کہانی اک بد قسمت سکندر کی

ایک طرف جہاں مصری فوج اور حکومت جبر وتشدد کی نئی مثالیں قائم کررہی ہے ،ابھی قلم نے مسلمانوں پر اس نازک ترین وقت کے حق میں جنبش لی ہی تھی کہ اسی وقت سکندر صاحب شام پانچ بجے اسلام آبادآ ٹپکے اور تما م ٹی اسٹیشن اسکی طرف ’’لائیو کوریج‘‘ لے کر بیٹھ گئے۔پھر کیا تما م الیکٹرانکس میڈیا ساری خبریں ختم،ملک میں مون سون اورسیلاب کی تباہی کی خبریں غائب،مصر کے مسائل پشِ پست بس ٹی وی پر رات ساڑھے بارہ بجے تک سکندر صاحب ’’لائیو‘‘ نظر آئے۔یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ جناب چوہدری نثار کے احکاما ت کے مطابق اسلام آباد پولیس کی طرف سے سکندر پر کنٹرول میں اتنی تاخیر ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں جتنا کہ اس تاخیر کا سبب میڈیا کی لائیو کوریج ہے۔جہاں تک میری ذاتی سوچ ہے اس کے مطابق میڈیا کو واقعی پولیس کو اور سکندر کو اس طرح لائیو کور کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔اس لائیو کوریج سے نہ صرف سکندر کو کنٹرول کرنے میں دیر ہوئی بلکہ پوری دنیا میں پاکستان اور پاکستانی پولیس کا بھرم ٹوٹا اور انسلٹ ہوئی۔جو کچھ زمر د خان نے کیا اس کو بہادری کا رنگ دینے یا کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

زمرد خان نے اپنے طور پر پولیس کا جو حصار توڑا وہ قابل تعریف نہیں قابل شرم ہے۔زمرد خان کی وجہ سے خدانخواستہ نہ صرف خود زمر د خان کی اپنی جان جا سکتی تھی بلکہ سکندر کے معصوم بچوں کی جان جانے کا بھی اندیشہ تھا۔اگر کسی نے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں انگلی ڈالی ہو تو اس پتہ ہو گا کہ مکھیاں جب کاٹتی ہیں تو انسان کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا۔مکھیوں کے چھتے میں کھیلتے کھیلتے ہاتھ ڈالنا بہادری نہیں بلکہ بہت بڑی بے وقوفی ہے۔زمرد خان کی سیاسی اور غیر سیاسی خدمات ایک طرف لیکن ان کی یہ بہادری تاریخی غلطی ہے جس سے پولیس او ر وہاں دائیں بائیں کھڑے تماشائیوں کے لئے خود کش حملے کے برابرہے۔زمرد خان کی وجہ سے ہی فائرنگ سٹارٹ ہوئی اور اس تاریخی غلطی کی وجہ سے اس کے معصوم بچوں اور بیوی کی جان جانے کا شدید خطرہ تھا۔مزیدیہ کہ سکندر یا پولیس اہلکاران کی فائرنگ سے مزید جانوں کا ضیاع ہونے لگا تھا ۔ پوری ویڈیو ریوائنڈ کر کے دیکھیں تو سکندر اوراس کی اہلیہ اپنے بچے کو بچاتے گولیوں کا شکار ہوئے۔سکندر نشئی ہونے کے باوجود بلیک میلنگ ضرور کر رہا تھا لیکن اس نے کسی کو اپنی گولی کا نشانہ نہیں بنایا۔اس کو پہلی ٹانگ پر ہی گولی کافی تھی اس کے بعد اسے ناجائز گولیاں ماری گئیں۔

جہاں تک سکند ر کا سابقہ اور موجودہ ریکارڈ دیکھا اور پڑھا گیا ہے یہ بندہ شاید نشئی ہوگا لیکن ایک حیرت انگیزبات دیکھنے میں یہ آئی ہے کہ1962کی پیدائش رکھنے والا یہ شخص جسمانی لحاظ سے بہت ہی پھرتیلا پایا گیا۔دو نوں ہاتھوں سے بیک وقت فائرنگ کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن سا کا م ہے جو اس نے کر دکھایا۔اس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق پہلی دفعہ ڈی پورٹ ہونے کے بعد ’’Fake‘‘ آئی ڈی سے اتنا عرصہ نہ صرف دبئی مقیم رہنا بلکہ وہاں شادی بھی کرلینا واقعی جعلسازی کو بہت بڑی سپورٹ ہے۔

سکندر کی والدہ بلقیس اخترنے بھی اپنے بیٹے کو جھگڑالو،نافرمان اور پاکستان کو بدنام کرنے والا کہ دیا ہے۔مزید اس نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے اس کو عاق کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔یہاں زمرد خان سے زیادہ سکندر کی والدہ کو شاباش کہنے کہتا ہے جس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کے اس بدقسمت کو سخت سے سخت سزادینے کی اجازت دے دی ہے۔

