بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن مجید میں جن دو دریاؤں کا ذکر آیاہے ان میں سے ایک دریائے نیل ہے اور
دوسرا دریائے فرات ۔دریائے فرات کو واقعہ کربلاکی وجہ سے شہرت دوّام حاصل
ہے جبکہ دریائے نیل کو فرعون کے غرق ہونے کی وجہ سے۔برّاعظم افریقہ میں
بہنے والا دریا ئے نیل دنیا کا سب سے لمبا دریاہے جودراصل نیل ابیض اور نیل
ازرق سے مل کر تشکیل پاتا ہے اوریہ دونوں دریا سوڈان کے دارالحکومت خرطوم
کے قریب آپس میں ملتے ہیں۔اس کے بعد 6،695 کلومیٹر یعنی4،160 میل کا سفر طے
کرنے کے بعد بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قدیم مصر کے تمام آثار قدیمہ بھی دریائے نیل کے
کناروں کے ساتھ ملتے ہیں۔مصر کا دارالحکومت قاہرہ اوررقبہ 1،001،450 مربع
کلو میٹر ہے یعنی رقبے کے اعتبار سے مصر دنیا کا اٹھائیسواں بڑاملک ہےاور
جغرافیائی اعتبار سے مصر کے مغرب میں لیبیا، جنوب میں سوڈان، مشرق میں
بحیرہ احمر، شمال مشرق میں فلسطین اور شمال میں بحیرہ روم ہیں جبکہ آبادی
کے حساب سے مصر دنیا کا پندرہواں اور افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
۱۹سے ۲۱ھ ق کے دوران مصر کو مسلمانوں نے فتح کیا اور اس کے بعدمصر کا شمار
اسلامی سلطنت کے اہم ترین مناطق میں ہونے لگا۔یہیں پر طولونیوں نے پہلی
اسلامی حکومت قائم کی پھر اخشیدیوں ، فاطمیوں ، اور فاطمیوں کے علاوہ
عباسیوں اور عثمانیوں نے بھی حکومت کی۔اس سارے اسلامی دور میں مصر میں
جامعۃ الازہر سمیت کئی شاندار دینی درسگائیں اور ثقافتی و فلاحی مراکز قائم
کئے گئے۔بعد ازاں مصر پر برطانوی استعمار نے قبضہ کیا جو ۲۸فروری ۱۹۲۲ تک
برقراررہا۔
۱۹۵۲ میں ملک فاروق نامی بادشاہ کے خلاف بغاوت کے بعد مصرمیں جمہوری
سرگرمیوں کا آغازہوا۔۲۰۱۱ میں مصر میں زبردست عوامی و اسلامی انقلاب کی لہر
اٹھی اوریہ لہر حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کو لے ڈوبی۔جس کے بعد ۲۰۱۲
کے انتخابات میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہوئی اور جناب محمد مرسی مصر
کےصدر منتخب ہوئے۔۲۰۱۲ کو مصر کے صدر منتخب ہونے والے محمد مرسی کی حکومت
کو صرف ایک سال بعد ہی فوجی مداخلت کے ذریعے برطرف کردیاگیا اوراطلاعات کے
مطابق اس وقت مصر میں ایمر جنسی نافذ ہے جبکہ اپریل 2011 کوحراست میں لئے
جانے والے پچاس سالہ سابق مصری صدرحسنی مبارک کو اس وقت جیل سے قاہرہ کے
ایک فوجی اسپتال میں منتقل کردیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اپریل سے اب تک عدالتوں
میں حسنی مبارک کے خلاف تین مقدمات درج تھے جن میں سے کرپشن کے دو جبکہ
مظاہرین کے قتل عام کا ایک مقدمہ شامل تھا۔
حسنی مبارک کو ایک ایسے وقت میں رہاکیاگیاہے کہ جب مصر میں اخوان المسلمین
کی آئینی و دینی اور جمہوری حکومت برطرف ہوچکی ہے اور مسندِ اقتدار پر اس
وقت ایسی حکومت قابض ہے جسے آئین اور عوام کے بجائےمکمل طور پر امریکہ
،اسرائیل اور سعودی عرب کی کھلم کھلاتائید اورواضح طور پر مدد حاصل ہے۔
اخوان المسلمین کے ایک سالہ دورِ اقتدار کی اگر چھان بین کی جائے تو صاف
پتہ چلتاہے کہ اخوان المسلمین کے ساتھ سعودی عرب اور امریکہ نے وہی کچھ
کیاہے جو انہوں نے افغانستان میں جاری جہاد کے ساتھ کیا تھا۔
سب سے پہلے افغانستان میں تحریک جہاد کوجدیداسلحے ،فوجی امداد اور سیاسی
تعاون کے ذریعےاغوا کیا،جب اغوا کرچکے توپھر مجاہدین کو ان کے اصلی ہدف سے
منحرف کرنے اور انہیں کمزور کرنےکے لئے ان کے درمیان اختلافات کو
ابھارا،اورپھر انہی مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے مجاہدین نما درندے تیار
کئے جنہوں نے نہتے اوربے گناہ انسانوں پر شب خون مارا۔اس شب خون اور ظلم و
ستم کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان ایک مستقل اور حقیقی اسلامی جمہوریہ
بننے کے بجائے امریکہ کا دستِ نگر بن کررہ گیا۔
بالکل ایسا ہی مصر میں اخوان المسلمین کے ساتھ بھی کیا گیا۔در اصل
امریکہ،اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کو معلوم ہے کہ اگر دنیا میں اسلامی
تحریکیں انقلاب لانے لگیں اور اقتدار بدلنے لگیں تو نہ صرف یہ کہ اسلامی
ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے بلکہ سعودی عرب میں
قائم بادشاہت بھی نہیں چل سکے گی چنانچہ اخوان المسلمین کے برسرِ اقتدار
آتے ہی مذکورہ تینوں ممالک نے اخوان المسلمین کو نظریاتی طور پر اغواء کرنے
اور حالات کو تیزی کے ساتھ افغانستان کی مانندخراب کرنے کی کوشش کی۔اس کوشش
میں مصری عوام کو اخوان المسلمین سے متنفر کرنے کے لئے افغانستان کی مانند
قتل و غارت کا بازار گرم کیاگیا اور اس قتل وغارت کو بھی جہاد کانام
دیاگیا۔لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس خون خرابے کے پیچھے
اخوان المسلمین کے "مجاہدین" کا ہاتھ ہے۔دنیا بھر سے دہشت گردوں کو مصر میں
لانے کا منصوبہ بنایاگیااور مصر کے صدر مرسی سے بھی پے درپے کئی غلطیاں
کروائی گئیں جن میں سے ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ محمد مرسی نےسعودی
عرب،امریکہ اور اسرائیل کی ایماء پر شام میں سرگرم مسلح باغیوں کی حمایت کا
اعلان کیا۔
صدر مرسی سے یہ حمایت اس لئے کروائی گئی تاکہ اخوان المسلمین عالم اسلام کی
رہنمائی ،مصر کی فلاح و بہبود اور دیگر اسلامی تحریکوں کی سرپرستی کے بجائے
فرقہ وارانہ اور علاقائی لڑائیوں میں الجھ جائے۔مصر کو امریکہ ،اسرائیل اور
سعودی عرب اس الجھاو میں پھنساناتو چاہتے تھے لیکن اخوان المسلمین کی مضبوط
نظریاتی بنیادیں اور لیڈرشپ اس سلسلے میں آڑے آرہی تھی سو اخوان المسلمین
کے خلاف عوامی تحریک کا آغازکروایاگیا اور صرف چار روزہ جلسے جلوسوں کو
بہانہ بنا کر مصر کی آرمی نے اخوان المسلمین کی حکومت کو برطرف کردیا۔
آرمی کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب نے مصری فوج کو
اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اس وقت تک ان ممالک کی آشیرباد کے
باعث مصری فوج گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ۳ہزار سے زائد نہتّے انسانوں کو
موت کے گھاٹ اتار چکی ہے اور قتلِ عام کا یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔
تعجب کی بات ہے یا نہیں کہ اخوان المسلمین کو شدت پسندی اور دہشت گردی میں
جھونکنے کے لئے تو سعودی عرب صدر مرسی کی کمر ٹھونک رہاتھا لیکن اب صدر
مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف فوج کی حمایت کررہاہے۔
صدر مرسی کے ہاتھوں اخوان المسلمین کے اقتدار ختم ہونے کے اس سانحے میں ہر
باشعور انسان کے لئے یہ تین پیغام موجود ہیں۔
۱۔ایک شخص کوئی سسٹم بنا نہیں سکتا لیکن پورے سسٹم کو خراب کرسکتاہے۔
۲۔تنظیموں کے سربراہوں کی غلطیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتاہے۔
۳۔سعودی عرب کی حکومت کسی اسلامی مسلک یا مکتب کی ترجمان نہیں بلکہ سعودی
حکمران صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے سیاسی مخالفین کو
کچلنے کے لئے "جہاد" کے نعرے کو استعمال کرتے ہیں۔لہذا سعودی عرب کے
حکمرانوں کے اقدامات کو کسی دینی مسلک یا فرقے کی رائے نہیں سمجھا
جاناچاہیے۔
ایسے میں پاکستان میں موجود تمام دینی و نظریاتی نیز سیاسی و جہادی تنظیموں
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مصری افواج کے مظالم کو رکوانے کے لئے سعودی
،امریکی ا ور اسرائیلی حکمرانوں پر دباو ڈالیں۔اس سلسلے میں دنیا بھر میں
سعودی عرب کے سفارتخانوں کے سامنے نہ ختم ہونے والے مظاہروں کا ایک
لامتناہی سلسلہ شروع کیاجائے خصوصا وہ تنظیمیں اور جہادی گروہ جن کے سعودی
عرب کے ساتھ خاص مراسم ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنا تمام تر اثر و رسوخ
استعمال کرکے سعودی حکومت کو مصری فوج کی حمایت سے روکیں۔
اگر صرف سعودی عرب ہی مصری فوج کے سر سے اپنا دستِ شفقت اٹھالے تو مصری فوج
کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور کئی بے گناہ مسلمانوں کی جانیں بچ جائیں
گی۔اسی طرح حسنی مبارک جیسے ڈکٹیٹر کی رہائی اور بہت سارے دیگر امریکی و
اسرائیلی منصوبوں کو دھچکالگے گا۔لیکن اگر سعودی حکومت نے مصری فوج کی
حمایت جاری رکھی تو نہ صرف یہ کہ اخوان المسلمین پر پابندی لگنے کا امکان
ہے بلکہ اگلے چند دنوں میں مصر کے مسلمانوں پر نجانے ظلم و ستم کےمزید کتنے
پہاڑ توڑے جائیں گے۔ |