حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد پاک کا
مفہوم ہے ''تمام امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے ایک حصہ میں
کوئی تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے ''لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ
پوری دنیا میں مسلمان ممالک پر ایک ایک کر کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے
ہیں لیکن دوسرے ممالک کبوتر کی مانند آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں بات کو آگے
بڑھانے سے پہلے میں آپ کو اس تنظیم کا تعارف کرواتا ہوں جوآج سے تقریباََ
پینتالیس برس قبل مسلمانوں کے دفاع کا جذبہ لے کر اٹھی تھی لیکن آج جب امت
مسلمہ بدترین مسائل و مصائب کا شکار ہے ایسے میں یہ تنظیم مجرمانہ خاموشی
اختیار کئے ہوئے ہے۔ او آئی سی organization of islamic conference))اسلامی
دنیا کی نمائندہ تنظیم کہلاتی ہے اس تنظیم کے قیام کی بڑی وجہ 1967ء کی عرب
اسرائیل جنگ اور1969ء میں جنونی یہودیوں کی جانب سے مسجداقصیٰ کو آگ لگانے
کا واقعہ بناچنانچہ22ستمبر 1969ء کو مراکش کے دارلحکومت رباط میں مسلم
سربراہان نے او آئی سی کی باقاعدہ بنیاد رکھی اس تنظیم کے پانچ بڑے مقاصد
طے کئے گئے (1)مسلم امہ کا تحاد(2)اسلام کا دفاع(3)اقوام متحدہ کے چارٹر پر
عملدرآمد(4)مسلم امہ کی آزادی اور دوسری اقوام سے مسلمانون کا دفاع(5)دنیا
میں امن و امان کے قیام کیلئے کوشش کرنا۔اس دلکش منشور کے ساتھ شروعات کرنے
والی تنظیم کو آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو صورت حال انتہائی مضحکہ
خیز نظر آتی ہے اور یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے
نام پر بننے والی اس تنظیم پر بھی انہی یہود و نصاریٰ کے ایجنٹوں کا قبضہ
ہے جن سے مسلمانوں کو بچانے کیلئے یہ تنظیم کھڑی کی گئی تھی (اناﷲ واناالیہ
راجعون)بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا کہ اس نام نہاد اسلامی
سربراہ تنظیم نے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ماضی میں اوآئی
سی کی غیر فعالیت بلکہ بے حسی کی اگرچہ کئی مثالیں موجود ہیں مثلاََروس کے
افغانستان پر حملے،مسئلہ کشمیر،فلسطین،بوسنیا کے لاکھوں مسلمانوں کی
میلازوچ کے ہاتھوں شہادت،ایران عراق جنگ،اور امریکہ کی جانب سے توئن ٹاورز
کی تباہی کے بعد پاگل سانڈھ کی طرح اسلامی دنیا کے خلاف war against
terrorismجو کہ درحقیقتwar against islam ہے شروع کرنا اور اس پر آو آئی سی
کا صمم بکم رہنا صاف چغلی کھارہا ہے کہ اوآئی سی میں اسلام کے دفاع کے نام
پر ایسے افراد براجمان ہیں جن کا اس مشن سے کوئی دوردور کا بھی تعلق نہیں
ہے ۔او آئی سی کی منافقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ جس وقت امریکہ
اورمغربی قوتیں صومالیہ،فلسطین،ترکی اور مصر میں جمہوریت کے ذریعے منتخب
حکومتوں کا تختہ الٹنے میں صرف اس لئے مصروف تھا کہ برسرِاقتدار آنیوالی
قوتیں اسلام پسند تھیں تو بھی اوآئی سی نے اس پرکوئی ایکشن لینا تو دور کی
بات صدائے احتجاج تک بلند نہیں کی۔مصر کی تازہ صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ
وہاں پر ایک طویل آمریت قائم رہی فوج نے عملاََ پورے ملک کو اپنا غلام
