صرف ڈھائی سال بعد استحصالی طبقے
نے بڑی چالاکی سے ایک بار پھراسلامی مملکت کے عوام کو شکست دے ڈالی
********** تھامس جیفرسن(1743ء۔1826ء) امریکہ کے بانیوں میں نمایاں مقام
رکھتے ہیں۔ ان کا قول ہے :’’جب عوام حکومت سے خوف کھائیں، تو اسی کا نام
آمریت ہے۔ اور جب حکومت عوام سے خوف کھانے لگے، تو یہ آزادی ہے۔‘‘ جمہوریت
و آزادی کا حُسن دوبالا کرتا یہ قول برادر اسلامی ملک ، مصر کے حالات کی
ترجمانی کرتا ہے جہاں فوجی بوٹ بڑے طمطراق سے خوف و دہشت کا ماحول بناتے
ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ گولی اور طاقت کے سامنے کوئی شے
اہمیت نہیں رکھتی۔ 3جولائی کو ’’ملک وقوم کی محافظ ‘‘ مصری فوج نے اخوان
المسلمون سے تعلق رکھنے والے صدر، محمد مرسی کی جمہوری حکومت ختم کرڈالی۔
یوں اس نے صرف ڈھائی سال بعد بڑے عیاّرانہ انداز میں مصری عوام سے بدلہ لے
لیا جنہوں نے فروری 2011ء میں نمائندہِ افواج ، حسنی مبارک کے خلاف احتجاج
کرنے کی ’’جُرات‘‘فرمائی تھی۔ کئی عشرے سرکاری جبروتشدد سہہ کر بھی زندہ
رہنے والی اسلامی جماعت، اخوان المسلمون نومبر 2011ء کے پارلیمانی انتخابات
میں تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ابھری۔ فرعونوں کے دور سے محکوم چلے آرہے
مصری عوام کو جب کچھ آزادی ملی، تو انہوں نے دل کی آواز پر لبیک کہا اور
اسی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ دیئے جو گزشتہ ساٹھ برس سے غربا کی فلاح
وبہبود میں سرگرم تھی۔ ’’النہضہ‘‘(تبدیلی) کا پرچم سرگرمی سے بلند کرنے
والے اخوانیوں نے 498 نشستیں قومی اسمبلی میں 235 نشستیں جیت لیں اور اخوان
سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اخوانیوں اور دوسری اسلام پسند جماعت، النور
کی زبردست کامیابی نے حکمران طبقے (کرپٹ فوج ،افسر شاہی، عدلیہ واشرافیہ)
کی صفوں میں ہلچل مچا دی ۔ تاہم زبردست عوامی جوش وجذبے اور طاقت کے سامنے
اس نے خود کو بے بس پایا۔ اخوان کو اگلی کامیابی مئی 2012ء کے صدارتی
انتخابات میں ملی جب ان کے لیڈر، محمد مرسی 51.73 فیصد ووٹ لے کر نئے مصری
صدر منتخب ہوئے۔ ان کے مدمقابل ، احمد شفیق 48.27 فیصد ووٹ پائے جس کا تعلق
حسنی مبارک کی باقیات سے تھا۔ محمد مرسی کی فتح عوامی فیصلہ تھی لہذا
حکمران طبقے کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پینا پڑا۔ لیکن 30جون کو جیسے ہی صدر
مرسی نے عہدہ سنبھالا، حکمران طبقے نے فیصلہ کرلیا کہ انہیں کام کرنے کا
موقع نہ ملے ۔ چنانچہ فوراً ہی عدلیہ اور افسر شاہی نے حکومت سے محاذ آرائی
شروع کردی۔ اُدھر اشرافیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ معیشت کی حالت پتلی کرنے لگا۔
(مصر کی 40 فیصد معیشت پر مصری فوج قابض ہے۔) ملک میں مصنوعی مہنگائی پیدا
کردی گئی۔ محکمہ بجلی کے افسر جان بوجھ کر لوڈشیڈنگ کرنے لگے تاکہ عوام کو
مرسی حکومت کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ افسر شاہی صدر مرسی کے احکام پس پشت
