اگست میں ہم نے ماہِ صیام کوالوداع کہا ، شکرانے کی عید منائی اور یومِ آزادی قومی
’’جوش وجذبے‘‘ کے ساتھ منایا ۔ماہِ صیام اُمتِ محمدیہﷺ کے لیے ربّ ِ لم یزل کا لا
زوال تحفہ ہے جسے رحمٰن ورحیم نے خالصتاََاپنی ذات سے منسوب کرکے اِس کا اجر دینے
کا وعدہ فرمایا لیکن ہم نے ماہِ صیام کا اجر سمیٹنے کی بجائے اسے بھی نمود و نمائش
کے لیے مخصوس کر دیا ۔ اپنی انتہاؤں کو چھوتی مہنگائی میں صاحبِ ثروت لوگ مفلس و
نادار لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے اپنے ہی طبقے میں افطاریوں کی ’’ریوڑیاں‘‘ بانٹتے
رہے۔ عید آئی تو مہنگائی نے آسمان کی رفعتوں کو چھو لیااورسگ ہائے دُنیا نے ماہِ
صیام کی رہی سہی کسر عید پر نکال دی۔ جنابِ خادمِ اعلیٰ سے بصد ادب یہ سوال تو کیا
ہی جا سکتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی تو کئی وجوہات ہو ں گی لیکن آلو ، مٹر ، گوبھی ،
گاجر ،کھیرا اور ٹماٹر ’’شیڈنگ‘‘ کی کیا وجوہات ہیں؟۔ فروٹ کا بھاؤ پوچھنے پرچونکہ
اختلاجِ قلب کا خدشہ رہتا ہے اس لیے ’’مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے‘‘۔
عید کے بعد 14 اگست کا ہلّا گُلّا شروع ہوا اور ہم نے حسبِ سابق ’’دھوم دھڑکے‘‘ سے
یہ دن منا کر دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ’’ہم زندہ قوم ہیں ۔۔۔پائندہ قوم ہیں‘‘ ۔زندہ
قوموں کے اپنے ’’پلّے ‘‘کچھ ہو نہ ہو لیکن وہ اپنے قومی اور مذہبی تہواروں پر ’’موجیں‘‘
ضرور کرتی ہیں ۔ہم نے بھی اپنی آزادی پر خوب موجیں اُڑائیں ۔کچھ بد باطن اسے ’’مادر
پدر آزادی‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں لیکن کوئی اُن سے پوچھے کہ اگرہَلّا گُلّا اور
دھوم دھڑکا بھی نہ کریں تو پھر دُنیا کو کیسے پتہ چلے کہ ہم بھی آزادہو گئے ہیں۔ ہم
نے مرکزی دار الحکومت میں 15 اگست کی ڈھلتی شام کو اپنی آزادی کا بینظیر مظاہرہ
کرکے دُنیا کو حیران کر دیا۔ ہوا یوں کہ سکندر نامی ایک بد بخت نے اکیلے ہی اسلام
آباد کو مفلوج کرنے کی کوش کی لیکن ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتہائی
پھُرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ’’پانچ گھنٹوں ــ‘‘کے اندر قومی رہنما زمرد خاں کی
مدد سے اُس پر قابو پا لیا ۔پولیس اور رینجرز کی کثیر تعداد تو وہاں موجود تھی ہی ،
شنید ہے کہ فوجی جوان بھی ’’سٹینڈ بائی‘‘ تھے لیکن پیپلز پارٹی کے زمرد خاں
’’خوامخواہ ‘‘ رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے دہشت گرد پر جھپٹ پڑے جس پرسارا کریڈٹ وہ لے
گئے اور باقی سب مُنہ دیکھتے رہ گئے۔خادمِ اعلیٰ نے تو زمرد خاں کی جرأت کی تحسین
کی لیکن رانا ثناء اﷲ کہتے ہیں کہ زمرد خاں نے جرأت نہیں ، حماقت کی ۔اپنے یہ رانا
ثناء اﷲ بھی خوب ہیں۔جب سے راجہ ریاض اسمبلی سے ’’آؤٹ ‘‘ ہوئے ہیں رانا صاحب کا جی
ہی نہیں لگتا۔شاید اِسی لیے بوکھلائے ہوئے رانا صاحب کی ’’بونگیوں‘‘ سے خود نواز
لیگ بیزاری کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ہمارے ایک ’’خبرناکیئے‘‘ اینکر صاحب بھی فرماتے
ہیں کہ زمرد خاں کو ’’تمغۂ شجاعت ‘‘کی بجائے ’’تمغۂ بیوقوفی‘‘ دینا چاہیے۔اُن کے
نزدیک یہ فنِ پہلوانی کا نہایت مخولیہ اور بھونڈا مظاہرہ تھا۔ بجا ارشادلیکن اینکر
موصوف اپنے ’’بھانڈوں‘‘کے ذریعے قومی اخلاق کو جِن ’’بلندیوں‘‘ تک پہنچانے کی تگ و
دو کر رہے ہیں اُس سے بھی سبھی آگاہ ہیں۔اُن کی اِن کاوشوں پر اُنہیں بھی کوئی تمغہ
