اب سونامی کہاں جائے گا؟

تحریکِ انصاف کے لیے ضمنی الیکشن کے نتائج انتہائی مایوس کُن رہے۔ عمران خاں صاحب اپنی میانوالی کی گھر کی سیٹ بھی نہ بچا سکے اور بلور خاندان کو بھی سیٹ واپس کرنی پڑی۔شاید اسی لیے خاں صاحب نے فرمایا کہ اب اُن کی سونامی کا رُخ سندھ اور بلوچستان کی طرف ہو گا۔۔۔۔ پچھلے دنوں دوردراز گاؤں میں رہنے والی میری ایک رشتہ دار ملنے کے لیے آئی ۔اُس نے انتہائی معصومیت سے سوال کِیا ’’باجی ! کیا یہ سونامی اتنی ہی خوبصورت ہے جو عمران خاں صاحب ہر وقت ’’میری سونامی ، میری سونامی‘‘ کرتے رہتے ہیں‘‘؟۔ مہمان کی بات سُن کرمیری ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ وہ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ ’’سونامی‘‘ بھی ’’وینا ملک‘‘ ٹائپ کوئی خوبرو دوشیزہ ہے جس نے اِک عالم کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے۔اُس وقت ابلیس لعین نے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا کرکے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ ہو سکتا ہے کچھ نوجوان بھی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اَن دیکھی ، اَن جانی ’’سونامی ‘‘کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو چکے ہوں لیکن میں نے اِس خیالِ بَد کوذہن سے جھٹک دیا کیونکہ میرے علم میں ہے کہ تحریکِ انصاف میں غالب اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔ اپنی مہمان کو تو میں نے سمجھا دیا لیکن تب سے اب تک یہی سوچ رہی ہوں کہ ’’سونامی‘‘تو سمندری طوفان کا نام ہے جو مذکر ہے مونث نہیں۔اِس لیے خاں صاحب اگر ’’میری سونامی‘‘ کی بجائے ’’میرا سونامی‘‘ کہیں تو کوئی ہرج نہیں ۔

جب سے خاں صاحب نے سونامی کا رُخ سندھ اور بلوچستان کی طرف موڑنے کا اعلان کیا ہے ، ہماری تو راتوں کی نیند اُڑ گئی ہے ۔ پتہ نہیں ہم پنجابیوں سے کیا خطا ہوئی جو خاں صاحب نے ہمیں اپنی ’’سونامی ‘‘ سے محروم کرنے کی ٹھان لی ۔اگر اُنہوں نے الیکشن نتائج سے بد دل ہو کر یہ فیصلہ کیا ہے تو دست بستہ عرض ہے کہ ہم پنجابی ’’سونامیے‘‘آج بھی اُن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر وہ ملکی اور بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہو جائیں تو اِس میں ہمارا کیا قصور ؟۔ پہلے تو ISI چیف جنرل پاشا کا کچھ حوصلہ تھا لیکن پیپلز پارٹی نے ’’خود تو ڈوبے ہیں صنم ، تُم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق عین موقعے پرجنرل پاشا کو مدت ملازمت میں توسیع دینے سے انکار کرکے نہ صرف ہمارے ساتھ دھوکا کیا بلکہ ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیادوں کو بھی ہلا کے رکھ دیا جسے صریحاََ ملک دشمنی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔پھرگیارہ مئی کو عدلیہ ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے مِل کر سونامی کے خلاف سازش کی اور اب ضمنی الیکشن میں کی گئی سازش میں فوج نے بھی حصّہ ڈال دیا ۔اِس تناظر میں پنجابی قصوروار نہیں ٹھہرتے ۔ بھلے سونامی سندھ اور بلوچستان میں مٹر گشت کرتا پھرے لیکن اِس پر ہمارا بھی حق ہے ۔اِس لیے دست بستہ عرض ہے
پھینکے ہیں طرف اوروں کے گُل بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بَر اندازِ چمن ! کچھ تو اِدھر بھی

ایک تو ہم عام اور ضمنی الیکشن کے زخموں سے چور ہیں اوپر سے مولانا فضل الرحمٰن تواتر سے عمران خاں صاحب پر یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں۔جواباََ خاں صاحب نے بھی کیا خوب کہا کہ’’ مولانا صاحب کے ہوتے ہوئے کسی یہودی ایجنٹ کی ضرورت نہیں‘‘ مولانا صاحب اور خاں صاحب کی اِس ’’چشمک‘‘ پر نواز لیگ نے سُکھ کا سانس لیا ہو گا۔ شنید ہے کہ بڑے میاں صاحب نے ’’اندر کھاتے‘‘ اپنے اراکینِ اسمبلی کواِس پیش رفت پر شکرانے کے نوافل ادا کرنے کی تلقین کی اور خیر سگالی کے طور پریہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ اور جنرل کیانی A.P.C سے پہلے عمران خاں سے ملاقات کریں گے ۔یہ ملاقات خاں صاحب درِ دولت پرہونی چاہیے تاکہ دشمنوں کو اُن کے قَد کاٹھ کا اندازہ ہو۔