ڈالنے لگی۔اُدھر ججوں نے حکومت مخالف فیصلے دئیے کہ صدر مرسی کو بے دست وپا
کردیا جائے۔ غرض حکومت کے خلاف زبردست معاندانہ ماحول پیدا کر دیا گیا۔ صدر
مرسی کی سوچ یہ تھی کہ سب سے پہلے حکومتی صفوں میں براجمان مبارک دور کی
باقیات سے چھٹکارا پایا جائے تاکہ عمل ِاصلاحات شروع ہو اور معیشت سنبھل
سکے۔ عوام کے مانند ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ فوج، افسر شاہی وعدلیہ کی وہ
آمرانہ و حاکمانہ ذہنیت بدلی جائے جو پچھلے ساٹھ برس کی فوجی حکومتوں میں
جنم لے چکی تھی۔ پھر ہی عوام کی حکومت سرزمینِ مصر پہ قدم جماپاتی۔ لیکن
حکمران طبقے نے اپنی قوت ہاتھوں سے جاتے دیکھی، تو پوری شدت سے بقا کی جنگ
لڑنے لگا۔ صدر مرسی کی بدقسمتی کہ انھوں نے طاقتور فوج میں جس جنرل سیسی کو
اپنا سہارا بنانا چاہا،وہ ناشُکرا اور غدار نکلا اوربغل میں چھری،منہ میں
رام رام کے مصداق عمل کرتا رہا۔ رفتہ رفتہ حکمران طبقے اور مرسی حکومت کے
مابین لڑائی نے مختلف جہتیں اختیار کرلیں۔ مثلاً لبرل اور لیفٹسٹ تحریک
چلانے لگے کہ صدر مرسی قرآن وسنت کو مملکت کا آئین بناکر اسے مذہبی ریاست
بنانا چاہتے ہیں…جیسے مصر اسلامی نہیں کوئی یورپی ملک ہے۔اور یہ کہ اسلام
پسندوزرا اور گورنروں کے تقرر سے ان پہ اسلامی نظام تھوپا جا رہا ہے۔تصادم
نے طبقاتی رخ بھی اختیار کرلیا۔ مصر کا دیہی طبقہ دینی مزاج رکھتا، سادہ
اور قناعت پسند ہے۔ جب کہ کئی شہری مغربی تہذیب کے دلدادہ، آسائشات کے عادی
اور معیارِ زندگی بلند سے بلند تر کرنے کی چوہادوڑ (Rat race)میں شریک ہیں۔
جاری کشمکش میں دیہی طبقے نے اخوان المسلمون جبکہ مغرب زدہ شہری طبقے نے
مخالف جماعتوں کا ساتھ دیا( مصری آبادی میں دیہی و شہری طبقے،دونوں تقریباً
نصف تعداد رکھتے ہیں) اب صدر مرسی مخالفین سے چومکھی جنگ لڑنے لگے۔ ایک طرف
عدلیہ نے قومی اسمبلی ختم کرڈالی تاکہ وہ شریعت پہ مبنی نیا آئین تشکیل نہ
دے سکے، تو دوسری طرف لبرل و لیفٹسٹ سڑکوں پہ احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔
تیسرا محاذ عدم تعاون پہ عمل پیرا افسرشاہی اور چوتھا خفیہ طور پہ حکومت کے
خلاف سازشوں میں محو فوج نے سنبھالا۔ دلچسپ بات یہ کہ جب صدر مرسی نے
باقیات ِمبارک کے حملے روکنے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے کی خاطرکچھ ناگزیر
اقدامات کیے تو حکمران ٹولے کے زرخرید میڈیا اور رہنمائوں نے انھیں آمر اور
فرعون کے القابات سے نوازا ۔ ماہرین سیاست کا دعویٰ ہے کہ بین الاقوامی سطح
پہ صدر مرسی کے مخالفین کو امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی حمایت
حاصل تھی۔ امریکی استعماری تاریخ دیکھی جائے ، تو صدر مرسی کی جمہوری حکومت
گرانے میں اس کی شمولیت پہ حیرت نہیں ہوتی۔ کم ہی لوگوں کو علم ہے کہ یہ
امریکہ ہی ہے جس نے عالم اسلام میں فوجی حکومتوں کو رواج دیا۔ اس کا آغاز
