افغانستان کے انتخابی مستقبل میں پاکستانی کردار․․․

ضروری نہیں کہ ہر افغان پشتون اور ہر پشتون افغان ہو، مثلاافغانستان میں رہنے والی ہر قوم افغان ہے خواہ وہ پشتون نہ ہو ،مثلا تاجک ، ترکمن ، ہزارہ ، بلوچ وغیرہ،اس کے برعکس ہر پشتون افغان نہیں ہوتا۔ مثلا پاکستان ، ایران ، بنگلہ دیش اور دنیا کے دیگر ممالک کے پشتون جو عرصہ دراز سے اُن ممالک کی شہریت رکھتے ہیں۔یا وہ پشتون جو ان علاقوں میں جو معائدہ گندمک1879ء کے تحت افغانستا ن سے کٹ گئے ہیں یا وہ افغانی مقبوضات جن پر غیرپشتون قابض ہیں یعنی جموں و کشمیر ، مشرقی پنجاب ، مشہد ، اصفہان ،سیستان اور کرمان وغیرہ منددجہ بالا تمام علاقوں اور ممالک کے مستقل پشتون باشندے افغانستان کے رہنے والے پشتونوں سے کہیں زیادہ ہیں۔اس کے برعکس افغانستان میں رہنے والے مستقل پشتون قبائل بیک وقت نہ صرف پشتون بلکہ افغان بھی کہلائے جاتے ہیں۔اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا ہر اُس ملک کے شہری اور فوجی کا فرض ہے جس کی وہ عوام ہے۔عراق اور افغانستان میں بیرونی عناصر خصوصا امریکہ یا اُن فوجیوں کے خلاف جو بیرونی طاقتوں کے حاشیہ بردار ہیں ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے ، آج بھی افغانستان میں عسکری جدوجہد جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک صحیح معنوں میں افغانستان آزاد نہیں ہوجاتا۔طالبان کی خلافت کے بعد22دسمبر2001ء امریکہ نے شجاع پاشا یعنی حامد کرزئی کو افغانستان کا کٹھ پتلی حکمران بنا ڈالا ، حسن اتفاق دیکھئے حامد کرزئی بھی شاہ شجاع غدار ، ننگ ِ افغان کا ہم قبیلہ ہے۔ستمبر2004تک حامد کرزئی کو جوں توں کرکے چند ابن الوقت کاسہ لیسوں کے علاوہ افغانستان کے ڈھائی کروڑ حریت پسندوں اور غیور افغانوں کے سر پر مسلط رکھا ۔پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے انتخابات کا ڈھونگ رچایا، افغانستان ایسی سر زمین ہے جہاں اس سے قبل انتخابات نہیں ہوئے تھے اور وہ موجودہ جمہوری نظام سے نا آشنا تھے ، یہاں بذریعہ ووٹ کسی کا انتخاب ایسا ہی ہے جیسے امریکہ یا برطانیہ میں افغانستان کی طرح لوئے جرگہ منعقد کرا کر حکمران منتخب کرادیا جائے۔انتخابی عمل سے نا آشنا حقیقت پسند اور کھرے افغان آزادنہ اور کھلم کھلا بادشاہ یا سربراہ منتخب کرتے رہے ہیں۔افغانستان کے گزشتہ انتخابات میں جس طور دھاندلی کی گئی اس نے یہ آشکارہ کردیا تھا کہ افغان عوام مغرب کی ایجاد کردہ جمہوریت سے نا واقف ہیں۔20اگست 2009ء دوبارہ انتخابات میں ناقابل بیان دھاندلی ہوئی ، سرکاری طور پر حامد کرزئی 65فیصد ووٹوں سے کامیاب قرار دئیے گئے تھے۔کئی مد مقابل امیدواروں میں تاجک نژاد ڈاکٹر عبداﷲ اور اشرف غنی احمد زئی نے احتجاج کیا اقوام متحدہ نے تحقیقات کیں تو ثابت ہوا کہ حامد کرزئی نے پچاس فیصد سے کم ووٹ حاصل کئے تھے۔لیکن امریکہ نے اپنے پرانے کاسہ لیس کو مسلط کرنا تھا ۔سوکردیا۔مووزں ترین امیدوار ڈاکٹر عبداﷲ اگر اقتدار میں آجاتا تو افغانستان کے ساٹھ فیصد پشتون اور طالبان کی شدید مخالفت کے سبب زہادہ عرصہ ٹھہر نہیں سکتا تھا جس کی وجہ یہ بھی تھی کہ تاجک نژاد کمانڈر احمد شاہ مسعود کی ہلاکت کے بعد شمالی اتحاد نے رشید دوستم ازبک اور اپنے حامیوں کے ساتھ ملکر امریکہ کی ہم رکابی میں طالبان کے خلاف لشکر کشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔امریکہ بظاہر افغانستان سے نکلنا چاہ رہا ہے لیکن ملک کے آئندہ انتخابات ہی فیصلہ کریں گے کہ کیا افغانی انتخابی عمل پر اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ جب پاکستان جیسے ملک میں کبھی انتخابات منصفانہ اور شفاف نہیں ہوسکے اور بیرونی طاقتوں کی کٹھ پتلی حکومتیں آتی جاتی رہیں تو بین الاقوامی سازشوں کامرکز افغانستان ،بھلا شفاف انتخابات کا متحمل کس طرح ہوسکتا ہے۔