بنائے رکھا ملک کی ستر فیصد اکانومی پر فوج کا قبضہ تھاوہ آزادی اظہاررائے
جس کا امریکہ پوری دنیا میں ڈھنڈورہ پیٹتا ہے مصر میں بالکل مفقود تھی لیکن
امریکی منافقت دیکھیے کہ امریکہ اس آمریت کو باقاعدہ سپورٹ کرتا رہا لیکن
چالیس سال کے بعد جب مصر میں پہلی بار جمہوریت نے قدم رکھا اور مصر کی ایک
انتہائی پرامن تحریک اخوان المسلمین برسرِ اقتدار آئی تو اس پر امریکہ ا ور
اس کے حواریوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے وجہ صرف یہی تھی کہ اخوان
المسلمین اور ڈاکٹر مرسی نے یہودونصاریٰ کی بجائے مصری عوام کے مفادات کے
تحفظ کا اعلان کیا تھا ،اس نے امریکہ کو قبلہ و کعبہ کہنے کی بجائے
محمدعربی ﷺ کی غلامی اور اسلام کو اپنا آئیڈیل قراردیا تھا ۔اس نے اسرائیل
کے ساتھ ملکی مفاد کے خلاف کئے جانے والے معاہدوں پر نظرثانی ،مظلوم
فلسطینیوں کی حمائت اور امریکہ کے وفادار فوجیوں کے احتساب کا اعلان کیا
تھا ۔بلاشبہ یہ امریکہ اور اس کے بغل بچہ اسرائیل کیلئے ناقابل معافی جرائم
تھے جس کی سزا بھی اخوان المسلمین اور اس کو منتخب کرنیوالی عوام کو بھگتنا
تھی چنانچہ سب سے پہلے حسب روائت امریکہ نے اپنے طریقہ واردات کے تحت حکومت
مخالف مظاہرے کروائے ،صدر مرسی کو ظالم ،انتہاپسند اور نااہل حکمران دلایا
گیا اور آخر میں امن و امان کی خراب صورتحال کو جواز بنا کر اپنے پٹھو
السیسی کے ذریعے ڈاکٹر مرسی کا تختہ الٹ کر اسے نظربند کردیا گیا لیکن مصری
عوام جنہوں نے پہلی بار ڈاکٹر مرسی کی صورت میں ایک نجات دہندہ دیکھا تھا
جو مصر کو ایک بار پھر اسلام کا گہوارہ بنا سکتا تھا یہ کیسے گوارہ کرسکتے
تھے چنانچہ پورا مصر سڑکوں پر امڈ آیا دوسری جانب مصری فوج کی جانب سے اپنے
ہی عوام پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوگیا اور آئے روز مصری عوام اپنی ہی فوج
کے ہاتھوں شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے رہے لگتا ہے مصری فوج میں فرعون کی
روح عود کرآئی ہے جس نے پہلے نماز فجر کے دوران اندھادھند فائرنگ کرکے
سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کردیا اور 14اگست کو تو اس نے رابعہ العدویہ کے
میدان میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا کرظلم و ستم کی وہ داستان رقم کی جس
پر پتھر بھی رو رہے ہیں لیکن ایٹمی پاکستان سمیت بے حس مسلم دنیا میں سوائے
رجب طیب اردگان کے کوئی موثرآواز سننے میں نہیں آئی جنہوں نے بجا طور پر اس
قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو قراردیا ہے ۔دوسری طرف سلام ہے مصری عوام اور
خصوصاََ اخوان المسلمین پر جنہوں نے اس تاریخی ظلم وستم اور اپنے مرشدعام
داکٹر بدیع کی گرفتاری کے باوجود السیسی کی ظالمانہ حکومت کے سامنے گھٹنے
ٹیکنے سے انکارکردیا ہے انشااﷲ جلد ہی اﷲ کی مدد سے مصری عوام کی یہ تحریک
کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور مصر،مسلمانوں اور اسلام کے دشمن بے نام و نشان
اور نامراد ٹھہریں گے کیوں کہ حق اور باطل کے معرکے میں آخری فتح ہمیشہ حق
کی ہی ہوتی ہے۔آخر میں سب سے گزارش ہے کہ کم ازکم اپنی دعاؤں میں مصر کے
مظلوم مسلمانوں کو ضروریادرکھیں اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ |