عصر کا وقت تھا اور میں صحن میں
بیٹھا بجلی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا تبھی میرے موبائل پر میسج آیاکہ
لائن آف کنٹرول پر بھارتی سورماؤں کی بلااشتعال فائرنگ سے پاک آرمی کا ایک
آفیسر شہید جبکہ ایک سپاہی زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ پڑھنا تھا کہ میں بہت بے
چین ہو گیا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا واقعہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ دس،
بارہ روز میں تیس سے زائد بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہو چکی
تھی۔تھوڑی دیر بعد بجلی آئی تو میں نے ٹی وی آن کیا ۔پتہ چلا کہ گزشتہ شب
بھارتی فوج نے اسکردو کے نزدیک شکما سیکٹرمیں رات گئے تقریبا تین گھنٹے بلا
اشتعال فائرنگ اور شیلنگ کی جس کی زد میں آ کر حافظ آباد سے تعلق رکھنے
والے پاک فوج کے کیپٹن سرفراز شہید ہو گئے جبکہ سپاہی یٰسین زخمی ہو گیا۔
غیر تسلی بخش ذرائع کے مطابق پاک فوج نے جوابی کارووائی کرتے ہوئے ایک
بھارتی کو واصل جہنم کر دیا ۔
بتاتا چلوں کہ بھارت نے تیرہ اگست کو پاکستا ن پر الزام عائد کیا تھا کہ
جموں میں لائن آف کنٹرول کے قریب پانچ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت میں پاک فوج
کو ملوث قرار دیا تھا۔اس پر پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارتی ڈپٹی ہائی
کمشنر کو اسلام آباد طلب کر کے احتجاج بھی کیا جبکہ دوسری جانب بھارت میں
قائم پاکستانی سفارت خانے پر بھارتی شدت پسندوں کی جانب سے دھاوا بھی بولا
گیا جس نے امن کی آشااور بھارت کے معتدل رویے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
ہندوستان میں پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا جا رہا ہے۔حالیہ پاک بھارت
کشیدگی کو بھارت میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالہ سے انتخابی مہم کا
حصہ بھی خیال کیا جا رہو ہے۔ ہندوستانی میڈیا پاکستان مخالف بیانات کو بڑھا
چڑھا کر بیان کر رہا ہے تو شدت پسند تنظیمیں بھی پاکستان کے خلاف سرگرم عمل
ہیں ۔ایک طرف بھارتی حکومت اور عسکری ذرائع دھمکی آمیز رویہ اپنائے ہوئے
ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی جانب سے ضرورت سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا جا
رہا ہے۔بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دفاعی کمیٹی کے
اجلاس میں ڈی جی ایم او سے چھ اگست کو لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعہ
کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے ۔ وزیراعظم کی ہدایت کی وجہ سے ہی ایل او سی
کی خلاف ورزی کے حوالے سے پاک فوج کی جانب سے بیانات دینا بند کر دئیے
ہیں۔آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی یوم آزادی پر کاکول میں خطاب
کے دوران پاک بھارت کشیدگی کے حوالہ سے کوئی بیان نہیں دیا۔ اس کی وجہ بھی
حکومت کی تحمل کی پالیسی ہی بتایا جاتا ہے۔
بھارت ایک جانب تو آئے روز ایل او سی کی خلاف ورزی کر کے پاکستان پر اپنا
دباؤ بڑھانے کی ناکام کوشش میں جُتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے
دریاؤں پر مسلسل ڈیم بنا رہا ہے۔ متنازعہ کشن گنگا ڈیم پر عالمی عدالت کا
فیصلہ آنے سے قبل اس کا ستر فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ جبکہ پاکستان میں
صورت حال یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم بنانے پر اتفاق رائے ہی نہیں ہو رہا۔ یہی
وجہ ہے کہ انڈیا جب چاہتا ہے ہمارا پانی روک کر ہماری زمینوں کو بنجر کر
دیتا ہے اور جب چاہتا ہے پانی چھوڑ کر سینکڑوں نہیں ہزاروں دیہات ڈبو دیتا
ہے۔
میں پوچھتا ہوں میاں صاحب آپ کی تحمل کی پالیسی اور کتنے فوجیوں کی شہادت
کا سبب بنے گی،کتنے غریبوں کے گھر ڈبوئے گی، کتنے یتیموں کے قرض سے لئے
پیسوں سے تیار فصل کی تبا ہی کا باعث بنے گی۔میں جانتا ہوں کہ جب تصادم ہو
گا دونوں کا نقصان ہو گا مگر جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو ٹیڑھی انگلی
سے بھی تو نکالنا پڑتا ہے۔ اگر بھارت پاکستان کو کمزور سمجھتا ہے تو یہ اس
کی خام خیالی ہے ۔اب وقت آن پہنچا ہے کہ بھارت کو سبق سکھایا جائے ۔ بھارت
کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ آئندہ دراندازی سے اجتناب کرے اوراگر بھارت اپنی
حرکتوں سے باز نہ آیا تو وہ دن دور نہیں جب ماضی کی طرح راجستھان کے راجپوت
قلعے پر پھر سے پاکستانی پرچم لہرا رہا ہوگا۔ |