سیکورٹی پالیسی وحفاظتی اقدامات

ایک طرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک مخبوط الحواس شخص سکندر نے نہ صرف سیکورٹی فورسز بلکہ پورے ملک کے عوام کو بھی ٹی وی سکرین کے زریعے پانچ گھنٹے سے ذیادہ یرغمال کرکے براہ راست یا لائیو ڈرامہ دکھایا۔۔۔تو دوسری طرف ملک کے دیگر حصوں میں بھی سیکورٹی پالیسی و اقدامات کسی ڈرامے سے کم نہیں۔۔۔

اس تحریر میں راقم اپنے علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار شہر میں سیکورٹی اقدامات کی آڑ میں عوام کو درپیش مشکلات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرکے فیصلہ قارئین اور حکام پر چھوڑے گا کہ کیا یہ سیکورٹی اقدامات ہیں یا عوام کو زہنی ازیت و ٹارچر کا شکار کرکے عوام اور سیکورٹی فورسز میں فاصلے بڑھا کر نفرت بڑھانا ہے۔۔۔

پاراچنار شہر میں رمضان کے مقدس مہینے میں افطاری سے قبل یکے بعد دیگرے ہونے والے دھماکوں قیامت صغری سے جہاں معصوم بچوں سمیت ساٹھ افراد لقمئہ اجل ہوئے تو سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے جن میں سے کچھ اب بھی پاراچنار اور پشاور کے ہسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش سے دوچار جبکہ بعض زندگی بھر کے لئے اپاہج و معذور ہو چکے ہیں،،،یہاں یہ امر یاد رہے کہ پاراچنار شہر کی سیکورٹی چار سال تک مقامی طوری بنگش رضاکاروں کے ہاتھ میں تھی تو کوئی دھماکہ نہیں ہوا اور چار سال تک عوام اور حکام پولٹیکل انتظامیہ و سیکورٹی فورسز سب ہی امن و امان کے ساتھ محفوظ تھے۔ لیکن گزشتہ ایک سال سے جب پاراچنار شہر کی سیکورٹی سیکورٹی فورسز نے سنبھال کر شہر کے ارد گرد درجنوں چیک پوسٹس و ناکے قائم کئیے ہیں،،پاراچنار شہر میں کئی دھماکے ہو چکے ہیں جن میں سے بعض کو دھماکہ خیز مواد اور بعض دھماکوں کو خودکش قرار دے کر تین سو سے زائد نہتے عوام لقمئہ اجل اور ہزاروں زخمی و معزور ہو چکے ہیں ،،،جو یقینا لمحئہ فکریہ اور عوام کی نظروں میں شکوک و شبہات کو تقویت دی جا رہی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اب ایک ایسا ملک بن گیا ہے جہاں حادثات اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے موثر و دیرپا منصوبہ بندی اور پیشگی اقدامات کرنے کی بجائے حادثات اور دہشت گردی کے واقعات کے فورا بعد یا پھر چند دنوں و ہفتوں تک عقل سے عاری ڈرامائی اقدامات کئیے جاتے ہیں اور پھر ایک نئے حادثے کے بعد اس سیکورٹی پلان کو دوبارہ تبدیل کیا جاتا ہے۔۔۔ پاراچنار شہر میں حالیہ یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں ایک دھماکہ موٹر سائیکل پر کیا گیا ۔۔۔اسلئے اب بیچارے موٹر سائیکل والوں کی شامت آئی ہے۔۔۔پاراچنار شہر کے ادرد گرد موجود سیکورٹی فورسز اور پولٹیکل انتظامیہ کے اہلکاروں کے چیک پوسٹس پر کمانڈنٹ اور پولٹیکل ایجنٹ کے حکم سے باقی تمام گاڑیوں کو تو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے چاہے وہ گاڑیاں کسٹم پیڈ ہو یا قریبی افغان سرحد سے آنے والے نان کسٹم پیڈ ہو ان کو اجازت ہے لیکن موٹر سائیکل والوں کی شامت آئی ہے جنہیں شہر میں داخلے کی اجازت نہیں حالانکہ موٹر سائیکل متوسط طبقے اور اکثر سرکاری و پرائیوٹ ملازمین کی سواری ہے۔۔۔لیکن پاراچنار میں اب یہ سواری عوام کے لئے شجر ممنوعہ بن چکی ہے۔۔۔