بھکر میں شیعہ سنی تنازع شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔اس
تنازع کی وجہ سے اب تک پندرہ افراد مارے جاچکے ہیں ، چودہ افراد لاپتا ہیں
اور کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔مرنے والوں میں تین شیعہ مسلک سے تعلق
رکھتے ہیں جبکہ باقیوں کا تعلق سنی مسلک سے ہے۔بھکر تنازع اس وقت شروع ہوا،
جب اہلسنت والجماعت کے ایک کارکن کا قتل ہوا تھا جس کے بعد جمعے کو اہلِ
سنت والجماعت نے ایک احتجاجی جلوس نکالا، جب لوگ یہ جلوس ختم کر کے واپس جا
رہے تھے تو نعرے بازی کی وجہ سے شیعہ اور اہلسنت والجماعت کے کارکنوں کے
درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوگیا۔اس کے بعد معاملہ مزید بگڑگیا۔ واقعے کے بعد
ضلع بھر میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہوگئی، سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی
اور کشیدگی کے باعث ضلع بھر کے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان بھی کیا
گیا۔مسلح افراد شہر کے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کرتے رہے۔مکین
گھروں میں محصور ہو گئے، بازاروں میں ہو کا عالم تھا۔تمام مساجد میں اعلان
کروائے گئے تھے کہ لوگ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ واقعے کے خلاف اہلسنت
والجماعت اور وحدت المسلمین نے احتجاج کیا۔ اہلسنّت والجماعت کے تحت نکالی
گئی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اہلسنّت و الجماعت پرامن
جماعت ہے۔ ہمارے شہداءکے قاتل گرفتار نہ ہوئے تو آیندہ ہفتے مو ¿ثر لائحہ
عمل اختیار کریں گے۔ انتظامیہ ہمیں انصاف فراہم کرنے کی بجائے بند گلی میں
دھکیل رہی ہے۔ ہم نے ضلع سے 11 جنازے اٹھا کر بھی ضلع کے امن کو برقرار
رکھا انصاف نہ ملنے اور قاتلوں کی عدم گرفتاری کے باوجود ہم نے قانون کو
ہاتھ میں نہیں لیا لیکن اب ضلعی انتظامیہ ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ ہم
قانون ہاتھ میں لیں۔ تصادم کے باعث کوٹلہ جام اور دریا خان میں کشیدگی کے
باعث کاروبار بند رہااور ضلع بھر میں کرفیو نافذ کیا گیا ۔ اہلسنّت
والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے کہاہے کہ انتظامیہ کو دہشت
گردوں کی موجودگی کاپہلے سے علم تھا۔حکومت پنجاب نے امن و امان کی بحالی کے
لےے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت کی ہے۔ کوٹلہ جام میں اہلسنّت والجماعت
کے 6کارکنان کے قتل کرنے پر وحدت المسلمین، شیعہ علماءکونسل، 79 نامزد اور
70 نامعلوم کے خلاف تھانہ صدر بھکر نے مقدمہ درج کرلیا۔ پولیس نے ایف آئی
آرمیں دہشت گردی ایکٹ کے دفعات لگاکر مقدمہ درج کرلیا۔جبکہ دوسری جانب بھکر
پولیس نے اہلسنّت والجماعت کے مرکز جامعہ خلفاءراشدین پر چھاپا مارا اور
موجود تمام اساتذہ اور طلبہ کو گرفتار کر لیا۔
اسی طرح اسلام آباد میں نامعلوم دہشتگردوں نے فائرنگ کر کے مدرسہ مدینة
العلم کے استاذ سمیت دو افراد کو شہید کردیا تھا جس پراہلسنت والجماعت نے
اسلام آباد ہائی وے پر واقع مدرسے میں جمعے کی رات فائرنگ کے خلاف اتوار کے
روز پورے ملک کی اہم شاہراوں پر دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے۔اسی سلسلے میں
اتوار کے روز کراچی میں اہلسنت والجماعت کے ترجمان مولانا اکبر سعیداحتجاجی
ریلی سے واپس آرہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی ، جس سے وہ
شدید زخمی ہوگئے ، انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو وہ شہید ہو گئے۔ٹارگٹ کلنگ
کا نشانہ بننے والے اہلسنت و الجماعت کے ترجمان مولونا اکبر سعید فاروقی کی
نماز جنازہ مولانا اورنگزیب فاروقی نے پڑھائی جس میں اہلسنت والجماعت کے
رہنماؤں کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، نماز جنازہ سے قبل
شرکاءنے قائد آباد پر احتجاجی دھرنا دیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی،
تاہم نماز جنازہ سے کے بعد مقتول کی میت انتہائی سخت سیکیورٹی میں نجی
ایرلائن کے ذریعے ان کے آبائی علاقے مہمند ایجنسی روانہ کردی
گئی۔مولانااورنگزیب فاروقی کا کہنا تھا کہ اہلسنت و الجماعت رہنماؤں کو
سیکورٹی فراہم نہیں کی جارہی۔ وزارت داخلہ کی جانب سے چند روز قبل حکومت
