وزیر اعظم کا خطاب عوام کا عتماد

آخر کار ایک طویل انتظار کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کیا اس خطاب کی بہت سی اہم اور مثبت باتیں سامنے آئی ان کے خطاب کی جو سب سے مثبت بات نظر آئی وہ ان کا روایتی تقریر کے بجائے تبصراتی طور پر عوام کو اعتماد میں لینا بھی ہے وزیراعظم نے عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ وقت آ گیا ہے ہم یہ اعتراف کریں کہ ہمارے انتظامی اداروں، ایجنسیوں اور سزا و جزا کے نظام نے خود کو دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے عہدہ برا ہونے کا اہل ثابت نہیں کیا ہے وزیراعظم کے مطابق قوم آج یہ سوال کرنے میں یقیناً حق بجانب ہے کہ ان سالوں میں ملک کے طول و عرض میں جاری اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے گئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ متعلقہ اداروں پر طاری جمود کی کیفیت کو ختم کیے بغیر بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں ہے شدت پسندی کے واقعات کی تحقیقات اور اس ضمن میں عدالتی کارروائی پر بات کرتے ہوئے کہااگر ان واقعات میں ملوث مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں تو انہیں گرفت میں لانے والے خوف کا شکار دکھائی دیتے ہیں گرفت کے بعد تفتیش کے مرحلے میں مطلوبہ پیشہ وارانہ مہارت، لگن اور دلچسپی کو بروئے کار نہیں لایا جاتا ہے اور جب معاملہ قانون کے سامنے پیش ہوتا ہے تو عدالتی افسر ایسے مقدمات سننے سے گریزاں نظر آتے ہیں اور گواہوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے وزیرِاعظم نے عام انتخاب کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو ملکی مسائل کے حل کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہامصالحت اور افہام و تفہیم کی میری یہ پیشکش صرف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے لیے نہیں بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر ان عناصر کو بھی بات چیت کی دعوت دیتا ہوں جو بدقسمتی سے انتہا پسندی کی راہ اپنا چکے ہیں جو کہ بہت ہی مثبت قدم ہے کیونکہ یہ لوگ ہمارے ہی خون سے ہیں اور اگر یہ راہ سے بھٹک گئے ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کو سیدھی راہ کی جانب لانے کے لئے ان کو ایک موقع ضرور دیں یقینا وزیر اعظم کی اس بات سے ان شدت پسندوں کو اچھا پیغام جائے گا جو اغیار کے اشاروں پر اپنے وطن کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ان کا مذید کہنا تھا کہ حکومت کے پاس دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک سے زائد راستے موجود ہیں مگر دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں مزید معصوم انسانی جانیں ضائع نہ ہوں شدت پسندی کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہامیں ہر پاکستانی کی طرح آگ اور خون کے اس کھیل کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتا ہوں چاہے یہ خاتمہ افہام و تفہیم کی میز پر بیٹھ کر ہو یا پھر بھرپور ریاستی قوت کے استعمال سے ہو اور پاکستان کے تمام ادارے کسی تقسیم اور تفریق کے بغیر اس قومی مقصد پر یکسو ہیں خارجہ پالیسی ہمیشہ سے پاکستان کا اہم مسئلہ رہا ہے جس پر وزیر اعظم کا کچھ یوں کہنا تھا خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے پاکستان کی سلامتی کو درپیش مسائل اور دیگر قومی مسائل خارجہ پالیسی سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر بھی غور کرنا ہو گا کہ ہم نے اب تک اپنی خارجہ پالیسی سے کیا کھویا اور کیا پایا بلاشبہ ہماری خارجہ پالیسی جرات مندانہ نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے اور اس نظرثانی کے بغیر ہم اپنے قومی وسائل پاکستان کے غریب عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف نہیں کر سکتے ہیں وزیراعظم نواز شریف نے پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو غربت جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگادونوں ملکوں کی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے اور دونوں کی قیادت کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ ماضی کی جنگوں نے ہمیں برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے دنیا بھر کی تاریخ نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات میں مضمر ہے یہی سبب ہے کہ ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہشمند ہیں افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہاافغانستان کے حوالے سے بھی نئے سرے سے غور کرنا ہوگا ہمیں ایک ایسی حکمت عملی بنانا ہو گی جس سے پاکستان کو دنیا بھر میں ایک نئے تابناک چہرے کے ساتھ پہچانا جائے وزیرِاعظم کا یہ خطاب ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان مختلف جہتوں اور سمتوں سے بعض سنگین بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ان بحرانوں میں جن میں سر فہرست بجلی کا بحران ،دہشت گردی ،ڈرون حملے سیلاب اور دیگر معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ قرضوں کی صورتحال ملک کی اندرونی سلامتی کی صورتحال اور دوسری جانب کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت سے کشیدگی ان وعدوں کے پورا ہونے کی راہ میں بڑی مشکلات بن کر ابھری ہیں جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران لوگوں سے کیے تھے اسی لئے اب یہ صیح وقت تھا کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے ان کے مسائل اور ملک کو درپیش بحرانوں پر قوم کو اعتماد میں لیں کیونکہ وزیر اعظم بننے کے بعد عوام اس بات کا شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ وہ قوم کو اپنے آئیندہ کے لاحہ عمل کے بارے میں آگاہ کریں بلا شبہ وزیر اعظم کے اس طرح قوم سے خطاب کرنے سے عوامی اعتماد کو بڑھانے اور مشکلات سے مقابلہ کرنے کا جزبہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو مختلف ایشوز پر ساتھ لیکر چلنے اور ملک کو درپیش خطرناک ترین بحرانوں جن میں سر فہرست بجلی کا بحران ،دہشت گردی ،ڈرون حملے سیلاب اور دیگر معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ قرضوں کی صورتحال پر اگاہ کرنے اور اعتماد میں لینے سے عوام میں مثبت تاثر پیدا ہو گا ضرورت اس امر کی ہے وزیر اعظم قوم سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کیے گئے اعلانات پر عملدرامد کو یقینی بنائیں تاکہ مشکلات اور بحرانوں کی شکار اس قوم کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227252 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More