30مارچ 1949ء کو ہوا جب امریکی ڈالروں اور سی آئی اے کے سہارے سربراہ شامی
فوج، جنرل حسنی زعیم نے نمائند ہِ عوام ،وزیراعظم شکری قواتلی کو برطرف
کردیا۔ وزیراعظم قواتلی نے امریکی حکومت کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار
کردیا تھا۔ اس کے بعد تو انسانی حقوق اور جمہوریت کی علمبردار ، امریکی
حکومت نے کئی ممالک مثلاً ایران 1953)ء) گوئٹے مالا 1954)ء) انڈونیشیا
1958)ء) کانگو 1960)ء)وغیرہ میں حکومتیں گرانے یا بنانے میں چوری چھپے
بنیادی کردار ادا کیا۔ خاص طورپر امریکی حکومت اسلامی جماعتوں کی حکومتوں
سے بہت خائف رہی جو سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع چاہتی ہیں۔ چنانچہ 1991ء
میں الجزائر اور 2006ء میں فلسطین میں اسلامی پارٹیاں برسراقتدار آئیں، تو
ظالمانہ اور غیر انسانی انداز میں بزور سعی ہوئی کہ انہیں حکومت نہ کرنے دی
جائے۔ اور اب مصر میں اخوان المسلمون کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے گئے۔ سی آئی
اے کا طریق واردات یہ رہا کہ ہرملک میں اپنے حمایتیوں کو ہرممکن مالی و
مادی مددفراہم کرتی ہے تاکہ وہ امریکہ مخالف حکومت کے خلاف مظاہرے شروع
کرسکیں۔ ان مظاہروں میں شمولیت کے لیے منہ مانگی رقم دے کر غنڈوں اور
بدمعاشوں کو بھی شامل کرایا جاتا تاکہ وہ احتجاج کو تشدد وفساد کا روپ دے
کر اسے خوب پھیلا سکیں۔ نومبر 2012ء سے مصری شہروں میں لبرل و لیفٹسٹ گروہ
مرسی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔(ان مظاہروں میں خواتین کی بے حرمتی کے
جو گھنائونے واقعات پیش آئے،وہ مظاہرین کے مکروہ کردار کی گواہی دیتے
ہیں)مصری فوج کی حکمت عملی کامیاب رہی اور رفتہ رفتہ ان مظاہروں میں وہ
عوام بھی شامل ہوگئے جن کا خیال تھا کہ مرسی حکومت نے مہنگائی ختم کرنے کی
خاطر ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ اس دوران مصری فوج کا کردار بڑا مکارانہ رہا۔
پہلے وہ حکومت اور مخالفین کے مابین ریفری بن بیٹھی۔ پھر بادشاہ گربنی اور
بالآخر فاتح قرار پائی۔ مصری میڈیا کا کردار بھی افسوس ناک رہا۔ وہ ڈالروں
کے بدلے دور مبارک کی باقیات کا غلام بن بیٹھا اور انہی کا بھونپو بن کر
مرسی حکومت کے خلاف زہر اگلنے لگا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ جب مصری فوج نے
اقتدار سنبھالا، تو اسرائیلی حکومت عالمی سطح پہ اس کی بڑی طرف دار بن کر
نمودار ہوئی۔ دراصل وہ خوب جانتی ہے کہ مصر میں عوامی حکومت طاقت ور ہوگئی،
تو وہ کبھی اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم وستم نہیں کرنے دے گی۔ اسی لیے
امریکہ میں طاقتور یہودی طبقے نے امریکی حکومت پہ زور ڈالا کہ وہ مصری فوج
کی امداد (ڈیڑھ ارب ڈالر) نہ روکے اور اسلحہ دینا جاری رکھے …وہ ٹینک اور
بکتر بند گاڑیاں جو مصری فوج نے اپنے ہی عوام پر چڑھا ڈالیں۔ مصری فوج نے
اگست کے اواخر تک قاہرہ میں جمہوریت کے ہزاروں حامی مرد،عورتیں اور جوان
