درندگی کی انتہا،وحشیانہ تشدد
اور بربریت کی نئی تاریخ رقم ہوئی، تاریخ میں ایک اور فرعون جس نے ہزاروں
معصوم بچوں اور نوجوانو کو شہید کر دیا۔امت مسلمہ میں نئے ابھرنے والی
اسلامی حکومت صلیبی قوتوں کو کھٹک رہی تھی۔ محمد مرسی نے اقتدار سنبھالا تو
دنیائے کفار خصوصاًاسرائیل کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی، اس لمحے اسرائیل نے یہ
بیان داغا کہ اخوان المسلمون اقتدار میں آ تو گئی ، مگر زیادہ دیر رہ نہ
سکے گی، اسی کی کڑی میں اسرائیل اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرم ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے جب قوت پکڑی تو اس کے اندر ہی سے میرجعفر اور
میرصادق پیدا ہوئے جنہوں اپنی ہی پلیٹ میں چھید کیا،ٹیپو سلطان جیسے بہادر
سپہ سالاروں کا قتل کیا،مسلمانوں کوامام تیمیہؒ،صلاح الدین ایوبیؒ،محمد بن
قاسمؒ اور غوری غزنویؒ جیسے سینکڑوں سپہ سالار ملے جنہوں نے دنیا پر اپنی
حکومتیں قائم کی،ان کی سلطنت پر ہر انسان کوبرابر کے حقوق تھے ، انصاف تھا
،امن اور خوشحالی تھی۔صلیبی قوتوں اور کفار کو ان کی حکومتیں کبھی ہضم نہیں
ہوئیں ۔مصر میں تاریخ نے ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرایا میرجعفر کی شکل میں
ایک فرعون ثانی نے مصری شہریوں پر ظلم کی انتہا کر دی ان کا جرم کیا تھایہی
کہ وہ اپنے حق کے لیے پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے ،آخر انہوں نے ایسا
کیا کر دیا تھا کہ ان پر ٹینکوں اور فضائی حملوں کے ذریعے بربریت کی نئی
تاریخ رقم کی۔اخوان المسلمون جس کے قائدین کی ایک بڑی تعداد طویل مدت تک
پابند سلاسل رہی ،قید کے دوران ہی وحشیانہ تشدد سے ان کی شہادتیں ہوئیں ،مگر
انہوں نے کبھی بھی تشدد کا رستہ نہ اپنایا،حال میں بھی جب ان پر ظلم کے
پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو اخوان المسلمون کے قائدین کارکنوں کو یہی ہدایات
جاری کرتے رہے کہ ظلم سہہ لینا مگر تشدد کا رستہ نہ اپنانا، صبر کا دامن
تھامے رکھنا ،مگر فرعون ثانی جنرل السیسی کے سر پر خون سوارتھا اور صلیبی
قوتوں کے جانب سے آنے والا پیسہ بول رہا تھا۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ اس
موقع پر امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی کھڑی ہے صرف دو ممالک پاکستان اور
ترکی نے کھل کر مصر ی عوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔بعض
اسلامی ممالک نے مصر حکومت کی حمایت کر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس
پہنچائی ۔طیب اردگان رات دن ایک کیے ہوئے مصری عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔وہ
مرد مجاہد اکیلا کھڑا امریکہ،اسرائیل کو للکارا رہاہے ،ترکش عوام بھی طیب
اردگان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔مصر پر ہونے والے ظلم پر لکھا جا رہا ہے
آئندہ بھی لکھا جائے گا میں آج قارئین کے نظر ایک خط کرنا چاہتا ہوں۔گذشتہ
روز ایک روزنامہ میں شائع ہوا اور شوشل میڈیا میں اس خط نے امت مسلمہ کے
دلوں کو گرمانے کے ساتھ ساتھ انتہائی افسردہ بھی کیا۔ اخوان المسلمون کے
رہنما نے اپنی شہید بیٹی کے نام لکھا ۔محمد البلتاجی اخوان المسلمون کے
3مرکزی رہنماؤں میں سے ہیں،اخوان کے جن مرکزی رہنماؤں نے احتجاجی دھرنوں
اور مظاہروں کی قیادت کی ان میں محمد البلتا جی کا نام سرفہرست ہے۔مصری فوج
نے میدان رابعہ العدویہ میں احتجاجی کیمپ پر وحشیانہ آپریشن کرتے ہوئے
اخوانیوں کا قتل عام کیا جس میں محمد البلتا جی کی 17سالہ بیٹی اسماء
البلتا جی بھی شہید ہوئیں، مصری فوج کے اسنائپر شوٹر نے باقاعدہ نشانہ
باندھ کر اسماء کو شہید کیا جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔یہ خط
ایک پرعزم اور انقلابی باپ کے دل کی آواز ہے ۔اس خط نے اخوانیوں کے حوصلے
میں اضافہ کیا ۔
جان سے پیاری بیٹی اور میری عظیم استانی شہید اسماء بلتاجی!