ضرور ملنا چاہیے ۔میرے خیال میں اِس تمغے کا نام اگر ’’تمغۂ حُسنِ بدتمیزی‘‘ رکھ
دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اُن کی ’’خدمتِ خبرناک ‘‘ میں عرض ہے کہ
کُند ہم جِنس ، باہم جِنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
یہ تو اپنے اپنے ظرف کی بات ہے ،کوئی شاہین کی سی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو کسی
کو کبوتر بننے میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔ 14اگست کو قومی جذبہ دیکھ کر مَن موہن
جی کو بھی جوش آ گیا اور اُنہوں نے مذاکرات کا عندیہ دیتے دیتے دھمکی ہی دے ڈالی
لیکن اِس دھمکی کا مزہ نہیں آیا۔بھولی بھالی صورت والے مَن موہن جی جب اپنی ’’نیم
زنانہ، نیم مردانہ‘‘ آواز میں دھمکیاں دے رہے تھے تو ہماری ہنسی چھوٹ رہی تھی
کیونکہ حکومتِ ہند سمیت سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے میزائل ہندوستان کے ایک ایک انچ کو
ایسے صحراؤں میں بدل سکتے ہیں جہاں صدیوں تک گھاس بھی نہ اُگے اور معلوم تاریخ تو
یہی بتلاتی ہے کہ’’ لالہ‘‘ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتا۔ ہمسایہ چونکہ’’ماں
جایا‘‘بھی ہوتا ہے اِسی لیے ہم تو اِس بات کے قائل ہیں کہ اگر انڈین آرمی سرحدوں پر
پیار بھری چھیڑ چھاڑ کرے بھی تو اُس کو اپنے میزائلوں سے ’’یَرکانے‘‘ کی بجائے
’’امن کی آشا‘‘ کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے ۔ایسا کرنے سے ’’بڑا بھائی‘‘
بھی خوش ہو جائے گا اور ہمارے پاکستانی سیکولر دوستوں کے سینوں میں بھی ’’ٹھنڈ‘‘ پڑ
جائے گی ۔رہی انڈین جارحیت کی بات تو ، مجھے تو کہیں نظر نہیں آتی ۔سر کریک ، سیاچن
اور کشمیر تو قصۂ پارینہ بن چکے اِس لیے اُن پر بات کرکے ہم نہ صرف اپنے زخموں پر
نمک پاشی کرتے ہیں بلکہ بڑے بھائی کو بھی چڑاتے رہتے ہیں ۔البتہ پانی کا مسلہ ذرا
تازہ ہے لیکن اب تو بڑے بھائی نے کمال مہربانی کا ثبوت دیتے ہوئے ہمارے دریاؤں میں
اتنا پانی چھوڑ دیا ہے کہ ہم سب ’’پانی پانی‘‘ ہو گئے ہیں۔اگر ہم ہی اِس کو سنبھال
نہیں پائے تو بیچارے بڑے بھائی کو موردِ الزام ٹھہرانا کہاں کا انصاف ہے؟۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ ایک طرف تو ہم ہندوستان کے ’’گنگا دھلے‘‘ تہذیب و تمدن اور
ثقافت و معاشرت کے شیدائی ہیں جب کہ دوسری طرف لال قلعے پہ جھنڈا لہرانے کے لیے
مستعد رہتے ہیں۔ذرا سوچیں کہ ’’ سٹار پلس کلرزاور سونی‘‘ کے بغیرزندگی کتنی سُونی
سُونی اور بے کیف ہو جائے گی۔ایسے ٹی وی کو تواُٹھا کر سڑک پر پھینک دینا چاہیے جِس
میں ہمارے مذکورہ محبوب انٹر ٹینمنٹ چینلز نہ ہوں ۔اسی طرح سے اگر شادی بیاہ کی
رسومات میں سے ہندوانہ ثقافت کو نکال دیا جائے تو باقی ’’گھاس پھوس‘‘ ہی رہ جائے
گا۔اگر کسی شادی میں مایوں ، مہندی اور بارات کا ہلّا گلّا نہ ہو تو اُسے شادی کون
کہے گا؟۔کیا مزہ اُس شادی کا جس میں مہندی پر لڑکیاں ، لڑکے اکٹھے ڈانس نہ کریں اور
بارات میں نوجوان ڈھول کی تھاپ پر وحشیانہ انداز میں رقص نہ کریں۔اگر ہم منافقت
چھوڑ کر صرف اسلامی تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھ لیں تو پھرسرحد پار کی رسومات کی
سرے سے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں بچتی۔دیانت داری سے فیصلہ کیجئے کہ کتنے ہونگے جو
اِن رسومات کو تَرک کرنے پر آمادہ ہونگے؟۔اگریہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ
ہو تو پھر شکریہ ادا کیجئے اپنے بڑے بھائی کا جس نے ہماری زندگی میں ہلچل کا سامان
پیدا کر دیا ۔ |