عقل کا تقاضا اور پاکستان کے بعض دیگر شہروں میں رائج سیکورٹی پلان کے مطابق یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ چیک پوسٹس پر تمام گاڑیوں بشمول موٹر سائیکل کی آچھی طرح تلاشی لی جائے اگر کسی گاڑی یا موٹر سائیکل میں بارود یا دہشت گرد ہیں ان کی روک تھام کرکے سیکورٹی چیک پوسٹ پر ہی دہشت گردوں کو گرفتار اور گاڑی و موٹر سائیکل کو ضبط کیا جائے یا پھر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر کچھ عرصے کے لئے پابندی لگائی جائی۔۔۔لیکن یہ انوکھا فیصلہ صرف پاراچنار ہی میں ہے کہ موٹر سائیکل پر ہی پابندی لگادی گئی ہے۔۔۔یہ فیصلہ بھی کسی ڈرامے یا لطیفے سے کم نہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو کسی نے کہا کہ غربت کا خاتمہ کیا جائے تو اس کے ایک نکمے وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اعلان کرکے تمام غریبوں کو اکٹھا کرکے ان سب کو ہلاک یا ختم کیا جائے اس طرح سے غربت ختم ہو جائے گی،۔۔۔پاراچنار شہر میں موٹر سائیکل کی سواری سے وابستہ سینکڑوں غریب و متوسط افرد کا یہی حال ہے۔۔۔مذید اس بات سے اس امر اور عوامی رائے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ہمارے ملک میں سیکورٹی پالیسی و اقدامات کے ذمہ دار افراد کی عقل شاید ٹخنوں میں ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ مٹھی بھر دہشت گرد ان اداروں کو اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں یا پھر یہ سب کھیل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اپنے ہی عوام کو زہنی ازیت تشدد اور سیکورٹی ناکوں پر عوام کو حراساں کرنے کا ڈرامہ ہے۔۔۔۔۔خدانخواستہ اگر کل پاراچنار شہر میں دہشت گرد کسی پرآسائش کرولا یا دوسرے پر آسائش گاڑی میں دھماکہ کردیں جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہو چکا ہے تو پھر موٹر سائیکل کی بجائے پاراچنار شہر میں گاڑی کے داخلے پر پابندی لگا دی جائے گی۔۔۔۔۔اس سے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس ملک کی سیکورٹی پالیسی سیکورٹی ادارے نہیں بلکہ دھماکے کرنے والے دہشت گرد چلا رہے ہیں کیونکہ ہر حادثے کی نوعیت کے مطابق ہی سیکورٹی پالیسی تبدیل ہوتی ہے اور دہشت گرد نت نئے طریقے استعمال کرکے حکام اور سیکورٹی اداروں کو الو بناتے ہیں۔۔۔اگر یہی منطق ہے تو پھر دہشت گرد کبھی گاڑی کبھی کسی ڈاکٹر کے روپ میں یا پھر کسی داڑھی والے یا پھر کلین شیو یا کسی ملا کے دستار و ٹوپی کا روپ دھارے یا اکثر اوقات پولیس ایف سی و آرمی کی وردی پہنے دہشت گردی کے وارادات کرتے ہیں ۔۔۔۔اسلئے پھر موٹر سائیکل پر پابندی کی طرح ان طبقات گاڑی ،ڈاکٹر ،داڑھی والے ،کلین شیو ،ملا کے دستار و ٹوپی کا روپ دھارے یا اکثر اوقات پولیس ایف سی و آرمی کی وردی پہنے ان سب لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے اور یوں ۔۔۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔۔۔۔۔۔دہشت گردی اس طرح کے بچگانہ و ڈرامائی سیکورٹی اقدمات سے ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر حکومت و سیکورٹی ادارے حقیقی معنوں میں دہشت گردی کا خاتمہ اور اس میں ملوث ملک دشمن نیٹ ورک کا خاتمہ چاہتے ہیں تو پھردہشت گردوں اور ان کے سرپرست نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا ہوگا۔۔۔جہاں تک پاراچنار شہر میں سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں ہونے والے دھماکوں اور خودکش حملوں کی بات ہے تو گزشتہ چند دھماکوں میں طالبان نواز لوئر کرم صدہ کے علاوہ پاڑہ چمکنی ، مقبل، تری منگل اور بوشہرہ منگل کے علاقوں کی افراد کی خودکش حملہ آوروں کی شناخت عوام تک میں ہو چکی ہیں۔۔۔کیا حکومتی ادارے ان سے بے خبر ہیں ۔۔۔