خاں صاحب نے حسبِ وعدہ ایک بال سے دو وکٹیں تو گرا ہی دیں لیکن تیسری وکٹ پر اُن کے ساتھ ’’ ہَتھ ‘‘ ہو گیا اور میاں برادران نے ایسی ’’گُگلی‘‘ ماری کہ ’’کپتان صاحب‘‘ چاروں شانے چِت ہو گئے۔یہ ’’فاؤل پلے‘‘ تھا کیونکہ خاں صاحب کو بتایا ہی نہیں گیا کہ میاں برادران’’ انتخابی گُگلی‘‘ کے ماہر ہیں۔اِس’’ فاؤل پلے‘‘کا سارا غصّہ خاں صاحب نے مولانا فضل الرحمٰن پر نکالنا چاہا لیکن شاید بھولے بھالے کپتان نہیں جانتے تھے کہ جس شخص سے وہ ’’متھّا ‘‘ لگا رہے ہیں وہ اِس میدان کا ماہر کھلاڑی ہے۔لاریب ، بیان بازی میں اگر خاں صاحب انیس ہیں تو مولانا بیس۔

ََ مولانا کہتے ہیں کہ عمران خاں اچھّے خاوند ثابت ہوئے ، نہ باپ۔اِس لیے وہ اچھے سیاستدان کیسے ثابت ہو سکتے ہیں۔مولانا جیسے گھاگ سیاستدان سے ایسی لایعنی اور بے معنی بات کی توقع نہیں تھی۔ اچھا خاوند تو ’’ہوم گورنمنٹ ‘‘ کے تابع ہوتا ہے جسے امورِ خانہ داری سے ہی فُرصت نہیں ہوتی وہ امورِ مملکت کیا خاک سَر انجام دے گا ۔اِس لیے اچھاسیاستدان بننے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اچھا خاوند یعنی ’’زَن مرید‘‘ نہ ہو۔ دراصل اب کی بار مولاناکو میاں نواز شریف سمیت کسی نے بھی ’’لفٹ‘‘ نہیں کرائی جِس کا اُنہیں بہت قلق ہے۔ اسی غصّے میں وہ بے سر و پا باتیں کر رہے ہیں۔

ایک سچّے رہنما کے نزدیک قوم اُس کی اولاد کی مانندہوتی ہے ۔اِس لحاظ سے اگر عمران خاں صاحب کی محبت کی وراثت اُن کے چاہنے والوں میں تقسیم کی جائے تو اُن کے بیٹوں کے حصے میں شاید اتنا پیار بھی نہ آئے ، جتنا وہ دے رہے ہیں۔البتہ مولانا صاحب اپنی محبت کی ریوڑیاں صرف اپنوں میں ہی بانٹ رہے ہیں اوراُن کے خاندان کا شاید ہی کوئی فرد بچا ہو جسے مولانا اسمبلی میں لانے کی تگ و دو نہ کر رہے ہوں۔ اِس معاملے میں تحریکِ انصاف کے وزیرِ اعلیٰ اور سپیکر مولاناسے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ۔وزیرِ اعلیٰ کی خالی کی گئی سیٹ پر اُن کے داماد اور سپیکر کی خالی کی گئی سیٹ پر اُن کے بھائی نے ضمنی الیکشن میں حصّہ لیا۔شاید اسی لیے عمران خاں صاحب نے یہ کہا ہے کہ چونکہ وہ ’’بیمار شمار ‘‘ تھے اِس لیے وہ خیبر پختونخواہ حکومت کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکے ۔ ہم تو خاں صاحب سے یہی استدعا کر سکتے ہیں کہ وہ مداخلت نہ ہی کریں تو اچھا ہے کیونکہ ایسی صورت میں وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کے بُرا مان جانے کاقوی امکان ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ پرویز خٹک صاحب KPK میں فارورڈ بلاک بنا کر بیٹھ جائیں اور خاں صاحب کے پاس صرف سپیکر ہی باقی بچے ۔

عمران خاں کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے KPKسے نئے پاکستان کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن کچھ بَد باطن یہ کہتے ہیں کہاگر کسی کا نام نیا پاکستان ہے کہ طالبان دِن دھاڑے ڈیرہ اسمٰعیل خاں کی جیل توڑ کر اپنے سینکڑوں ساتھی چھُڑا لے جائیں تو اﷲ ایسے ’’نئے پاکستان ‘‘ سے بچائے۔ایسے بَد باطنوں کو مُنہ توڑ جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ خاں صاحب اب یہ راز اُگل دیں کہ یہ سب کچھ تو خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت کیا تھا تاکہ طالبان کا غصّہ کچھ ٹھنڈا ہو اور وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 643426 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More