پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا کردار مخصوص دائرے تک ہی
محدود رہا لیکن قومی کردار کی تعمیر، تہذیبی و اخلاقی اقدار کی پاسداری اور
اصلاح احوال سے کبھی غفلت نہیں برتی گئی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز پر
پاکستان میں جیسے ہی نجی ٹی وی چینلوں کے آغاز کے ساتھ ہی جو ابلاغی انقلاب
برپا ہوا اس نے ملک کو سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی اور نظریاتی جڑوں
کواورمضبوط بنا ڈالا ہے۔ جدید دور میں عوام کی سوچ و فکر پر گہرا اثر مرتب
کرنے والا میڈیا اب پاکستان میں ایک ایسی دو دھاری تلوار ثابت ہو رہا ہے جو
اپنے ملک کی نظریاتی، اخلاقی و حقیقی سرحدوں کو بلند بام پہنچارہا ہے ۔ہر
دور حکومت میں صحافیوں کو کبھی خریدنے اور کبھی جھکنے پر مجبور کیا جاتا
رہا ہے مانا کہ قلیل تعداد میں ایسے بھی صحافی رہے ہیں جنھوں نے اس شعبہ
کیلئے کلک کا کام کیا ہے مگر کثیر تعداد ایسی ہے جو مشکل وقت میں بھی سچائی
اور حقیقت سے دور نہیں ہوتے ،انہیں اسی ثابت قدمی کی کئی سزائیں بھی بھگتنی
پڑتی ہیں ۔اصل میں کسی بھی ریاست کی حفاظت کے دو سپہ سالار ہوتے ہیں ایک وہ
جو ریاست کے باہر بارڈر پر دشمن کے نقل و حمل پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے تو
دوسرا وہ جو ریاست کے اندر پنپنے والی ملک دشمن سازشیں کو عیاں کرتا ہے
اپنے قلم اور بیان سے۔اب تو شوشل میڈیا یعنی انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور
موبائل سے میں بھی خبر کی تقسیم کی جاتی ہیں لیکن ان سب میں، سب سے طاقتور
الیکٹرونک میڈیا ہے ۔پاکستان میں باقائدہ نجی سطح پر سٹیلائٹ ٹیلیویژن چینل
اے آر وائی تھا اس سے قبل این ٹی ایم یا ایس ٹی این کچھ وقت کیلئے آن ایئر
ہوئے تھے لیکن وہ بڑے لیول یعنی باقائدہ خودمختار سٹیلائٹ چینل نہیں رہے۔
اسی لیئے یہ بات واضع ہے کہ اے آر وائی ہی پاکستان کا سب سے پہلا اور بڑا
سٹیلائٹ چینل ہے ، اس کے بعد جیو اور پھر رفتہ رفتہ دیگر نجی چینلز آتے رہے
اور آتے رہیں گے ۔ پرویز مشرف کا میڈیا پر یہ احسان ہے کہ اس نے میڈیا کے
لائسنس کی اجازت دی اور اس عمل سے نہ صرف الیکٹرونک میڈیا کا میدان پھیلا
بلکہ پرنٹ میڈیا میں بھی کئی اخبارات آئے اور ریڈیو کی دنیا میں نئی کہکشاں
پھوٹیں جن میں ایف ایم کی بھرمار ہوگئی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ پرویز شرف نے
اپنے دور حکومت میں جیو اوراے آر وائی نیٹ ورک کے چند چینل پر پیمرا کے
ذریعے پابند سلاسل کردیا لیکن پھر جلد ہی پابندی اٹھالی۔اس کی کئی وجوہات
ہیں جس کی بحث یہاں ضروری نہیں۔بحرحال آج کے میڈیا کے صحافی اپنے فرائض
منصبی کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اور اسے عبادت جانتے ہوئے خدمت پر مامور ہیں
لیکن کچھ مفاد پرست، طاقور قوتیں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں جن میں صحافی
اور مالکان شامل ہیں انہیں خریدنے ، گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ،یہ
بھول جاتے ہیں کہ صحافی اور میڈیا کے مالکان نہ بکنے والے لوگ ہیں نہ ڈرنے
والے ان کا تو صرف ایک مقصد حیات ہوتا ہے ایک وطن عزیز کی خدمت دورسرا عوام
الناس کی خدمت۔۔ صحافی حضرات اور مالکان کا یہ عمل انہیں پسند نہیں ایسی
سچائی اور خلوص کی قیمت جہاں صحافی ادا کرتا ہے وہیں ان کے مالکان بھاری
قیمت ادا کرتے ہیں ، حکومت ہو یا دیگر با اختیار لوگ۔۔ سب جانتے ہیں کہ یہ
دور جدید کمپیوٹرائز دور ہے جہاں پل بھر میں خبر کہاں کی کہاں پہنچ جاتی ہے
یہ دور الیکٹرونک دور ہے اس میں حقائق کو چھپایا نہیں جاسکتا ۔رپورٹرز،
ایڈیٹرز اور اینکرزحضرات صحافتی دشمنوں کا خاص نشانے پر رہتے ہیں ،ان میں
رپورٹرز فیلڈ میں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہوتے ہیں تو ڈیسک یعنی
سینٹرل کنٹرول میں ایڈیٹر اپنی خدمات میں جھتے رہتے ہیں تیسری جانب
