گھر کیسا لگا ہے۔۔۔۔ گھر کیسا لگے گا

مشہور واقعہ ہے کہ ایک عطر فروش کی بیٹی کی شادی کسی گوالے کے بیٹے سے ہو گئی۔ نئی نویلی دلہن جب گوالے کے گھر میں آئی تو وہاں گائے تھیں، بھینسیں تھیں۔ گو بر تھا اور ہر طرف بدبو کا راج تھا۔ سوچنے لگی کہ اسقدر بدبو میں لوگ کیسے رہتے ہیں۔ شروع کے چند دن منہ پر کپڑا رکھ کر خود کو بدبو سے بچاتی رہی اور اپنے حساب سے گھر کی صفائی بھی کرتی رہی۔ پندرہ بیس دن گزر گئے۔ گائے بھنسیں بھی وہیں تھیں۔ بد بو بھی تھی مگر اس کے منہ پر کپڑا نہیں تھا اور وہ لوگوں کو بڑی شان سے بتا رہی تھی کہ جب وہ آئی تھی تو گھرمیں اس قدر بدبو تھی کہ دماغ پھٹا جا تا تھا مگر اس کی صفائی کے نتیجے میں بد بو کا نشان بھی نہیں رہا۔ اُسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ بد بو سمیت ہر چیز اپنی جگہ پر اُسی طرح تھی مگر ان پندرہ بیس دنوں میں وہ اُس بد بو کی عادی ہو چکی تھی۔

پنجاب کے امپورٹڈ گورنر جناب چوہدری سرور صاحب ابھی نئے نئے ہیں۔ ابھی اُن کا برطانوی انداز قائم دائم ہے۔ ابھی وہ پاکستانی نہیں برطانوی قدروں کے علمبردار ہیں۔ اسی لیے فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے منصب اور عہدے سے انصاف نہ کر سکا اور محسوس کیا کہ میرے گورنر بننے کا کوئی فائدہ نہیں تو میں ایک منٹ بھی اس عہدے پر نہیں رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ برطانیہ چالیس برس رہے ہیں وہاں پر ہر طرح کے حالات کا سامنا کیا ہے۔ برطانیہ کی ترقی اور وہاں کے جمہوری معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ پوری کوشش کریں گے کہ وہاں کے سسٹم کی خوبیوں کو پاکستان میں رائج کریں اور اچھے سیاسی کلچر کو فروغ دیں۔
چوہدری سرور صاحب کی باتیں یقینا بہت خوبصورت ہیں مگر چوہدری صاحب ابھی تک برطانوی ہیں۔ وہی ذہنیت رکھتے ہیں۔ عرصے کے بعد لوٹ کر گھر آئے ہیں۔ اس لیے گھر کے بارے میں شاید پوری طرح آگاہ نہین۔ ہمارے اور برطانوی طرز زندگی میں ہر چیز کے معیار میں بہت فرق ہے۔ وہاں کا انصاف، وہاں کی جمہوریت اور وہاں کے نظم و نسق سے ہم کوسوں دور ہیں ویسے چوہدری صاحب کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ گورنر ہیں اور ان کا عہدے سے انصاف یہی ہے کہ وہ پنجاب میں چوہدری فضل الٰہی بن کر رہیں ، سوتے رہیں اور فقط سوتے رہیں۔ کبھی کبھار کسی تقریب میں شرکت کریں جہاں زور دار بیان دیں مگر وہ زور بیان سے باہر نظر نہیں آنا چاہیے۔ شریف برادران کے بارے میں کچھ تعریفی کلمات اگر ادا کر دیں تو یہ اُن کی اضافی خوبی شمار ہو گی۔ لیکن اُن کے بیان کا زور کہیں عملی شکل اختیار کرنے لگا۔ تو نہ تو قوم برداشت کرے گی اور نہ اُن کے محسن شریف برادران۔ جنہوں نے پہلے ہی پارٹی میں چند ایک مطلب کے لوگوں کے سوا سوچ اور فہم رکھنے والوں کو کبھی پارٹی میں برداشت ہی نہیں کیا۔ چوہدری صاحب کے لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ اپنے فالتو وقت میں پراپرٹی ڈیلری کریں جیسا کہ پارٹی کے زیادہ تر لیڈر کرتے ہیں۔ اسی میں اُن کی اور اُن کی پارٹی دونوں کی بھلائی ہے۔