سندھ کو 17 علماءکی فہرست دی تھی ، جن میں ان پر قاتلانہ حملوں کی نشاندہی
کی گئی تھی لیکن سندھ حکومت نے دہشت گردوں کی یہ وارننگ نظر انداز کردی،
جبکہ اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے مولانا اورنگزیب
فارقی کے قاتلانہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے حکومت کو پیر
تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
پاکستان میں متعدد سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے بھکر ، اسلام آباد اور کراچی
واقعہ کی شدید مذمت کی اور ان واقعات کو ملک میں فرقہ وارانہ سازش کا حصہ
قرار دیا۔ اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ
پاکستان میں بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شام اور عراق جیسے حالات پیدا
کیے جارہے ہیں اور حکو مت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ا ±نہوں نے کہا کہ
حکومت کو شدت پسندی کے واقعات کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی
چاہیے۔اتوار کے روز ایک نجی ٹی وی پر جماعة الدعوہ کے سربراہ سے جب بھکر
واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھارت،
اسرائیل اور امریکا شیعہ سنی لڑائی کرانا چاہتا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ بے
بہا پیسہ بہارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شیعہ سنی کو لڑانے کی
سازش کی جارہی ہے۔ بھارت و امریکا منظم سازشوں اور منصوبہ بندی کے تحت
پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کو ہوا دے رہے ہیں۔ پاکستان کے ہر گلی محلہ
میں باہمی لڑائی جھگڑے کی فضا پیدا کر کے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال
پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ پاکستانی قوم اسلام دشمن قوتوں کی
سازشوں کو سمجھے اور ملک میں اتحاد و یکجہتی کا ماحول پیدا کیا جائے۔
امریکا و بھارت نے پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مذہبی و
سیاسی جماعتیں اور علماءکرام عوام الناس کواصل حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے قوم
کو متحد و بیدار کرنے کا فریضہ سرانجام دیں۔ امریکا اورا س کے اتحادی
افغانستان میں بدترین شکست پر اپنی آخری گیم کھیل رہے ہیں۔ کوئٹہ، کراچی
اور دیگر شہروں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی، لسانیت و علاقیت کو پروان
چڑھایا جا رہا ہے۔ بیرونی قوتوں کی سازشوں سے باخبررہنے کی ضرورت ہے۔اسی
طرح سندھ پولیس نے کہا کہ کراچی میں شیعہ اور سنی علماءکرام کی جان کو شدید
خطرات لاحق ہیں کیونکہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوشش کی جارہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی کو لڑانے میں امریکا و اسرائیل
ملوث ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے اپنی اسی پالیسی پر عمل کرتے آئے ہیں۔امریکا نے
عراق میںبھی شیعہ سنی کو لڑانے کی پالیسی پر پوری طرح عمل کیا۔ امریکاکے
معروف تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے عراق پر حملے کے بعد امریکا کی فوجی
قیادت کی ہدایت پر ”مسلم دنیا نائن الیون کے بعد“ کے عنوان سے ایک تحقیقی
رپورٹ تیار کی تھی۔ اس کا خلاصہ ”نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں امریکی
حکمت عملی“ (US strategy in the Muslim World after 9/11) کے عنوان سے 2004
ءمیں جاری کیا گیا۔ اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ
”عالم اسلام میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے شیعہ سنی اور عرب غیر عرب
اختلافات کو استعمال کیا جائے۔“ معروف امریکی تجزیہ کار مائک وٹنی کے مطابق
اس تحقیقی مطالعے کا بنیادی مقصد ”’ فرقہ وارانہ، نسلی، علاقائی اور قومی
سطحوں پر پائے جانے والے کلیدی اختلافات اور تنازعات کا تعین کرنا اور یہ
اندازہ لگانا تھا کہ یہ اختلافات امریکا کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے
کیا مواقع فراہم کرتے ہیں۔“حیرت انگیز طور پر اس رپورٹ کی سفارشات کے عین
مطابق عراق میں قابض استعماری قوتوں نے یہی حکمت عملی اختیار کی۔ اپریل
