جب تک کراچی و حیدرآباد٬ سندھ کے
شہری آبادیوں کے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دئیے جاتے ، مستقلامن کے
قیام کا امکان ممکن نہیں ہے۔بنیادی اور آئینی حقوق کی سلبی اور سیاسی
مینڈیٹ کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کبھیبار آور نہیں ہوتیں۔سندھ میں اب
صرف سندھی بولنے والے اکثریت میں نہیں ہے بلکہ دیگر قومتیں کروڑوں کی تعداد
میں رہتی ہیں۔اس حقیقت کو اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ سندھ کسی گروپ یا جماعت
کا نہیں ہے بلکہ سندھ میں رہنے والی تمام قومتیں بھی اسی طرح حقوق کیلئے
اہل ہیں جس طرح دیہی علاقوں کیلئے بات کی جاتی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ
75فیصد صوبائی محاصل کراچی ، حیدرآباد اور سکھر سے وصول کئے جاتے ہیں۔لیکن
اس کے باوجود بے روزگاری اور قدیم کچی آبادیوں کو بنیادی سہولیات سے محرومی
شہری آبادیوں کی مقدر بن گئی ہے۔کراچی ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 70فیصد سے
زیادہ سندھ کو دیتا ہے۔جبکہ وفاق کو 60فیصد سے زیادہ ریونیو سے زیادہ کراچی
سے جاتا ہے۔کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اربوں روپے کراچی، پورے پاکستان کی
اقتصادیات کو مضبوط کرنے کیلئے فراہم کرتا ہے۔جبکہ مردم شماری نہ ہونے کے
سبب انتخابی حلقہ بندیاں بھی کراچی میں نہیں کیں جا رہیں، کیونکہ اس سے
کراچی کی صوبائی و قومی نشستوں میں اضافہ ہوگا ، جو ارباب اختیار کرنا نہیں
چاہتے۔کراچی کی آبادی میں گذشتہ سالوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوچکا ہے اور
دیہی علاقوں کے رہائشیوں نے بھی شہر کی جانب رخ کرلیا ہے جس سے شہر کی
اقتصادی صورتحال پر بڑا فرق پڑا ہے۔مردم شماری کے بعد کراچی کی نئی حلقہ
بندیوں کے سبب انتخابی نشستوں میں اضافہ کے بعد یقینی طور ملکی سیاسی
صورتحال میں تبدیلی کا بڑا عمل ہوگا۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ کراچی میں
اعلانیہ و غیر اعلانیہ آپریشن کی وجہ سے مختلف قومیتوں میں حکومتی اداروں
پر اعتماد میں کمی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔رینجرز کے بھاری
بھرکم اخراجات کے باوجود کراچی میں امن ایک خواب کی طرح ہے جس کی تعبیر نظر
نہیں آتی۔کراچی میں متناسب نمائندگی کیلئے غیر جانبدارانہ مردم شماری اولین
ضرورت ہے۔سندھ بالخصوص کراچی میں پیدا شدہ سیاسی صورتحال اور امن و امان کے
سبب انتظامی تبدیلیوں کیلئے مخلصانہ مردم شماری ناگزیر ہے لیکن حکومت کی
جانب سے پہلو تہی سے حالات میں سنگینی پیدا ہو رہی ہے۔سندھ ملک کے دوسرے
صوبوں کی بہ نسبت نسلی و لسانی تفریق کا شکار صوبہ ہے ، جہاں صرف سندھی
زبان بولنے والے کو ہی مقامی تصور کیا جاتا ہے۔جبکہ سندھ میں رہنے والی
مختلف زبان و ثقافت رکھنے والی قومیتیں مستقل طور پر آباد ہیں اور ان کا
جینا مرنا ، سندھ کے ساتھ وابستہ ہے ، لیکن 1972ء کے لسانی معائدے کے بل
میں گورنر اور وزیر اعلی کیلئے مہاجر و سندھی کی پابندی نے کروڑوں سندھی نہ
بولنے والے سندھیوں میں زبردست احساس کمتری و محرومی پیدا کردیا ہے کہ کہ
سندھ حکومت و وفاق کو سب سے زیادہ ریونیو و ٹیکس دینے کے باوجودمالیاتی حب
کے حامل شہر کے عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے اپنے علاقے کے نمائندے کے
بجائے کفالت لینے والوں کا دست نگر ہوتے ہیں۔ جس سے لسانی اکائیوں میں
دوریاں اور ایک پاکستانی قومیت کا تصور ناپید ہوتا جارہا ہے۔جو ملکی وحدت
کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔سندھ کے اہم انتظامی اداروں میں کوٹہ سسٹم
کے تحت جعلی ڈومی سائل و پی آر سی کے ذریعے جہاں سرکاری و نیم سرکاری
ملازمتوں میں کراچی کی عوام کی حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب
تعلیم کے دروازے بھی مستقل مقامی شہریوں کے لئے بند کئے جا رہے ہیں۔رشوت
اور اقربا پروری کے باعث کراچی کے شہری اپنے حقوق سے لسانی بل کی وجہ سے
محروم ہو رہے ہیں اور ان کو اپنے وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے ، یہی