الیکٹرونک میڈیا میں اینکر حالات حاضرہ کی وضاحت اور ریاستی ذمہ داران سے
پوچھ گچھ کرتے ہیں کہ آخر حقائق کیا ہیں؟؟ ظاہر ہے ان میں ایسے بھی ریاستی
عہدوں پر ہونگے جو ریاست میں بد امنی کے اصل ذمہ دار ہوں تو یہ کیسے ممکن
کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کریں بلکہ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ جبرو
دھمکیوں سے کام نکال لیا جائے یا پھر راستہ سے ہٹھا دیا جائے ۔۔۔صحافیوں کے
حقوق کی ایک عالمی تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد،
یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ تک کے خلاف کوئی سرکاری کاروائی
نہیں ہوتی،حکومت کی طرف سے صحافیوں کے خلاف تشدد پر ایکشن نہ لینے کی وجہ
سے گزشتہ پانچ برس میں صحافت سے منسلک افراد کے لیے حالات زیادہ خراب ہوئے
ہیں،اگر حکومت صحافیوں کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں ناکام رہی تو ملک میں
جمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔عالمی ادارہ برائے تحفظ نیوز یعنی آئی
این ایس آئی کی رپور ٹ کے مطابق رواں سال کے چند ماہ میں پاکستان پانچ
صحافیوں کی ہلاکت کے ساتھ دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک بن گیاہے،حالیہ
سالوں میں پاکستان مسلسل اس فہرست میں اوپر ہی نظر آرہا ہے،پاکستان میں
صحافی سیاسی گروہوں کے درمیان کشمکش یا پھر سیکورٹی فورسز اور شدت پسندوں
کے درمیان لڑائی کی نظر ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چار صحافی بم دھماکوں میں
ہلاک ہوئے،یہ صحافی بم دھماکے کے بعد واقعہ کی رپورٹنگ کے دوران دوسرے
دھماکے کی زد میں آ گئے تھے۔جب سے نجی چینل کا سلسلہ بڑھا ہے اور صحافت کو
آزاد جگہ میسر آئی ہے تب سے صحافیوں اور میڈیا پرسن کا ٹارگٹ کلنگ اور تشدد
بڑھ گیا ہے کیونکہ نجی چینلز اخلاقی ضابطوں کے علاوہ آزاد ہوتے ہیں اور وہ
حقیقت کو بیان اور دکھا سکتے ہیں یہی ملک کے ناپسندیدہ لوگوں کو اچھی نہیں
لگتی۔اے آر وائی، جیو، ٹی وی ون، سما، ڈان، آج ، دنیا، ایکسپریس کون سا
ایسا چینل ہے جس کے صحافی اور میڈیا پرسن ریاستی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنا
ہو اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والی صحفای شخصیات بھی اسی قدر
دباؤ کا شکار رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان حکومت کے جانب سے اے آر وائی کے
سی ای او سلمان اقبال،سینئر ایگزیکیٹوپروڈیوسراویس یوحید ، کوئٹہ کے بیورو
چیف شاہد رند،اسلام آباد کے بیورو چیف صابر شاکرکے خلاف مقدمہ دائر کیا ،جس
کی پورے ملک کے چپہ چپہ شہر شہر میںصحافتی بھائیوں، تنظیمی عہدیداروں ،
سیاسی لیڈروں، سماجی، مذہبی، تجارتی، نوکر شاہی اور شعبہ ہائے زندگی کی
دیگر شخصیات نے اس مقدمہ پر شدید مذمت کا اظہار کیا۔اے آر وائی نیوز پر
ہونے والا مقدمہ آزادی صحافت پر قدغن لگانے کے مترادف ہے کیونکہ قائد اعظم
ریذیڈنسی پر حملے کے حقائق دکھانے کی سزا اے آروائی نیوز کو دی گئی ہے ، جو
کام ریاست کا تھا اے آروائی نے کیا، جسے اس کی سزا دی گئی ، وہ حکومت جو
قائد اعظم ریذیڈنسی کو نہ بچا سکی وہ اے آروائی پر مقدمہ درج کرکے دہشت
گردوں کو بچارہی ہے ،قائد اعظم کا دہشت گر د ہمارا دہشت گرد ہے ، بلوچستان
حکومت دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے، حقائق چھپانے کے لیے اے
آروائی نیوز پر مقدمہ درج کیا ہے،آزادی صحافت اور اظہار پر پابندی
غیرجمہوری عمل ہے، اے آر وائی نیوز پر مقدمہ ریاستی دہشت گردی ہے، آزادی
صحافت پر بلوچستان حکومت کا وار غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے،
حقیقت تو یہ ہے کہ اے آر وائی نیوز کا کردار جذبہ حب الوطنی بیدار کرنے میں
صف اول کا ہے، بلوچستان حکومت انتقامی کارروائی سے پیش آرہی ہے، ظالموں کے
خلاف حق بات کہنا جہاد ہے، یقینا اے آروائی کیخلاف سازشیں کامیاب نہیں ہوں
گی۔ |