سکندر کی دوسری بیوی کنول کے مطابق سکندر کنول کی اپنی چوائس ہے، اسے آخری وقت تک اپنے
خاوند کے فضول بلیک میلنگ والے منصوبے کا علم نہیں تھا۔یہاں کنول نے غلطی یہ کہ اس نے ایک شادی شدہ شخص کے ماضی میں جھانکنے کی بجائے اس کے چمک دار حال پر ہی اکتفا کیا اور شادی کر لی۔حالانکہ کنول کا والد ایک سمجھدار اورمشہور پنجابی شاعرہے لیکن یہ بات سچ ہے کہ والدین اپنی بیٹوں کو نصیب خرید کر نہیں دے سکتے۔

اس سارے واقعہ میں پولیس کی طرف سے تاخیر ہونے اور زمرد خان کو حصار میں داخل ہونے کے سوا پولیس بے گناہ لگتی ہے۔یہاں قابل افسوس بات یہ ہے کہ نوسرباز تو عوام کو چلتے چلتے بے ہوش کر لیتے ہیں مگر ہماری پولیس کو ابھی جدید گن سے بے ہوش کرنا نہ جانے کیوں نہیں آتا۔اس سارے تماشے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کردار قابلِ تعریف ہے کیونکہ انہوں نے ملزم کو زندہ پکڑنے کے احکامات بالکل ٹھیک جاری کئے۔اس کی وجہ یہی تھی کہ نہ صرف اس کی بے گناہ فیملی کو بچایا جائے بلکہ وہاں موجود پولیس اور سویلین کو بھی جانی تحفظ دیا جائے۔علاوہ ازیں ایسے ملزمان کو زندہ پکڑنے سے دور رس فوائد مل جاتے ہیں مثلاً شاید اسی وجہ سے اس کو جدید ترین اسلحہ بیچنے اور دینے والے بھی نرغے میں آگئے۔مزید یہ کہ اس کو اس سٹیج پر پہنچانے میں مد د دینے والے ماسٹر مائنڈ اندرون اور بیرون ملک غلیظ دماغ بھی سامنے آ گئے۔

ہماری حکومت کو اس واقعہ کے بعدپورے ملک میں نہ صرف اسلحہ بیچنے والوں کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی بلکہ وقتاً فوقتاً رینٹ اے کار کا کاروبار کرنے والوں اور ہوٹل یا پرائیویٹ دفاتر سے گاڑیاں کرائے پر دینے والوں کی گاڑیوں کا تمام ریکارڈ چیک کرنا ہوگا۔ہمارے ملک میں نہ صرف ناجائز اسلحہ رکھنے والوں بلکہ ناجائز اسلحہ بیچنے والوں کی بھرمار ہے۔رینٹ اے کار والے صاحبان بھی نہ جانے کس قسم کی جائز اور ناجائز گاڑیاں لے کر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ہمارے ملک میں کئی ٹرانسپورٹر بھی اپنی چھوٹی اور بڑی گاڑیوں میں اسلحہ سمگلنگ میں پیش پیش ہیں۔ہماری پولیس،انتظامیہ اور اینٹلی جنس اداروں کو ہر طرف تحقیقاتی نگاہ سے ملک دشمنی کی کاروائیوں میں ملوث صاحبان کو اپنی گرفت میں لینا ہوگا تاکہ مستقبل میں کم سے کم جانی و مالی نقصان ہو سکے۔مزید یہ کہ ملکی سرحدوں پر اور سرحدوں کے نزدیک سخت ناکہ بندی کرکے ہر قسم کی سمگلنگ اور مہلک تباہ کن ہتھیاروں کی پکڑ دھکڑ کی جا ئے۔جدید کیمرہ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال کیا جائے۔پولیس کوجدید بے ہوش کرنے والی گنز مہیا کر کے استعمال کرنے کی ٹریننگ دی جائے۔

اسلام آباد واقعہ ایک اتفاقیہ حادثہ ہے ۔سکندر کی اس بدقسمتی میں جہاں اس کی ذاتی غلطیاں زیادہ ہیں وہیں اس کے کئی محرکات اور حالات جس میں دولت کی زیادتی میں اس کو شاید غلط سوسائٹی نے شرابی ،نشئی اور چرسی بنایا وہیں اس کے دبئی جیل میں قید بچے نے ٹینشن کا شکار کیا۔سکندر ایک ٹیسٹ کیس ہے۔یہاں یہ واقعہ ہم سب پاکستانیوں یہ سبق بھی سکھاتا ہے کہ ہم نہ صرف پانچ وقت کی نماز پڑھیں بلکہ اپنے تمام گھر کو اسلامی شعارکے مطابق ڈھالیں تاکہ ہم زندگی کی بے قاعدگیوں سے بچ کر بہترین ٹینشن فری زندگی گزاریں۔اپنی اولاد اور بچوں پر حلال رزق کما کر خرچ کریں اور حتی الوسع کوشش کرکے حلال کمائی کریں۔یقین کریں زندگی کی تمام برکتیں ایمانداری اور حلال رزق میں ہیں۔ہم سب کو ملک دشمن اور ملک دوست افراد میں فرق رکھنا ہوگا ورنہ ہمارے ہاں خدانخواستہ کئی سکندر بھونچال مچا سکتے ہیں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.