اب تو پاراچنار کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں جیسے پشاور میں پاراچنار کے عوام کی ٹارگٹ کلنگ جیسے پروفیر ڈاکٹر شاکر پر ڈبگری میں حملے اور عید کے دن بارہ کہو اسلام آباد خودکش حملے میں ملوث نیٹ ورک بھی طالبان نواز لوئر کرم صدہ کے افراد پر مشتمل رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔۔۔اسلئے حکومت پولٹیکل انتظامیہ و سیکورٹی فورسز، طالبان نواز لوئر کرم صدہ کے علاوہ پاڑہ چمکنی ، مقبل، تری منگل اور بوشہرہ منگل کےدہشت گرد افراد کے خلاف سوات طرز کا ٹارگٹڈ آپریشن کرکے دہشت گردوں کے کمین گاہوں اور ان کے سرپرستوں کو قرار واقعی سزا دیں۔۔۔فاٹا میں بعض اوقات بغیر کسی جرم کے بیچارے عام قبائلی عوام کو چالیس ایف سی آر اور اجتماعی زمہ داری کے قانون کے تحت پورے قبیلے کو حراساں کرکے ظلم و جبر کا نشانہ بنانے والے اب واضح ثبوتوں کے باوجود طالبان نواز لوئر کرم صدہ کے علاوہ پاڑہ چمکنی ، مقبل، تری منگل اور بوشہرہ منگل کے دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف سیکورٹی فورسز اور حکومت کا مسلسل خاموش تماشائی کا کردار دال میں کچھ کالا ہونے کا واضح اشارہ ہے۔۔۔

علاوہ ازیں اگر وفاقی حکومت و متعلقہ ادارے حقیقی معنوں میں دہشت گردی سے متاثر پاراچنار کے طوری بنگش قبائل کی دادرسی کرنا چاہتے ہیں تو پاراچنار کے لئے کئئ دہائیاں پہلے منظور شدہ فاٹا میڈیکل کالج و ٹیچنگ ہسپتال اپنی جگہ پاراچنار میں تعمیر کریں۔۔۔اور پاراچنار کے لئے پہلے سے منظور شدہ پی آئی اے پلائٹس کو بحال کیا جائے۔۔۔پاراچنار میں ہونے والے حالیہ یکے بعد دیگرے بم دھماکوں قیامت صغری میں بہت سے اموات پاراچنار ہسپتال میں ماہر ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو پاراچنار سے پشاور طویل ترین فاصلہ طے کرنے (اگر ٹیچنگ ہسپتال و میڈیکل کالج و پی آئی کی پلائٹس ہوتی تو یہ جانی نقصان کم ہو سکتا تھا) کی وجہ سے راستے کی دشواریوں کی وجہ سے ہوئی اور ظلم کے اوپر ظلم یہ کہ پاراچنار پشاور روڈ پر پشاور کے نزدیک بڈھ بیر اور درہ آدم خیل میں دہشت گردوں نے پاراچنار دھماکوں کے ان زخمیوں اور ایمبولینسوں پر بھی حملے کرکے زخموں پر نمک پاشی کرکے مذید کئی افراد مذید زخمی کر دئیے۔۔۔یاد رہے اس سے پہلے بھی پاراچنار کے پانچ سالہ محاصرے کے دوران سرکاری کانوائی و سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں دہشت گردوں نے پاراچنار سے تعلق رکھنی والی خواتین نرس و مریضوں اور زخمیوں تک کو گولیوں سے چھلنی کرکے بعض افراد کو برلب سڑک زبح کرکے بربریت کی نئی مثالیں قائم کر چکے ہیں۔۔۔۔جس طرح حکومت و سیکورٹی ادارے سیکورٹی اور امن و امان کے حوالے سے ترجیحات کا تعین نہیں کرتے اسی طرح کا سلسلہ ترقیاتی کاموں میں بھی اندھیر نگری اور عقل سے عارے فیصلے ہیں۔۔۔۔حکومت و گورنر شوکت اللہ نے پاراچنار کے لئے کئئ دہائیاں پہلے منظور شدہ فاٹا میڈیکل کالج و ٹیچنگ ہسپتال کو سینیٹ انتخابات میں جوڑ توڑ کے دوران قرعہ اندازی میں پاراچنار سے چھین کر باجوڑ کی جھولی میں ڈال دیا حالانکہ قرعہ اندازی پہلے تو ہونی نہیں چاہئیے اگر ہوتی بھی ہے تو کسی نئے سکیم کے لئے ہوتی ہے۔۔۔۔۔ پاراچنار کے لئے کئئ دہائیاں پہلے منظور شدہ فاٹا میڈیکل کالج و ٹیچنگ ہسپتال کے لئے قرعہ کسی طور پر بھی انصاف نہیں اور نہ ہی پاراچنار کے عوام اس ظلم کو قبول کرتے ہیں۔۔۔ فاٹا میڈیکل کالج و ٹیچنگ ہسپتال کا پاراچنار کے مقام پر منظوری اسلئے ہوئی تھی کہ پاراچنار قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں واحد ایسا علاقہ ہے جو بیک وقت افغانستان کے چار صوبوں سے متصل اور افغان دارالحکومت کابل سے کم تریں فاصلے پر ہیں۔۔۔ فاٹا میڈیکل کالج و ٹیچنگ ہسپتال کے پاراچنار میں قیام اور ماہر ڈاکٹرز کی آمد سے نہ صرف یہاں کے قبائلی عوام بلکہ سرحد پار افغانستان کے لاکھوں عوام مستفید ہو کر ایک طرف پشاور کے سرکاری و پرائیوٹ ہسپتالوں پر رش کم کیا جاسکتا ہے تو دسری طرف ایمرجنسی اور حادثات کی صورت میں شدید زخمیوں کو پاراچنار ہی میں علاج معالجہ کی سہولیات مہیا ہو کر پاراچنار سے پشاور تک طویل ترین و دشوار گزار راستے میں ہونی والی قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔لیکن جس ملک کے حکام اور سیکورٹی ادارے دہشت گردی روکنے کے لئے سیکورٹی اقدامات کے تحت موٹر سائیکل کی ڈبل سواری کی بجائے موٹر سائیکل پر ہی پابندی لگائے اور ترقیاتی منصوبے و پراجیکٹس موزوں علاقے کی بجائے قرعہ یا جورایوں کی طرح بانٹے ۔۔۔تو وہ ملک یا پاک افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقے خاک ترقی کریں گے؟؟

پاراچنار کے محب وطن طوری بنگش قبائل کا جرم شاید یہی ہے کہ یہ ان کے اباوجداد نے قیام پاکستان سے پہلے دہلی جاکر قائد اعظم کو پاکستان بناننے کی تحریک میں ہر ممکن تعاون کا اعادہ کرکے قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان تک کشمیر کے علاوہ پاک بھارت جنگوں اور کارگل کے محاز سے لے کر اب تک قربانیاں دی ہیں۔۔۔۔اور اب بھی دے رہے ہیں۔۔۔۔قبائلی علاقہ جات میں پاراچنار واحد علاقہ ہے جہاں سیکورٹی فورسز فوج و ایف سی پر طوری بنگش قبائل کی طرف سے کوئی حملہ نہیں ہوا اور سیکورٹی فورسز پاراچنار شہر میں بغیر ہتیھار کے گھوم سکتے ہیں۔۔۔اسی طرح پاراچنار کے سرکاری و پرائیوٹ سکولوں میں روزانہ قومی ترانہ گونجتی ہے۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے پاراچنار کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرکے انہیں دیوار سے لگا رہی ہیں۔۔۔کیونکہ بدقسمتی سے آجکل پاکستان میں ڈکشنری اور اصول یہ بن گیا ہے کہ لوگ جتنے محب وطن اور قانون پسند ہوں اتنے ہی ان کو دبا کر حراساں کروں۔۔۔اور اگر کوئی دہشت گرد طالبان اور ان کے اجداد کی طرح قائد اعظم کو کافر اعظم (نعوذباللہ۔ نقل کفر کفرنا باشد)اور پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو کفر کہہ کر نہتے عوام مساجد امام بارگاہوں اور جنازوں و پبلک مقامات کو خون میں نہلائے تو انہیں وسیع تر قومی مفاد میں ریاستی سرپرستی و وی آئی پی پروٹوکول دے کر سیکورٹی فورسز کی درجنوں چیک پوسٹوں کے باوجود ڈی آئی خان و بنوں جیل سے دہشت گردوں کے چڑانے کے باوجود سزا نہ دی جائے۔۔۔کیونکہ اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کو افغانستان کی طرح امارات اسلامی طالبان سٹیٹ بنانا ہے اور شاید یہی اس بدقسمت ملک کی نئی سیکورٹی پلان نام نہاد قومی سلامتی پالیسی یا سیکورٹی اقدامات؛ جو مرضی چاہے کہہ دیں ،،،،لیکن یہ بات ضرور یاد رہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔۔۔ظلم اور ظالم کو سزا دینے کی بجائے اس کی سرپرستی اور آستین کے سانپ پالنے کا انجام بہرحال برا ہی ہوتا ہے ـ۔۔۔ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔۔

شکریہ ختم شد
Sajid Hussain
About the Author: Sajid Hussain Read More Articles by Sajid Hussain: 14 Articles with 12414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.