”فرعونِ وقت “ کے مدد گار مسلم حکمران؟

عالم اسلام اس وقت بدترین حالات سے دوچار ہے۔ مصر و شام کے مسلمان اپنے ہی خون سے نہارہے ہیں جو اسلحہ دشمن کے خلاف استعمال کیا جانا چاہئے تھا وہ اپنے ہی خلاف استعمال ہورہا ہے ’’عرب بہار‘‘ ۔ ’’عرب خزاں‘‘ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ مصر میں جنرل السیسی خود کو فرعون سے بڑا ظالم و ملعون ثابت کررہا ہے جبکہ شام میں بشارالاسد کے مظالم کا حال اگر یزید کو معلوم ہوتو وہ بھی شرما کے رہ جائے گا۔ اس کالم نویس نے اپنے 25جولائی کے کالم کی سرخی لگائی تھی ’’مصر میں فرعون لوٹ آئے‘‘ہمیں کیا پتہ تھا کہ لوٹ آنے والے فرعون بدنام زمانہ فرعون (رعمسیس) سے بھی زیادہ خطرناک اور بھیانک ثابت ہوگا۔ مصر و شام کی خوں ریزی میں دو اہم اسلامی ملک و سعودی عرب و ایران کی ’’فرعون وقت‘‘ اور ’’یزید وقت‘‘ کو اخلاقی و عملی مدد باالراست نہ صرف نہایت ہی حیرت انگیز بلکہ از حد افسوس ناک ہے۔ ’’فرعون وقت ‘‘ کی تائید و حمایت تو سعودی عرب امریکہ کی فرماں برداری و تابعداری میں کررہا ہے لیکن ایران ’’یزد وقت‘‘ کی حمایت کس خوشی میں؟ کس لئے کیوں کررہا ہے؟ یہ ناقابل فہم ہے اور تو اور لبنان کی حزب اﷲ کے سربراہ حسن نصر اﷲ بھی اسرائیل سے جہاد چھوڑ چھاڑ کر بشارالاسد کی امداد کے لئے کمربستہ ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج حماس اور اخوان کے خلاف جنرل السیسی کی مدد کرنے میں سعودی عرب اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے ۔ عہد حاضر کے عظیم مجاہدین کا گروہ یعنی حماس بہ یک وقت اسرائیل اور مصر کے مظالم سہہ رہاہے ۔ ایک طرف یہ ثابت ہوچکا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے (غالباً سعودی عرب کی مرضی سے) جنرل عبدالفتاح السیسی کو کروڑوں ڈالر کی رشوت بغاوت کی ترغیب کے لئے دی تھی اور کس طرح متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب مصر کی اسلامی دشمن حکومت کو اسلام دشمنی کے لئے بطور انعام امداد کے بہانے دے کر اسرائیل کے ہمدردوں کی طاقت بڑھا رہے ہیں۔ مصر کی ویب سائٹ نشوان نیوز کے مطابق مصر کی عبوری (دراصل باغی فوجی) حکومت کا اسرائیل سے مجرمانہ گھۃ جوڑ اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کے سربراہ نے تک اعتراف کرلیا ہے کہ مصر کے باغی غداروں کو اسرائیل کی مدد تعاون حاصل ہے۔ اسرائیل کے ابہود باراک نے صیہونیوں کو جنرل السیسی سے تعاون کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ ساری کہانی یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور ساری اسلام دشمن دنیا اسرائیل کی مشاورت و تعاون سے اخوان کی قوت ختم کرنے بلکہ اس کو نسبت و نابود کرنے کے لئے مشترکہ طور پر اپننے شرمناک منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ جنرل السیسی کے مجرمانہ عزائم و اعمال سے بیزار ہوکر نام نہاد لبرل (درحقیقت اسلام دشمن اور مرسی کے مخالف محمد البرداعی نے نائب صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوکر ثابت کردیا ہے کہ جنرل السیسی کے شیطانی کاموں میں البرداعی جیسے امریکہ کے وفادار بھی شریک ہونے کے لئے نہیں ہیں کیونکہ السیسی کی بربریت (جو چنگیز، ہلاکو، ہٹلر اور مودی سے بڑھ کر ہے) میں شریک ہوکر تاریخ کے بدترین ملعونوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانا بھلا کس کو پسندہوگا؟ البرداری کی باغی حکومت سے علاحدگی جنرل السیسی کے کمزور موقف اور حکومت کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ یہ حکومت بیرونی طاقتوں پر منحصر ہے۔ مخالف مرسی مصری عناصر بھی اس سے دور رہنا پسند کرتے ہیں جیسے جیسے یہ راز کھل کر سامنے آیا ہے کہ مصری فوج کی یہ غداری نہ ملک کے لئے ہے اور نہ ہی عوام کے لئے ہے بلکہ یہ صر ف اورصرف اخوان المسلمین کو نہ صرف اقتدار سے محروم کردینے کے لئے ہے بلکہ اخوان ہی نہیں بلکہ اخوان جیسی ہر اسلام پسند تحریک و تنظیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہے اسی لئے اب مصر کی اسلا م پسند جماعت النور اور جامعہ الازہر فوجی بغاوت کی تائید پر پشیمان ہیں اور مصری عوام میں اخوان کے لئے ہمدردی اور حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اخوان پر پابندی کے ساتھ حسنی مبارک کی رہائی ہورہی ہے۔

عوامی احتجاج، مظاہروں، جلسوں کو کچلنے کے لئے نوآبادیاتی طاقتوں نے بھی اپنی نو آبادیوں کے عوام پر ایسا ظلم نہیں کیا ہوگا جو درندہ صفت جنرل السیسی کے درندہ نما اور اسلام دشمن غنڈوں اور (مسلمانوں کے خلاف تعصب میں ڈوبے ہوئے) عیسائی قبطیوں نے کیا ہے۔ بے شک اخوان المسلمین کی مخالفت اسلام دشمنی اگر نہ بھی ہو 14اگست کو یا اس سے قبل یا بعد جو رویہ جنرل السیسی اور اس کے ہم نوا غنڈوں کا رہا ہے۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے نہ ہی مسلمان نہتے اور غیر مسلح لوگوں پر حملہ کرتا ہے۔ جان بچاکر بھاگتے یا فرار ہونے والوں کے راستے بند نہیں کئے جاتے ہیں لیکن جنرل السیسی کے درندوں نے فرار کے راستے بند کرکے عوام کو منشتر کرنے کے مروجہ طریقوں کی جگہ مصری فوج نے وہ طریقے استعمال کئے جن سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بہ یک وقت ہلاک اور زخمی کیا جاسکے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ خوف زدہ اور ہراساں کیا جائے۔ جو لوگ جنرل السیسی جیسے فرعون وقت کی تائید و حمایت کررہے ہیں کیا وہ کسی ایسے مہذب ملک کی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں غیر مسلح افراد کے خلاف بمباری کی گئی ہو، ہیلی کاپٹروں سے گولیاں چلائی گئی ہوں ۔ مارٹر توپوں سے گولے برسائے گئے ہوں۔ بلڈوزر ہی نہیں بلکہ دبابے (ٹینک) اور بکتر بند گاڑیوں استعمال کی گئی ہوں۔ لاشوں کو مقام واردات سے غائب کرکے ہلاک شدگان کی تعداد کم بتائی گئی ہو۔ مساجد کو پوری طرح سے منہدم اور مسمار کرکے ان کو شہید ہی نہیں بلکہ نیست و نابود کردیا گیا ہو۔ مشہور مسجد ’’فتح‘‘ کو خالی کرانے کے لئے مسجد کی حرمت کا تک لحاظ نہیں کیا گیا۔ مسجد کے اندر لاشوں کے انبار لگادئے گئے۔ صرف چند دنوں میں چار تا پانچ ہزار افراد کی شہادت اور اس سے دوگنے زخمیوں کی تعداد ’’کذاب اعظم‘‘ السیسی صرف آٹھ سو ہلاک اور ایک ہزار زخمی بتاکر اپنے جھوٹ سے شیطان کو شرمارہا ہے۔ اگر مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے والی حکومت کو عوامی حمایت حاصل ہوتی تو آج وہان 27صوبوں میں کرفیو نہ لگتا، ایمرجنسی کا نفاذ نہ ہوتا۔ بیشتر صوبوں اور فوجی گورنروں کا تقرر نہیں ہوتا! اخوان کے کئی سرکردہ رہنماؤں اور 30 جید علمائے دین کو صرف شیطان کے چیلے (بقول امام حرم مکہ مکرمہ) ہی شہید کرسکتے ہیں۔ خواتین اور شیرخوار بچوں کے قاتلوں کی حمایت اور تائید بلکہ مدد کرنے والے اﷲ کو کیا جواب دیں گے؟ کیا اﷲ رب العالمین بھی بقول خادم الحرمین و شرفین اخوان کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیں گے؟
مصر کی بغاوت نے دو باتوں کو ثابت کردیا ہے۔

(1) امریکہ اور مغربی ملکو ں کی حکمت عملی (اسلامی ممالک کا معاملہ ہوتو) دو غلے پن کا شکار ہے۔ وہ جمہوریت سے درحقیت کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ آمروں اور غاصبوں کا ساتھ دے کر ان سے تعاون کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ ان کے مفادات محفوظ رہیں ان کی یا ان کی آلہ ٔ کارسلامتی کونسل ہلاکتوں اور حقوق انسانی کی پامالی پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس اندیشہ کا شکار ہے کہ اس طرح اخوان کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوگا۔ مغرب و امریکہ اسرائیل کی خاطر اخوان کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اسرائیل اور مغرب کے لئے اخوان، حزب اﷲ اور حماس عظیم خطرہ ہیں۔

(2) تمام اسلام ممالک (ماسوائے ترکی) وہ سب کچھ نہیں کررہے ہیں جو ان کا فرض ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو یہ خطرہ ہے کہ اخوان المسلمین ان کے تخت و تاج کے لئے خطرہ ہے۔ سلامتی کونسل کا رویہ قابل مذمت ہے وہ مصر میں جمہوری نظام اور حقوق انسانی کی پامالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ نرم پالیسی غاصبوں اور ظالموں کے لئے حوصلہ افزائی کا سبب ہے۔ کئی عرب حکمراں السیسی کی بربریت، اخوان کے خلاف خونیں جارحیت بلکہ اخوان پر پابندی لگاکر اس کو غیر قانونی قرار دینے کی حمایت و تائید خفیہ طور پر کررہے ہیں۔ ان ممالک کو اخوان کے حمایتی ترکی اور ایران کو بڑھتا ہوا اثر اور اخوان کی حمایت پسند نہیں ہے۔ سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ کا اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دینا، السیسی کی حمایت اور امداد قابل افسوس ہی نہیں بے حد الم ناک ہے۔ تمام عرب حکمرانوں کی طرح شاہ عبداﷲ امریکہ کی تابعداری میں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ملک کے وقار کو داؤ پر لگارہے ہیں ۔ اسی طرح متحدہ عرب کے حکمران بھی اخوان کی تباہی کو مصر کی سلامتی کے لئے ضروری قرار دے کر اخوان دشمنی بلکہ اسلام دشمنی کررہے ہیں جبکہ ترکی اخوان کا حامی ہے۔ عرب ممالک اپنے مفادات بلکہ اپنی حکمرانی کی خاطر دنیا میں عالم اسلام کے وقار کو داؤ پر لگارہے ہیں اور طاغوتی قوتوں سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچاکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس قول کو صحیح ثابت کررہے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک دشمن غیر مسلم ہے تو دوسرا دشمن خود مسلمان ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 168462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.