مشرق وسطی کے کربناک حالات

پچاس سال یا اس سے بھی زائد کا عرصہ گزر گیا کہ شرق اوسط جسے ہم عرف عام میں مشرق وسطی کہتے ہیں کہ حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔فلسطین کا مسئلہ ہو کہ ایران عراق کی گیارہ سال کی لڑی جانے والی طویل جنگ،مصر اور شام کے اندوہناک حالات ہوں کہ اردن،لبنان اور بیروت کی خانہ جنگی الغرض جس طرف بھی دیکھیں آگ اور خون کی ایک ہولی ہے جو کھیلی جا رہی ہے چونکہ یہ تمام تر مسلمانوں کی آبادی کے علاقے ہیں اس لئے ہمیشہ سے ہی تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس بارے میں تشویش لاحق ہونا لازمی ہے اور چونکہ وہ مقدس مقامات جو مسلمانوں کو دنیا میں ہر دوسری چیز سے زیادہ پیارے ہیں یعنی مکہ اور مدینہ ،جہاں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدم پڑا کرتے تھے اور جن کی فضا ؤ ں کو آپ کی سانسوں نے معطر اور مبارک فرمایاوہ ارض مقدسہ بھی ہر طرف سے خطروں اور سازشوں میں گھری ہوئی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس وقت تمام عالم اسلام درد و کرب میں مبتلا ہے اور امت مسلمہ میں ایک شدید بے چینی پائی جاتی ہے ۔

ہمیں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ آج کی سیاست گندی ہو چکی ہے انصاف اور تقوی سے عاری ہے ،یہاں تک کہ وہ مسلمان ریاستیں جو اسلام کے نام پر اپنی برتری کا دعوی کرتی ہیں ان کی وفابھی آج اسلامی اخلاق سے نہیں اور اسلام کے بلند و بالا انصاف کے اصولوں سے نہیں بلکہ اپنی اغراض کے ساتھ ہے اسی وجہ سے عالم اسلام کے طرز عمل میں آپ کو تضاد دکھائی دے گا ۔جبکہ تقوی کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف اسلامی اقدار سے وفا کی جائے جو اسلام کے تقاضے ہیں جو قرآن کے تقاضے ہیں جو سنت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے تقاضے ہیں ۔مگر افسوس اور زخمی دل کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم موجودہ سیا ست پر غور کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر نہ مسلمانوں کی سیاست کی بنیاد دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی غیروں کی ۔غیر قومیں انصاف کے نام پر بڑے بڑے دعوے کر تی ہیں گویا وہی ہیں ہیں جو دنیا میں انصاف قائم رکھنے پر ما مور ہیں ان کے بغیر ان کی طاقت کے بغیر انصاف جیسے دنیا سے مٹ جائے گا۔اسی طرح مسلمان ریاستیں اسلام کے نام پر بڑے بڑے دعاوی کر تی نظر آتی ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔

مغربی طاقتیں اپنی دولت ،چالاکیوں مکاریوں اور اسلام سے نفرت کے نتیجہ میں غداروں کو خرید کر اقتدار ان کے حوالے کر دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جو خاندان برسوں سے ریاست پر حکمرانی کر رہے ہوتے ہیں ان ہی کے سپرد بار بار ملک کی بھاگ دوڑ دے دی جاتی ہے ،تا کہ مغربی طاقتیں اپنے مفادات بغیر کسی روک ٹوک کے حاصل کرتی رہیں ،اور اب تک بظاہر وہ اس میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہیں ۔اس ساری بھاگ دوڑ کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اسلامی ریاستوں کو پارہ پارہ کرنا اور اسرائیل کا تسلط قائم کرنا ۔

اردن ایک ایسا ملک ہے جو ہمیشہ سے ہی مغرب کا وفادار رہا ہے ،بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ سب سے زیادہ وفادار ریاست اس علاقے کی یہ ہی ہے ۔اور اب تو سعودی عرب بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکا ہے سعودی عرب کے تمام ترمفادات امریکن مفادات کے ہم آہنگ ہوچکے ہیں ۔پہلے پہل جب ایسی صورتحال ہوتی تھی تو عام طور پر مغربی پروپگنڈہ یہ کیا جاتا تھا کہ یہ سب سعودی عرب کو بچانے کے لئے کیا جا رہا ہے ،مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صورتحال واضح ہوتی جارہی ہے کہ سعودی عرب جیسا مقدس اور محترم ملک مسلمانوں کے مفادات کا دفع کرنے کی بجائے اپنی خاندانی سیاست کو بچانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے اس کے لیئے اس نے نہ اسلامی رویات کا پاس کیا نہ مسلمانوں کے دکھ درد کا خیال کیا ،اگر ایسا کیا ہوتا تو آج یقینا فلسطین افغانستان ،کشمیر ،اردن ،مصر ،شام،لبنان ،بیروت نہ صرف خانہ جنگی کا شکار نہ ہوتے بلکہ اپنے تمام مسائل کو بخیر و خوبی حل بھی کر لیتے ۔۔ اب دیکھیں کہ اسی بات کی طرف قرآن پاک نے کس حکمت سے روشنی ڈالی ہے ،

