ضمنی انتخابات میں بیشتر سیاسی
لیڈروں کا بخار اتر گیا اور عوام کی جانب سے نتائج کی جو توقعات تھیں ، وہ
ویسے ہی آئیں۔ملک بھر کے ضمنی نتائج کے حوالے سے قابل توجہ عمران خان کی
چھوڑی گئی نشستیں اور کراچی میں ایم کیو ایم کی جانب دنیا بھر کی توجہ
مرکوز تھی۔ضمنی انتخابات میں اس بار انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے ، اس
لئے ماضی کے مقابلے میں کسی جماعت کے پاس یہ کہنے کو یہ حربہ نہیں رہ گیا
تھا کہ کسی جماعت نے ٹھپے لگا کر اپنے امیدوار کو کامیاب کروایا ہے۔کراچی
گذشتہ انتخابات میں مختلف قیاس آرائیوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز تھا کہ فوج
کی موجودگی کے باعث ایم کیو ایم کی کامیابی مشکوک ہوگی ، لیکن ایم کیو ایم
نے ضمنی انتخابات میں اپنی قومی اور صوبائی نشستوں پر از سرنو کامیابی حاصل
کرکے نقادوں کو خاموش کردیا۔اسی طرح پنجاب میں اور خیبر پختونخوا میں سب سے
زیادہ توجہ غلام احمد بلور اور میانیوالی کی نشست پر تھی ، مجھ سمیت پختون
فطرت کے حامل کیلئے ضروری تھا کہ اس نے سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کی کہ
تحریک انصاف کی جانب سے کئے گئے تمام وعدے پہلے دو ماہ میں ہی بدل چکے تھے
اور خیبر پختونخوا میں پشاور کی عوام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ
انھوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر غلام احمد بلور اور شہید بشیر احمد بلور
کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے ایک ایسے شخص کو ووٹ دئیے تھے ، جس نے پختون
روایات کا خیال نہیں رکھا۔ عمران خان کو یہ مشورہ دیا جا چکا تھا کہ پشاور
سیٹ پر پختونوں نے اس پر بڑے اعتماد کا اظہار کیا ہے لہذا عوامی نیشنل
پارٹی کے ساتھ ہونے والے سلوک کو وہ یاد رکھے اور اپنے راہ کو درست رکھے ،
لیکن پارٹی تبدیل کرنے والی روایتی لوٹے سیاستدانوں کے نرغے میں پھنسے
عمران خان حسب عادت پختون روایات کو نظر انداز کر گئے اور پشاور کی عوام کو
اپنی غلطی درست کرنے کیلئے پانچ سال کا انتظار نہیں کرنا پڑا اور دو ماہ
بعد ہی عمران خان نے خود ہی موقع فراہم کردیا اور پشاور کی عوام سے سر کا
بوجھ ہلکا ہوا۔ پختون عوام کو اے این پی کی سابقہ پالیسوں سے کوئی سروکار
نہیں تھا ، لیکن یہاں جذبات کا شکار ہو کر اپنے درمیان رہنے والے بلور
خاندان اور میاں افتخار حسین کے ساتھ نا انصافی ہونے کے سبب ایک عام شہری
کی یہی رائے تھی کہ عمران خان کو ووٹ دینا ہماری پہلی اور آخری غلطی
تھی۔عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تو بن نہیں سکے ، خیبر پختونخوا کے
وزیر اعظم ضرور بن گئے اور میڈیا میں ان کی صوبائی حکومت میں مداخلت کو
اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کا تکبر انھیں لیکرڈوبا ،
خاص طور پر جب وزیراعلی خیبر پختونخوا کو سیاسی عہدہ چھوڑنے کا کہا گیا تو
عمران خان کی حکم عدولی نے ثابت کردیا کہ عمران خان کی گرفت اپنی پارٹی کے
رہنماؤں اور کارکنان پر مضبوط نہیں ہے۔ عوام سے کئے جانے والوں وعدوں میں
سب سے اہم دعوی امن لانے کا تھا ، جیسے پہلے ہفتے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری
الزما کرا لیا گیا کہ یہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے ۔ڈرون حملوں کے خلاف
ان کا ایک عمل بھی سنجیدہ نہیں تھا اور تحریک انصاف کی جانب سے اس دعوے کو
بھی پورا نہیں کیا گیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعلی ہاؤس کو تعلیم
کی درس گاہ میں تبدیل کردی گی۔بلکہ تحریک انصاف نے اپنی اقربا پروری وسہل
پسندی کی مثالیں قائم کرنا شروع کردیں جس کا ایک عملی مظاہرہ وزیر اعلی کی
جانب سے عمران خان سے ملاقات کیلئے ئیلی کاپٹر کا غیر ضروری استعمال اور
ٹکٹوں کی تقسیم میں وزیر اعلی کی جانب سے اپنے داماد عمران خٹک خیبر
پختونخوا کے اسپیکر اسد قیصرکے بھائی عاقب اﷲ کو ترجیح دینا شامل تھا ۔
علاوہ ازیں عمران خان نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن
کے خلاف وہی لب و لہجہ استعمال کیا جو اس سے قبل نواز شریف وشہباز شریف کے
لئے رکیک اور اخلاق سی گری بیان بازی میں کرچکے تھے ۔مولانا فضل الرحمن ایک
نامور اور اہم مذہبی سیاسی شخصیت ہیں اور مذہبی حلقوں کے علاوہ پختونوں میں
ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے ، لیکن عمران خان نے اپنی سیاسی ناپختگی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے جس لب و لہجے کا استعمال کیا وہ عوام میں ناپسندیدہ
رہا۔اس کے ساتھ ہی عمران خان نے اپنے بیانات کے یو ٹرن میں جس طرح سپریم
کورٹ کو گالیاں دیں اور پھر ریٹرنگ افسران کو اپنی بیان بازی کا نشانہ
بنایا ، وہ بھی عمران خان کو غیر مقبول کرنے میں اہم کردار ادا کر گیا ،
لیکن سب سے بڑا مرحلہ اس وقت سامنے آیا جب امریکہ کے سب سے بڑے مخالف ہونے
کے دعوے دار عمران خان نے عوام سے چھپ کر امریکی سفیر سے ملاقات کی ۔ جس کے
طشت از بام ہوتے ہیں عمران خان کے دوہرے روئیے کی تمام پول پٹیاں کھلتی
چلیں گئیں ۔کراچی میں تحریک انصاف پی ایس ۹۳ کی سیٹ جس طرح جیتی ، اگر
عمران خان پاکستان کے تمام حلقوں کے بجائے صرف اپنے اسی حلقے کی بائیو
میٹرک سسٹم کے تحت چیکنگ کرو الیں تو انھیں اپنے وائٹ پیپر شائع کرنے پر
شدید شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا ۔ تحریک انصاف نے صرف سیٹوں کیلئے کراچی
میں لسانی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی اور کراچی کی عوام کو پی پی آئی ،
اے این پی ، پی پی پی ،نام نہادسندھی قوم پرست اور لیاری گینگ وار کی طرح
تحریک انصاف کا مقصد کراچی میں امن نہیں بلکہ شر کے ذریعے صرف اپنی سیاست
کو چمکا کر کامیابی حاصل کرنی تھی۔ کراچی میں آنے والے سیلاب میں جس طرح
ہزاروں لوگ رمضان المبارک میں در بدر و تباہ ہوئے اور ان کی عید کی خوشیاں
، آنسوؤں میں بسر ہوئیں ،ان کی داد رسی کیلئے تحریک انصاف ، اے این پی ، پی
پی پی اور دیگر جماعتوں کا نام و نشان تک نہیں تھا ، لیکن متحدہ قومی
موومنٹ نے انھیں راشن تقسیم کیا اور وہاں عارضی کیمپ قائم کرکے بیمار بچوں
اور مرد و عورتوں کا علاج کیا ۔کراچی کی عوام کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ،
وہ اب اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ انھیں آپس میں لڑانے والے صرف اپنے