بھیانک انداز میں قتل کرڈالے۔ صد افسوس کہ یہ کھلا ظلم دیکھ کر عالم اسلام
میں ترک وزیراعظم کے علاوہ کسی حکمران کا دل نہیں پسیجا۔وہ لیفٹسٹ رہنما
بھی خاموش رہے جو ویسے آزادی پسندوں ، مجبوروں اور عوامی حقوق کے چیمپئن
بنے پھرتے ہیں۔ بندہ ٔ بشر ہونے کے ناتے ممکن ہے کہ صدر محمد مرسی سے
غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں۔ لیکن متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس عوامی
رہنما کو درج ذیل جواعزاز ملے، وہ اب تک دوسرا عرب لیڈر قائم نہیں کرسکا :
1۔ دنیائے عرب میں عوام کے منتخب کردہ پہلے صدر۔ 2۔ عرب دنیا کے پہلے شہری
صدر ۔ 3۔ پہلے عرب صدر جو حافظ قرآن ہیں۔ 4۔ عربوں کے پہلے صدر جن کا تعلق
اسلامی جماعت سے رہا۔ 5۔ دنیائے عرب کے پہلے حکمران جنہوں نے عوام کوآزادی
ِرائے اورخود پہ تنقید کرنے کی اجازت دی۔ تیس سے زائد مصری ٹی وی چینل دن
رات ان کی تضحیک کرنے میں جتے رہے۔ 6۔ پہلے عرب صدر جنہوں نے اپنی سابقہ
جیل کے گارڈوں سے ہاتھ ملایا۔ 7۔عربوں کے پہلے صدر جنہوں نے سرکاری عمارات
پر اپنی تصویر آویزاں کرنے سے منع کردیا۔ 8۔ دنیائے عرب کے پہلے صدر جو
کرائے کے مکان میں رہائش پذیر اور عام مصریوں کے مانند اپنی تنخواہ سے گھر
کا خرچ چلاتے رہے۔ 9۔ پہلے عرب صدر جو اپنے خرچ پہ خاندان کو چھٹیوں میں
سیروتفریح کرانے لے کر گئے۔ تاریخ ہی فیصلہ کرے گی کہ صدر محمد مرسی صحیح
تھے یا غلط! مگر ایک امر ضرور عیاں ہے …وہ حکمران کی شکل میں ایسے چور
وڈاکو نہیں تھے جو قومی خزانہ لوٹتے، عوام کے خون پسینے کی کمائی اپنی
جیبوں میں ڈال لیتے ،محلّات تعمیر کرتے اور آسائشوں بھری زندگی گذارتے ہیں،
اسی ندرت کے باعث ان کی جان کوخطرات بھی لاحق ہیں۔بعید نہیں،حکمران طبقہ
انھیں شہید کر کے مشہور کردے،صدر مرسی نے خودکشی کر لی۔اس وقت مصر میں
سچائی گنگ…مجسمہِ حیرانی بنی پامردی سے قیدکی صعوبتیں سہہ رہی ہے۔جبکہ جھوٹ
خوشی کے مارے برہنہ ناچ رہا ہے۔بروز بدھ مصری عدالت نے فرعون ِوقت،حسنی
مبارک کو رہا کرنے کا حکم دیا تو یقیناً حکمران طبقہ عالمِ مسّرت میں
’’الفتح ،الفتح‘‘چلا اٹھا ہو گا۔مرسی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے والے انجان
مصریوں کو بتدریج احساس ہو گا کہ باقیاتِ مبارک نے انھیں کیونکر الُو بنایا
اور اپنے مذموم مقاصد پانے کی خاطر استعمال کیا۔حالات دیکھ کر تو یہی لگتا
ہے کہ مصری عوام اپنی بے وقوفی کے باعث دوبارہ استحصالی حکمران طبقے کے
خونخوار پنجوں میں جکڑے جا چکے…وہ طبقہ جو خود تو ہر روز دعوت ِ شیراز
اڑاتا ہے اور عوام مجبور ہیں کہ اچار چٹنی سے پیٹ بھر لیں۔پھر عین ممکن ہے
کہ جن اخوانی نوجوانوں کے ماں باپ اور بہن بھائی سرکاری قتل عام میں مر
مٹے،وہ مانند الجزائر ،مصری حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے لگیں۔یوں
ایک اور اسلامی مملکت خوفناک خانہ جنگی کا نشانہ بن جائے گی۔ ٭ |