میں تمہیں آج خدا حافظ نہیں کہوں گا کیوں کہ ہم جلد ملنے والے ہیں۔بہت
جلد،عزیزاز جان!بہت جلد۔۔۔۔۔ میری جان تم نے سعادت اور وقار والی زندگی
گزاری ہے ۔باطل قوتوں کے خلاف بغاوت اور آزادی سے لگاؤ رکھنے والی زندگی
۔۔۔تم ہمیشہ پر اسرار انداز میں قوم کے لیے تہذیبوں کے بیچ ایسی نئی راہوں
کی تلاش میں رہیں جو اس قوم کی تعمیر نو میں مدد دے سکیں۔تم کبھی بھی ان
جذبات سے مغلوب نہیں ہوئیں جو تمہاری عمر میں نوجوانوں کو درپیش ہوتے
ہیں۔اگر چہ روایتی تعلیم تمہاری دلچسپی اور خواہشات کی تسکین کے لیے کافی
نہیں تھی لیکن پھر بھی تم اپنی کلاس میں اول پوزیشن حاصل کرتی رہیں۔۔۔میر ی
جان !تنظیمی مصروفیات نے مجھے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ میں تمہارے ساتھ
وقت گزار کر زندگی کا لطف اٹھاتا ۔تمہیں یاد ہو گا کہ آخری بار جب میدان
رابعہ العدویہ میں ہم ساتھ بیٹھے تھے،تو تم نے شکوہ کیا تھا کہــ’’اباجانی‘‘
آپ ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔اس پر میں نے تم سے کہا
تھا کہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار کر زندگی کا لطف لینے کے لیے یہ زندگی
شاید ناکافی ہے ۔لیکن میں اﷲ کی ذات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم جنت میں ساتھ
ہوں گے۔
میری بچی !تمہاری شہادت سے صرف دو دن قبل ہی میں نے تمہیں خواب میں دیکھا
تھا۔تم سفید عروسی لباس زیب تن کیا ہوا تھا ۔تم انتہائی خوب صورت لگ رہی
تھیں ۔میں نے پیار سے پوچھا۔۔کیا آج تمہاری شادی کی رات ہے؟ تم نے جواب
دیا۔۔۔نہیں ۔۔میری شادی رات میں نہیں،دوپہر کے وقت ہو گی ۔جب مجھے خبر ملی
کہ بدھ کی سہ پہر تمہیں شہید کر دیا گیا ہے ،تو مجھے احساس ہوا کہ خواب میں
تم نے مجھے کچھ بتایا تھا۔مجھے یقین ہے کہ اﷲ نے تمہاری شہادت قبول کر لی
ہے۔تمہاری شہادت سے میرے اس عزم و گمان میں مزید اضافہ ہوا کہ ہم حق پر ہیں
اور ہمارا دشمن باطل پر۔ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہاری تجہیز و
تکفین میں شرکت نہیں کر سکا اور نہ ہی تمہاری پیشانی پر پیار بھرا بوسہ دے
سکا۔میں تمہاری نماز جنازہ بھی نہیں پڑھا سکا لیکن بیٹا جانی !میں اپنے رب
کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے اپنی جان کی پروا نہیں تھی اور نہ کسی
ظالمانہ قید کا خوف تھا ۔میں تو بس یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ تم نے اپنی
جان ایک انقلاب اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے قربان کی ہے۔ان غداروں کے
مقابلے میں تمہاری روح بہت بلندی پر فائز ہو چکی ہے۔کسی غدار کی گولی
تمہارا سینہ چیر چکی ہے۔کیا ہی پرعزم اور پاکیزہ روح تم نے پائی ہے۔مجھے
یقین ہے کہ اﷲ نے اس مقام کے لیے تمہارا انتخاب اس لیے کیا کہ تم اس رب کے
ساتھ مخلص تھیں۔عزیزجان دخترمیں آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ میں نے تمہیں
خدا حافظ نہیں کہوں گا بل کہ تمہیں خوش خبری دینی ہے کہ ہم بہت جلد ملنے
والے ہیں۔بہت ہی جلد ۔۔ہم اپنے محبوب پیغمبر اور اس کے اصحابؓ کے ساتھ جنت
میں اکٹھے ہونے والے ہیں۔جہاں ہماری ایک دوسرے کے ساتھ اور باقی پیاروں کے
ساتھ وقت گذارنے کی خواہش پوری ہونے کو ہے۔
یہ تھا ایک پرعزم اور انقلابی باپ کا خط جس نے امت مسلمہ کے والدین کو
پیغام دیا کہ انقلاب خون مانگتا ہے ۔اپنا خون ،اولاد کا خون۔ ہمیں اس وقت
البلتا جی جیسے عظیم لیڈروں کی ضرورت ہے امت مسلمہ کو ایسے لیڈر میسر رہے
تو انشاء اﷲ ہم جلد امن اور خوشخالی کی زندگی گزاریں گے ۔
اس وقت مصری عوام کو دعاؤں کی اشد ضرورت ہے اپنے رب کے حضور نوافل ادا کریں
اوراﷲ رب العزت سے گڑ گڑاکر دعا کیجیے ۔اﷲ تعالی ہمارے حال پر رحم کر مگر
جب بھی کہتا ہوں اے اﷲ میرے حال دیکھ
تو حکم ہوتا ہے بندے پہلے اپنا نامہ اعمال دیکھ |