اُمید ہے چوہدری سرور کو جلد ہی اندازہ ہو جائے گا کہ برطانیہ اور پاکستان میں انصاف کا انداز اور معیار بھی بہت مختلف ہے۔ وہاں انصاف سب کے لیے ایک ہے۔ وہاں امیر غریب ، گورے ، کالے، حکمران یا رعایا سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں انصاف کی دونوں آنکھیں مختلف ہیں۔ امیر کے لیے ایک آنکھ ، غریب کے لیے دوسری۔ امیر کے لیے انصاف کا معیار کچھ اور غریب کے لیے انداز انتہائی مختلف۔ برطانیہ میں جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو، کوئی ادنی سپاہی بھی اُس شخص کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ یہاں جس کے پاس جتنی طاقت ہے وہ اتنا بڑا انصاف کا بادشاہوں کی طرز پر علمبردار ہے۔ بادشاہ کو جو شخص پسند نہ ہو بغیر کسی جرم کے سزاوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ پولیس تو ان بادشاہوں کے گھر کی لونڈی ہے۔ کسی بادشاہ نے کہا کہ فلاں کو پکڑ لو اور ڈھونڈو کہ۔ اس نے کیا کیا جرم کیا ہے۔ تو ہماری فرمانبردار پولیس فوری حرکت میں آتی ہے اور کچھ نہ کچھ نکالنے میں تو اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں تو اہل اقتدار کے منہ سے نکلا ہر لفظ سراپا انصاف ہے اور انصاف کی قدروں کا بالکل بھی محتاج نہیں۔ یہاں کا انصاف کبھی تو آپ کے گھر کے باہر موجود گٹر کے خراب ہونے پر لوکل گورنمنٹ پر عملدرآمد کے بارے حرکت میں آجاتا ہے تو کبھی کوئی قتل بھی ہو جائے تو اُسے اتفاقی حادثہ جان کر سویا رہتا ہے۔ مرنے والے کے ورثا جتنی مرضی زنجریں ہلالیں۔ انصاف نہیں سنتا اور نہ سننا چاہتا ہے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ تو میرے محترم امپورٹڈ گورنر صاحب چند دن کی بات ہے آپ یہاں کی قدریں جان جائیں گے اور یہاں کے حالات کے مطابق اپنے محسن اور مہربان نواز شریف کے گن گانے کے علاوہ کوئی بیان نہیں دیں گے۔

پاکستان اور برطانیہ کی جمہوری قدریں بھی مختلف ہیں۔ وہاں جمہوری نمائندے عوام کے نمائندے ہیں۔ عوامی نمائندگی کرتے ہین۔ عوام کے لیے سوچتے ہیں اور عوام کے لیے قانون سازی کرتے ہیں ۔ حکومت کسی مسئلے پر ناکام ہو تو وہ واقعی سب کچھ چھوڑ کر گھر واپس چلے جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ وہ ذمہ داری نباہ نہیں پائے اور شاید نا اہل ہیں۔ یہاں جمہوری نمائندے حقیقت میں ایک پارٹی کے لے پالک ہوتے ہیں جو عوام کے نہیں فقط اس پارٹی کے لیڈروں کے نمائندے ہوتے ہیں انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ قانون سازی اُن کی فطرت کے خلاف ہے۔ ان نمائندوں کوایک لمبی کارکی ضرورت ہوتی ہے جس پر ایک ڈنڈا لگا ہو اور ڈنڈے پر ایک جھنڈا لگا ہو کہ جہاں سے گزریں لوگوں کو اُن کی اہمیت کا احساس ہو۔ مزید سرکار کا مہیا کردہ ایک پرائیویٹ سیکرٹری اور کچھ عملہ درکار ہوتا ہے جو ان کے مفادات کے پورا کرنے میں اُن کا مدد گار ہو۔ ان نمائندوں کو اپنے رعب دعب سے مطلب ہوتا ہے عوام جائیں بھاڑ میں۔ انہیں عوام سے کیا لینا۔

برطانیہ میں اگر اتفاق سے ریلوے کا چھوٹا سا حادثہ ہو جائے تو ریلوے کا وزیر ہی نہیں ریلوے کے بہت سے لوگ مستفیٰ ہو جاتے ہیں کہ وہ حادثہ اُن کی بد انتظامی یا نا اہلی کا نتیجہ تھا۔ پاکستان میں ریلوے کے بد ترین حادثے کے نتیجے میں بھی غلام احمد بلور جیسے وزیر فرماتے ہیں کہ وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ وہ کوئی انجن ڈرائیور تو نہیں کہ حادثے کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں۔ اُن کے اس بیان کو یقینا وہی کہا جائے گا جو توہین عدالت کی زد میں ہے اور ڈر سے میرا قلم بھی لکھ نہیں پا رہا۔ یہاں دنیا کا ہر گھٹیا سے گھٹیا کام جمہوریت کے نام پر ہوتا ہے۔ اور اُسے جمہوریت کا حسن بھی قرار دیا جاتا ہے۔

ہمارے گورنر جناب چوہدری سرور صاحب !اگر آپ کشتیاں جلا کر آئے ہیں جس طرح عطر فروش کی بیٹی نکاح پڑھوا کر گوالوں کے گھر آئی تھی کہ اب اُسے ہر حال میں رہنا تھا تو اُمید ہے بہت جلد آپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ وہ لوگ جن کے مزاج میں جمہوریت ،انصاف ،برداشت ،فہم اور سوچ کا عنصر باقی ہے وہ اس ملک سے بھاگ رہے ہیں کہ شاید موجودہ حالات میں ملک رہنے کے قابل نہیں۔ ہمارے جیسے پاگل آپ کو بہت کم ملیں گے کہ جنہیں لوگ اس ملک سے باہر پھینکنا بھی چاہیں تو وہ نہیں جاتے کہ اُن کا جینا مرنا اسی مٹی سے وابستہ ہے۔ گورنر صاحب آپ اب آہی گئے ہیں تو ہماری دعا ہے کہ آپ چوہدری فضل الٰہی کی مثل نظر نہ آئیں بلکہ جو کچھ برطانیہ میں آپ نے سیکھا ، دیکھا اور سنا ہے اُسے بروئے کار لائیں۔ انصاف ، جمہوریت اور اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کچھ کریں۔ آپ کی اس کاوش میں بہت سے لوگ آپ کے لیے دعا گو ہوں گے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500769 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More