2004ءمیں بصرہ میں قابض افواج نے مجاہدین کا بہروپ بھر کر عام شہریوں کو بم
دھماکوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے دو ماہ بعد عراقی نیشنل گارڈز نے دو برطانوی
سپاہیوں کو بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی، دہشت گردی کے لیے لے جاتے ہوئے
پکڑا۔ یہ سپاہی روایتی عرب لباس میں تھے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا
اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ معروف تجزیہ کار کرٹ نمو نے اپنی ویب سائٹ پر22
فروری 2006ءکومنظر عام پر آنے والے اپنے تجزیے میں ان واقعات کا حوالہ دیا
تھا۔ یہ وہ واقعات ہیں جن میں سازش کھل گئی اور بات منظر عام پر آگئی۔ تاہم
ظاہر ہے کہ ایسے بیشتر سازشی اقدامات کو کامیابی سے خفیہ رکھا گیا ہوگا۔ اس
سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ طریقہ ایک مستقل حکمت عملی کے طور پر
اختیار کیا گیا۔ شیعوں اور ان کی عبادت گاہوں کونشانہ بناکر انہیں یہ تاثر
دیا گیا کہ یہ سنیوں کا کام ہے۔ اسی طرح سنیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو
ہدف بناکر انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ شیعوں کی سازش ہے۔
عراق میں اس حکمت عملی کے مطابق حالات مسلسل خراب کیے جاتے رہے یہاں تک کہ
22 فروری 2006ءکو سامراءکی مسجد عسکری میں بم رکھ کر وہ بڑا دھماکا کرڈالا
گیا جس میں اہل تشیع کے دو محترم ائمہ کے مزارات کو بھی نقصان پہنچا۔ اس
بات نے شیعہ آبادی کو سنیوں کے خلاف بری طرح مشتعل کردیا اور اس واردات کے
ردعمل میں چند گھنٹوں میں ہزاروں سنی مسلمان اور ان کی سینکڑوں مسجدیں تشدد
کا نشانہ بن گئیں۔ اس واردات کے بعد عراق میں شیعہ سنی تصادم کے واقعات
کاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا اور حالات کسی کے قابو میں نہ
رہے۔سامراءکی مسجد عسکری کے بم دھماکوں کو متعدد معروف امریکی تجزیہ نگاروں
نے امریکی فوج اور ایجنسیوں کی کارروائی قرار دیا۔ کرٹ نمو(Kurt Nimmo) نے
بدھ 22 فروری 2006ءکو اپنے تجزیے میں لکھا کہ سامراءکے مقدس مقامات میں بم
دھماکوں کا مقصد اس اسرائیلی منصوبے کے اہداف کا حصول ہے جو پچھلی صدی کی
آٹھویں دہائی میں Oded Yinon نے تیار کیا تھا۔ اس منصوبے کا ہدف
”بلقانائزیشن آف عرب اینڈ مسلم سوسائٹی اینڈ کلچر“ قرار دیا گیا تھا۔ یعنی
جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد بلقان کے مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں
بانٹ کر ان کی طاقت ختم کردی گئی اسی طرح موجودہ عرب اور مسلم ملکوں کے بھی
حصے بخرے کردیے جائیں تاکہ اسلام دشمن قوتوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ
رہے۔ عراق کے اس تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں شیعہ سنی کو باہم
لڑانے کی عین وہی سازش ہے جس پر عراق میں کامیابی سے عمل کیا جاچکا ہے۔
امریکا اور اسرائیل ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دیتے آئے
ہیں۔گزشتہ دنوں بیرون ملک جنگوں میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے نیشنل
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خود امریکا کے ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے
واشنگٹن کی دفاعی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے: ”امریکا
دنیا کے ہر کونے میں ہونے والی خانہ جنگی میں ملوث رہا ہے۔وفاقی حکومت کے
لیے آئین اور قوم کے دفاع سے بڑھ کر کوئی بڑی ترجیح نہیں ہوتی لیکن بعض
اوقات میں سوچتا ہوں ہمارا دفاع دنیا کے کسی بھی کونے میں خانہ جنگی میں
ملوث ہونے کی خواہش سے کمزور ہوا۔اس نے پاکستان، لیبیا، مصر اور شام میں
امریکی مداخلت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہم کوئی بھی
عملی قدم اٹھانے سے پہلے سوچتے نہیں کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا، ہمارے ملک
اور قوم کی بقاءکے لیے امن واشنگٹن کی اولین ترجیح ہونی چاہیے اور دنیا پر
تھانیداری سے پرہیز کرنا چاہیے۔“ ان حالات کو دیکھتے ہوئے فریقین کو چاہیے
کہ ہر واقعہ کی ذمہ داری مخالفین پر نہیں ڈالنی چاہیے ، ہوسکتا ہے ان
واقعات میں کوئی تیسری قوت شامل ہو۔ |