہم بات کہ جتنے لوگوں نے یہ ڈرامہ پاکستان
میں دیکھا اس سے زیادہ ان لوگوں نے دیکھا جو روز گار کے سلسلے میں پاکستان
سے باہر ہیں اور وہ اس لحاظ سے فکر مند بھی ہم سے زیادہ تھے کہ یہ سب کچھ
کیا ہو رہا ہے -
اور آخر کار وہ کام جو ہماری پولیس کو کرنا چاہے تھا زمرد خان نے کر دیا جن
کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے زمرد خان تو پوری قوم کا مشترکہ ہیرو نہیں بن
سکتاکیونکہ اس کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور اس وقت اکثریت پیپلز پارٹی کی
نہیں بلکہ نون لیگ کی ہے لیکن ’’سکندر‘‘ کا تعلق تو کسی جماعت سے نہیں،
زمرد خان کی بہادری کو سراہا جائے یا تنقید کا نشانہ بنایا جائے اس کے بارے
میں ہر شخص کا اپنا اپنا ویو ہے لیکن ایک بات کی داد دینی پڑے گی کہ زمرد
خان نے بہادری ضرور دیکھائی ورنہ کو تو ایسے مذاکرات نبیل گبول اور ہمارے
ایس ایس پی صاحب نے بھی کیے تھے مگر ان کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس کو دبوچ
سکیں حالانکہ وہ ایسا کر سکتے تھے -
ضرروت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی اداروں کو مضبوط اور منظم بنایا جائے اور
فائلوں سے نکل کر عملی طور پر سیکیورٹی فورسسز کو منظم کیا جائے تاکہ ایسے
واقعات کا سد باب کیا جا سکے اس سلسلے میں وزارت داخلہ کو اپنا کردار ادا
کرنے کی سخت ضرورت ہے اورپولیس فورس کو انتہائی جدید خطوط پر استوار کرنے
کے ساتھ ساتھ ان کی از سر نو تعمیر کی جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام
کو ممکن بنایا جا سکے ۔ |