مفادات کے خاطر ایک ہوجاتے ہیں۔پی پی پی حکومت کی جانب سے حالیہ بلدیاتی
نظام کو اپنی عددی قوت کے ذریعے منظور کروانے پر تمام سیاسی جماعتوں نے یک
زبان ہوکر ایسے مسترد کردیا ۔ جماعت اسلامی نے بھی ایم کیو ایم کی طرح
بلدیاتی بل کو کراچی کے خلاف سازش قرار دیکر ثابت کردیا کہ پی پی پی کو
کراچی ؍شہری آبادیوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔تحریک انصاف کو بھی اے این پی
کی طرح کراچی میں کامیاب کروانے کیلئے فرشتوں نے ووٹ ڈالے تھے ، لیکن صرف
سیٹ جیتنے سے کچھ نہیں ہوتا ، اصل خدمت عوام کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنا ہوتا
ہے۔ جس طرح خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا یہ کہنا تھا کہ" بم دہماکے ہی
تو ہوئے ہیں ، کوئی قیامت تو نہیں آئی، جنازے میں شرکت کرنا ضروری تو
نہیں"۔تو اُس بیان سے پختون عوام نے میاں افتخار حسین اور بشیر احمد بلور
کو شدت سے یاد کرتے ہوئے بین کی کہ اب ہمیں اب یتیمی کا احساس ہوا ہے۔اسی
طرح ایم کیو ایم کے خلاف تحریک انصاف نے لسانی محاذ بنا کر ایک ایسی فضا
پیدا کرنے کی کوشش کی تھی کہ جیسیبرگر کھانے والے بن کباب کھانے والوں کو
اپنی فیکٹری کا ملازم سمجھتے ہوں۔ پاکستان پر حکومت کرنے والے دونوں
بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ پنجاب کے نمائندے نہیں بلکہ پورے
پاکستان کے نمائندے ہیں، سیلاب سے 14لاکھ افراد متاثر اور 169 افراد ہلاک
ہوئے لیکن ان کی داد رسی میں تحریک انصاف کا نام و نشان تک نہیں۔کراچی کے
عوام امن چاہتے ہیں اور کراچی کے مینڈیٹ کو سیاسی افہام تفہیم سے حل کئے
بغیر ملک کی میعشت اپنے پیروں پر کبھی کھڑی نہیں ہوسکتی۔تحریک انصاف کو
اپنا مستقبل صرف دو ماہ کی حکومت میں ہی نظر آگیا ہے ، ابھی تو پوری پانچ
سال ان کے سامنے ہیں ، اگر اب بھی انھوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو ، شائد
ان کی حکومت بقول مولانا فضل الرحمن" گولڈ اسمتھ "کے ایجنڈے کے ساتھ جلد ہی
دفن ہو جائے گی۔تحریک انصاف اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کیلئے اپنی
مثبت توجہ و عملی کردار پر مرکوز کرے اور جب اُن سے کوئی یہ سوال پوچھے کہ
ان کی حکومتی کارکردگی کیا ہے ؟ تو اپنی کارکردگی کا جواب دیں ، خاتون آہن
بشری گوہر کو دئیے جانے والے ذاتیات پرجواب کی طرح قدامت پرستی اور
کارکردگی سے راہ فرار کا مظاہرہ نہ کریں ۔نوشہرہ اور لکی مروت میں خواتین
کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کا کلنک تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑا ایشو بن
چکا ہے ۔مجموعی طور پی ٹی آئی، کو اصلاح کی ضرورت ہے۔اے این پی کو اقتدار
ملنے کے بعد یہی نصیحت کی جاتی رہیں تھیں کہ انھیں موقع ملا ہے تو اپنی
خدمت کی مثال قائم کریں ۔ اور یہی مشورہ ہم سب کی جانب سے عمران خان کو بھی
ہے۔وقت کی ڈور اب بھی پی ٹی آئی ، پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں ہے
۔بس سمجھنا ہوگا اور خد مت اختلاف کے بجائے ملکی مفاد کو مقدم اور اقربا
پروری کو ختم کرنا ہوگا۔ |