وجوہات سندھ میں لسانی و طبقاتی تفریق کا سبب بن رہا ہے۔دیگر علاقوں میں
روزگار کی عدم فراہمی کے سبب ، کراچی کے مقامی افراد کو بے روزگاری کا
سامنا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ دوسرے علاقوں کے رہنے والے با آسانی
کراچی؍حیدرآباد میں روزگار حاصل کرلیتے ہیں لیکن کراچی؍حیدرآباد کے مقامیوں
کو دیگر صوبے تو دور کی بات ، اپنے سندھ صوبے میں لسانی تفریق کی وجہ سے
روزگار ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔اس کا واضح نتیجہ یہ نکلاہے
کہ جب انھیں اپنے شہر میں روزگار و تعلیم کی سہولیات مہیا نہیں ہو رہی تو
دوسرے صوبوں کے علاقوں میں ان سے متعصبانہ سلوک ، قومیتوں کے درمیان بد
گمانی و تفریق کا سبب بن رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں
اپنے وفاقی ، صوبائی محکموں ، نیم سرکاری اداروں ، سول سروسز اور فوج میں
مقامی افراد کو بھرتی کرنے کیلئے ضلعی بنیاد پر تقرری کا شفاف طریقہ کار
اختیار کریں۔سندھی؍غیر سندھی کی لسانی تفریق میں سندھ حکومت اور تمام سیاسی
جماعتوں و تنظیموں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ، سندھ میں مستقل آباد ، سندھی
بولنے والے ، اردو ، پختون،بلوچی ، پنجابی، بنگالی،سرائیکی،کچھی قومتیوں کے
ساتھ میانہ روی کس طرح اختیار کی جاسکتی ہے۔حالیہ بلدیاتیبل کے حوالے سے
ایک بار پھر دیہی و شہری تفریق کے واضح فرق نے شہری آبادیوں کو دیوار سے
لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے
عوام بے چینی و بے یقینی کا شکار ہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت کو مخصوص علاقوں
تک محدود رکھنے کی 40سالہ کوششوں کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔ اس روش نے پہلے
بھی کوئی فائدہ نہیں دیا تو اب بھی اس سے صرف انارکی ہی پھیلے گی ۔سندھ میں
شہری و دیہی تفریق کا نتیجہ کسی طور بھی نکل سکتا ہے ۔ بد قسمتی سے ارباب
اختیار نے مشرقی پاکستان والی روش اختیار کر رکھی ہے اور قانون کی رٹ کو
صرف اپنے مقاصد کے تحت استعمال کرتے ہیں۔کراچی پاکستان کا ایک معاشی حب اور
اقتصادی شہ رگ ہے ، گذشتہ چار دہائیوں سے کراچی کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا
جارہا ہے ۔جس کا نتیجہ ملک کے مفاد کے خلاف نکلے گا تو پھر چاہیے کتنے صوبے
، بنا لیں، اگر عوام میں احساس محرومی نے عروج حاصل کرلیا اور ان کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہوگیا تو تمام سعی بیکار ہوجائیں گی۔ کراچی میں تمام سیاسی
اکائیوں کو ان کے مینڈیٹ کے مطابق تسلیم کرنے میں ہی مملکت کی بھلائی کا
راز چھپا ہوا ہے ، جیسے ہم جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی
کو اپنے ابتدا میں پنجاب سے کامیابیاں ملا کرتی تھیں لیکن ان کی لسانی
محدود سوچ کی وجہ سے ان کا انتخابی کارڈ سندھ تک محدود ہوگیا ، اسی طرح اب
مسلسل شہری و دیہی تفریق و طبقاتی حدود بندیوں کی وجہ سے واضح طور پر سندھ
کی تقسیم کی بنیاد کوئی اور نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اپنے بے سوچے سمجھے
پالیسیوں سے رکھ رہی ہے ، سندھ آدھا تمھارا، آدھا ہمارا کا نعرہ ، آج کا
نہیں بلکہ اس کی بنیاد پیپلز پارٹی نے ہی 1972ء لسانی بل کی منظوری کے بعد
رکھ دی تھی ، پیپلز پارٹی کو بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔انکے جذباتی
رویوں کی وجہ سے پاکستان ، ادھر ہم ادُھر تم کے نعرے پر منقسم ہوچکا ہے ،ملکی
ترقی کی اہم بندرگاہ ہم سے الگ ہوگئی اور اب پاکستان کی واحد بندرگاہ والے
شہر میں سندھ آدھا تمھارا ، آدھا ہمارا کی روش و پالیسی اپنانے سے مملکت کا
وجود ہی خطرے میں پڑ جائیگا ۔ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ،
ملک کی موجودہ صورتحال ، کسی سیاسی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور
قوموں کو مہلت کا وقفہ بھی قدرت مخصوص مدت تک دیتی ہے۔جس کی قدر نہ کرنے پر
قدرت خداوندی اپنے عذاب کو مختلف شکلوں میں اتار دیتی ہے، جس کا ہم آج بھی
شکار ہیں۔ |