امریکہ اور نیٹو کی 46ممالک کی فوجیں اس غلط فہمی میں رہیں کہ دو ماہ میں مکمل طور پرطالبان کا صفایا کردیا جائے گا ، لیکن یہ ان کی خام خیالی رہی اور بارہ سال بعد بھی مکمل کامیابی ان کے حصے میں نہیں آسکی اور اپنے اہداف کو حاصل کئے بغیر انھیں افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان میں اپنے لئے واپسی کے لئے محفوظ راستے کیلئے بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔افغان امریکی جنگ کے بعد پُر امید تھے اب شائد بہتری کے آثار پیدا ہوں لیکن حامد کرزئی اور اس کے دست راست مارشل فہیم ، بھائی احمد ولی بد عنوا ن ، خائن راشی اور نااہل نکلے اور کابل میں امن قائم کرنے میں ناکام رہے بلکہ حالات کو مزید خراب کرنے میں بیشتر کابینہ اور 34صوبوں کے گورنروں نے افغان عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ان کا نام دنیا کے سب سے بڑے منشیات فروشوں کی فہرست اول میں آگیا اور امریکہ کی جانب سے بدترین بمباریوں کی وجہ سے افغان عوام میں نفرت کا لاوا شدت کیساتھ امریکہ اور امریکہ نوازوں کیلئے ابھرا۔امریکی مفادات پورے نہیں ہورہے اور غیر جانب دار مبصرین سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے 2014ء کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر حامد کرزئی جیسے کسی دوسرے پٹھو کو لا کر افغانستان کی پالیسوں پر اثر انداز ہونے کی روش قائم رکھی جائے گی۔روس کے انخلا کے بعد 28اپریل1992ء کو صبغت اﷲ مجددی کو قائم مقام صدر بنایا گیا تھا ، اُس وقت کے وزیر اعظم مجددی کی دل جوئی اور مدد کی یقین دہانی کیلئے کابل پہنچے تھے ۔ افغان گوریلا جنگ میں ان کی جماعت اخوان المسلمین نے بھر پور حصہ لیا تھا وہ صرف دو ماہ تک نگران حکمران رہا۔28 جون1992ء کو برہان الدین ربانی کو صدر اور این حکمت یار کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔جن کاتعلق تاجک قوم سے تھا۔وزیر دفاع، احمد شاہ مسعود کو بنایا جن کی زمانہ طالب علمی سے ہی این حکمت یار سے سخت ان بن چلی آ رہی تھی۔ان دونوں نے کابل یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ان کے ساتھ ہی کمانڈر ازبک ملیشا رشید دوستم بھی اسی شعبے میں پڑھتے رہے اور اس کے تعلقات بھی حکمت یار سے کشیدہ تھے رشید دوستم کو ربانی نے کابل میں اپنے ہی دستے کا جنرل بنا دیا تھا۔خود ربانی کے تاجک ہونے اور صدر بن کر حکمت یار پر اولیت حاصل کرنے کی بنا ء پر حکمت یار کو ربانی ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ، جس کا لازمی نتیجہ خانہ جنگی کی صورت نمیں نکلا اور ربانی کا تمام دور حکومت خانہ جنگیوں اور کشت و خون کی نذر ہوگیا۔جس کے بعد طالبا ن نے رہی سہی کسر پوری کردی اور ملا عمر کی قیادت میں26ستمبر1996ء کو کابل پر طالبان کا قبضہ ہوگیا۔جو20اکتوبر2001ء تک جاری رہا۔ملا محمد عمر اور حکمت یار غلزئی پشتون ہیں اور غلزئیوں کی حکمرانی نہ کل قبول کی گئی اور آیندہ بھی یہی توقع ہے کہ جس طرح 2001ء سے امریکہ کیساتھ شانہ بہ شانہ لڑ کر اپنی تین سو سالہ تاریخ کو غلزئی قبیلے کے مخالف دوہرا رہے ہیں ۔ اس سے خدشات یہی ہیں کہ حامد کرزئی جو پوپلزئی درانیوں کی باقیات سے ہے وہ امریکہ کے بادل نخواستہ جانے کے بعد افغانستان میں امن و سکون نہیں رہنے دے گا۔ اس کے ساتھ تاجک و ازبک بھی ماضی کی طرح افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے اپنی ریشہ دیوانیوں سے باز نہیں آئیں گے۔افغانستان کی جانب سے متواتر پاکستان پر الزامات ، در اندازی اور گولہ باری کی اشتعال انگیز مستقبل کے افغانستان کے عزائم ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکہ پاکستا ن اور افغانستان کے سرحدوں میں بے یقینی اور عدم استحکام چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے فوجی جنرل یا صدر پاکستان پر براہ راست الزامات لگانے سے نہیں چوکتے اور در اندازوں کے پاکستان میں داخلے کیلئے موثر اقدامات کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔افغانستان کا جو بھی مستقبل ہو ، تمام اسٹیک ہولڈر تسلیم کرچکے ہیں کہ افغانستان کا امن ، پاکستان کے امن سے وابستہ ہے اور اگر پاکستان غیر مستحکم رہا تو افغانستان بھی عدم استحکام کا شکار رہے گا اور اس کا نقصان امریکہ کو بھی ہوتا رہے گا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 659046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.