اﷲ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔ـ" کیا تم نے ( محض) حا جیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے کے عمل کو اس شخص کے اعمال کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اﷲ کی راہ میں جہاد کیا ، یہ لوگ اﷲ کے حضور برابر نہیں ہو سکتے اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا ۔( سورۃ توبہ آیت19 )

مغربی میڈیا کا یہ ایک عجیب پروپگنڈہ ہے کہ اگر ان کے علاقے میں ایک شخص بھی مارا جاتا ہے تو اس دنیا کے سارے اخبار ات ریڈیو اور ٹیلی ویثزن میں شور پڑ جاتا ہے کہ ظلم کی حد ہو گئی ہے ،بر خلاف اس کے کہ اب جو کچھ مصر اور شام میں ہو رہا ہے ہزار ہا بوڑھے ،بچے ،جوان عورتیں سب کو مظلوم حالت میں تہ تیغ کیا جا رہا ہے بلبلاتی ہوئی ماؤں کے سامنے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے ان کو اذیت دے دے کے ختم کیا جا رہا ہے ، مغربی دنیا میں ڈپلومیسی چلتی ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں دجل کہا جاتا ہے ،اور یہی وہ دجل ہے جس کا ہر طرف راج ہے جب بھی کسی ایک مسلم ملک پر کوئی آفت آتی ہے دوسری اسلامی ریاست کا رد عمل انتہائی افسوس ناک ہوتا ہے ،بجائے اس کے کہ سب مل کر دجالوں کی سازشوں اور چالوں کو سمجھیں اور ایک دوسرے سے برسر پیکار جماعتوں یا ملکوں کی مدد کریں اور اکٹھے ہو کر مسائل کا حل ڈھونڈیں ،۔۔آپس میں فرقہ وارانہ نفرتوں ،اپنے مفادات کو اولین تر جیح دینا شروع کر دیتے ہیں یو ں عام مسلمانوں کے لئے مشکلات ظلم و تشدد کی کئی راہیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں، اس سب حالات کا محرک اور اصل جڑ اسرائیل ہے اور امریکہ کو اسرائیل کے مفاد عزیز ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغرب کا اسرائیل سے ترجیحی سلوک ہے جب بھی کسی دوراہے پر اسرائیل کے مفاد کو اختیار کرنے یا اس کے مقابل پر مسلمان عرب دنیا کے مفاد کا سوال اٹھا تو بلا استثناء ہمیشہ مغرب نے اسرئیل کو فوقیت دی اور مسلم دنیا کے مفادات کو ٹھکرا دیا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔جبکہ ان کا ایجنڈا ہی یہ ہے کہ عرب دنیا کو پارہ پارہ کردیا جائے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں۔اور یوں دوبارہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں ۔فلسطین ،ایران ،عراق،لبنان ،مصر،شام ،بیروت، اردن اور دیگر ملکوں کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔

غیر کبھی دوست نہیں ہوتا مگر مسلمان ممالک نے نہ اس نقطے کو سمجھا اور نہ ہی اس بات کو کہ مسلمان ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتالیکن یہ کتنی بار ڈسے جا چکے ہیں ،مگر پھر بھی اپنی روش کو ترک کرنے کو تیار نہیں اور یوں اپنی معصوم ااور نہتی عوام کو ان مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں ۔

چونکہ مایوسی گناہ ہے اس لئے ابھی بھی وقت ہے حالات پر قابو پاکرسب مسلمان ایک خدا اور ایک رسول کی طرف لوٹ جائیں اسلامی اخلاق کو مجروح نہ کریں اور دنیا میں اسلام کو تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں رحم انصاف محبت ہمدردی اور اخوت کے جزبوں کو پروان چڑھائیں کہ اس کے سوا کوئی بھی امن اور نجات کی راہ نظر نہیں آتی ۔

پس اگر آج عالم اسلام کو دکھوں تکلیفوں اور سازشوں سے نجات دلانی ہے تو اﷲ تعا لی سے دعاؤں کیساتھ مدد طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔غیروں کی گودوں میں پناہ لینے اور مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لئے مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے بازو پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے ،محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت میں پناہ لینے کی ضرورت ہے آپ کی تعلیمات آپ کی سنت اور اسوہ حسنہ کو اپنانے کی ضرورت ہے ،انسانیت کے اس عالمی امن و محبت کے منشور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں، جو نہ صرف ہمارے لئے بلکہ مغرب کے لئے بھی مشعل راہ ہے ۔
Maryam Sammar
About the Author: Maryam Sammar Read More Articles by Maryam Sammar: 49 Articles with 52631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.