تاتار یوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے
زوال کا قصہ کوئی بہت پرانا، نرم خو اور کوئی من گھڑت کہانی نہیں کہ مسلمان
قوم اسے بھول جائے اگر بھول بھی گئی ہے تو چاہیے کہ حوش کرے ،اب بھی اگر
کسی لائیبریری میں تاریخ کی کتابوں کو کھولا جائے تو ان سے خون ٹپکتا ہے
اور سسکیوں کی آوازیں کانوں میں سنائی دیتی ہیں ایسی خوفناک قسم کی تباہی
اور قتلِ عام کہ جس میں نہ کسی عورت ذات کی عزت و عصمت اورکسی بچے کی
معصومیت کا لحاظ نہ کسی بزرگ کے سفید بالوں کا پاس اور حیاء وقت کے ولی اﷲ
فرید الدین عطارؒ کی داڑھی کے بال پکڑ کر یوں کھینچے گئے کہ بال جسم سے الگ
ہو گئے اور خون بہنے لگاپھر وہ اپنے اصحاب کے ساتھ قتل کر دیے گئے خوف و
حراس کے لئے مسلمانوں کے سر قلم کر کے منار بنایا کرتے تھے روایات میں آتا
ہے کہ تین دن دریا دجلہ خون سے بہتا رہا ،اس لشکر کشی اور ظلم وستم کے
بعدہلاکوخان کی بیٹی نے علاقے کا دورہ کیا اور مسلمان علماء کو بلوایا اور
کہا کہ تمھارے اﷲ نے ہمیں تم پر عزت دی ہے اور تمیں رسوا کیا ہے، تو عالم
نے کہا آپ نے ٹھیک کہا لیکن کبھی آپ نے کسی گڈریے کو ریوڑ چراتے دیکھا ہے؟
تو ہلاکو خان کی بیٹی نے کہا دیکھا ہے ،تو عالم نے کہا ریوڑ میں کتا بھی
دیکھاہو گا؟ اس نے کہا دیکھا ہے ،عالم نے کہا اگر کوئی بکری ریوڑ سے الگ
ہوتی ہے مالک سے بغاوت کرتی ہے تو گڈریا(مالک) کیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ
آواز دیے کر بلائے گا ،عالم نے کہا اگر بکری نہ آئے تو؟ تب اس نے کہا کہ
چھڑی مار کر لائے گا، عالم نے کہا پھر بھی سرکش رہے تو ؟ تب ہلاکو خان کی
بیٹی نے غصے میں آکر کہا کہ پھر اس پر کتا چھوڑ دے گا یہاں تک کہ وہ واپس آ
جائے یا اسے ہلاک کر دے ،تب مسلمانوں کے عالم نے کہا بس بی بی ہم نے بھی
اپنے مالک سے سرکشی اختیار کر لی تھی اور اس کی آواز پر ہم نہ لوٹے تب
ہمارے خالق و مالک اﷲ نے ہم پر بھی اپنے کتے چھوڑ دیئے تا کہ ہمیں ہماری
سرکشی کی سزا دے اور ہم واپس اپنے مالک کی طرف رجوع کر لیں اپنے مالک کے
ریوڑ میں شامل ہو کر تابیداری اختیار کریں اسی میں ہماری بقا ہے بس بی بی
اب ہمیں حوش آگئی ہے ۔
یہ اک ایسی داستان ہے جو مجھے مصر اور شام کے حالات کل فیس بک سوشل میڈیا
پر شام کے اک ٹی وی چینل کی جاری کردہ ویڈیو دیکھ کر یاد آ گیا اس ویڈیو
میں دیکھایا گیا کہ شامی فوج کی طرف سے کیمیکل اور زہریلی گیس کے بمبوں سے
کیا بچے کیا بڑے ، کیا عورتیں کیا بزرگ تڑپ تڑپ کر موت کے گھاٹ میں اترتے
جا رہے ہیں جیسے پانی کے تالاب سے مچھلیاں نکال کر خشکی پر چھوڑنے سے تڑپتی
ہیں، ہلاکوخان کے فوجی تو تلوار سے اک دم زندگی کے چراغ گل کر دیتے تھے
لیکن شام میں تو زہریلی گیسوں سے لوگوں اور خاص طور پر بچوں کی سانس کی
نالیوں میں سوجن اور انفیکشن سے سانس بند ہو کر تڑپ تڑپ کر جان کی بازی
ہارتے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو نے لگا ،شام میں کیمیکل اور زہریلی گیسوں
کے بمبوں سے اموات کی شرح اس قدر بڑ ھ چکی ہے کہ ہسپتالوں میں کیا ہسپتالوں
کے صحن اور باہر روڈز پر جگہ نہیں، ہلاکوخان کی فوج سر قلم کر کے منار
بناتی تھی آج شام میں پورے شہر اور خصوصاََ ہسپتالوں میں لاشوں کے ڈھیر لگے
ہوئے ہیں میرے آنسو اس وقت بے اختیار بہنے لگے جب ساتھ خبر چل رہی تھی کہ
وہاں کی لاشوں کو کفن دفن کرنے والی اک تنظیم نے حکومت سے اپیل کی کہ اب بس
کر دیں ملک میں کفن دینے کو کپڑا ختم ہوگیا ہے ہم کیسے لاشوں کو بغیر کفن
کے دفن کر دیں۔
اس سارے فتنے کے پیچھے کیامحرکات ہیں اﷲ بہتر جانتا ہے لیکن محرکات جو بھی
ہوں مجھے ہلاکوخان کی بیٹی کو عالم کا دیا ہوا جواب یاد آگیا شائد وہی اس
کا محرک ہو کہ آج ہم مسلمان بس نام کے مسلمان تو ہیں لیکن مسلمان کی کوئی
صفت اور ایمان کی رتی خوردبین لگا کر ڈونڈنی پڑتی ہے
علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام ِ محمدﷺ کا تمھیں پاس نہیں
یعنی کہ ہم نے دین کو اپنی مرضی سے چلایا حالانکہ ہمیں خود دین کی مرضی کے
مطابق چلنا ہے اور اسی میں بقا ہے یہی پیغامِ آقاءِ دوجہاں اور اﷲ کا پیغام
ہے-
سیانے کہتے ہیں جب ساتھ کے علاقے میں کسی شر، فتنے اور بیماری کی وباء
پھیلے تو اپنا خصمانہ کر لینا چاہیے پاکستان میں حالت وہ ہے کہ اﷲ پاک اُس
گڈریے کی طرح ابھی صرف سیلاب ، نااہل حکمران اور آئے روز نئے نئے فتنوں میں
ڈال کر ہمیں آواز دے کر بلا رہا ہے کہ باز آ جاؤ کہاں باغی ہو رہے ہواور اس
پر ستم یہ کہ احساس مر چکا ہے جو بہت متفکر بات ہے۔
علامہ اقبال ؒ دعاء مانگ ہیں کہ
احساس عنائت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہِ فردا دے
اس سے پہلے کہ پاکستان میں اﷲ کا عذاب آن پڑے اپنے آپ کو دینِ محمدیﷺ کے
تابع کر لیں ورنہ وباء ہم کو بھی ہلاکت میں ڈال سکتی ہے اﷲ پاک ہم پر بھی
اپنے کتوں کو مسلت کر سکتا ہے۔ |