مشتاق احمد یوسفی ’’آبِ گُم ‘‘ کے آئینے میں

معروف مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کی ’’آب گُم ‘‘ سے چند منتخبات پیش کرتا ہوں ۔
پروفیسر ڈاکٹر سیّد مجیب ظفر انوار حمیدی
بی ایس ۲۱ ، سابق ایجوکیشن ایڈوائزر ، حکومتِ پاکستان برائے حکومتِ امریکہ ۲۰۰۴۔ ۸
کھنڈر میں چراغاں​
مشتاق احمد یوسفی صاحب

کم و بیش پینتالیس برس کا ساتھ تھا۔ نصف صدی ہی کہیے۔ بیوی کے انتقال کے بعد بشارت بہت دن کھوئے کھوئے سے، گُم صُم رہے۔ جیسے انہوں نے کچھ گم نہ کیا ہو، خود گم ہو گئے ہوں۔ جوان بیٹوں نے میت لحد میں اتاری، اس وقت بھی وہ صبر و ضبط کی تصویر بنے، تازہ کھدی ہوئی مٹی کے ڈھیر پر خاموش کھڑے دیکھا کیئے۔ ابھی ان کے بٹوے میں مرحومہ کے ہاتھ کی رکھی ہوئے الائچیاں باقی تھیں۔ اور ڈیپ فریزر میں اس کے ہاتھ کے پکائے ہوئے کھانوں کی تہیں لگی تھیں۔ کروشیے کی جو ٹوپی وہ اس وقت پہنے ہوئے تھے وہ اس جنتی بی بی نے چاند رات کو دو بجے مکمل کی تھی تا کہ وہ صبح اسے پہن کر عید کی نماز پڑھ سکیں۔ سب مٹھی بھر بھر کے مٹی ڈال چکے اور قبر گلاب کے پھولوں سے ڈھک گئی تو انہوں نے مرحومہ کے ہاتھ کے لگائے ہوئے موتیاکی چند کلیاں جن کے کھلنے میں ابھی ایک پہر باقی تھا، کُرتے کی جیب سے نکال کر انگارہ پھولوں پر بکھیر دیں۔ پھر خالی خالی نظروں سے اپنا مٹی میں سنا ہوا ہاتھ دیکھنے لگے۔ اچانک ایک ایسا سانحہ ہو جائے تو کچھ عرصے تک تو یقین ہی نہیں‌ آتا کہ زندگی بھر کا ساتھی یوں آناً فاناً بچھڑ سکتا ہے۔ نہیں۔ اگر وہ سب کچھ خواب تھا تو پھر یہ بھی خواب ہی ہو گا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی یہیں کسی دروازے سے مسکراتی ہوئی آ نکلے گی۔ رات کے سناٹے میں کبھی کبھی تو قدموں کی مانوس آہٹ اور چوڑیوں کی کھنک تک صاف سنائی دیتی۔ اور وہ چونک پڑتے کہ کہیں آنکھ تو نہیں جھپک گئی تھی۔ کسی نے ان کی آنکھیں نم نہیں دیکھیں۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے ان کے صبر و استقامت کی داد دی۔ پھر اچانک ایک واشگاف لمحہ آیا کہ یکلخت یقین آ گیا۔ پھر سارے پندار پشتے اور سارے آنسو بند اور تمام صبر فصیلیں ایک ساتھ ڈھے گئیں۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔

لیکن ہر رنج رفتنی ہے اور ہر عیش گزشتنی۔ جیسے اور دن گزر جاتے ہیں یہ دن بھی گزر گئے۔ قدرت نے بقول لاروش فو کو کچھ ایسی حکمت رکھی ہے کہ انسان موت اور سورج کو زیادہ دیر ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھ سکتا۔ رفتہ رفتہ صدمے کی جگہ رنج اور رنج کی جگہ اداس تنہائی نے لے لی۔ میں جب میامی سے کراچی پہنچا تو وہ اسی دور سے گزر رہے تھے۔ بے حد اداس۔ بے حد تنہا۔ بظاہر وہ اتنے تنہا نہیں تھے جتنا محسوس کرتے تھے۔ مگر آدمی اتنا ہی تنہا ہو تا ہے۔ جتنا محسوس کرتا ہے۔ تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے، آئینے کو مقابل پاتا ہے۔ اسی لیے وہ تنہائی یعنی اپنی ہی صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔ تنہا آدمی کی سوچ اس کی انگلی پکڑ کے کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ، ایک ایک پگڈنڈی، گلی کوچے اور چوراہے پر لے جاتی ہے۔ جہاں جہاں راستے بدلے تھے اب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ درحقیقت راستے نہیں بدلے انسان خود بدل جاتا ہے۔ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ راہ کبھی گم نہیں ہوتی۔ راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں۔

پیری میں، پرانی ضرب المثل کے مطابق، صد عیب ہوں یا نہ ہوں، ایک عیب ضرور ہے جو سو عیبوں پر بھاری ہے۔ اور وہ ہے ناسٹلجیا۔ بڑھاپے میں آدمی آگے یعنی اپنی منزلِ نامقصود و ناگزیر کی جانب بڑھنے کے بجائے الٹے پیروں اس طرف جاتا ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پیری میں ماضی اپنی تمام مہلک رعنائیوں کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ بوڑھا اور تنہا آدمی ایک ایسے کھنڈر میں رہتا ہے جہاں بھری دوپہر میں چراغاں ہوتا ہے اور جب روشنیاں بجھا کے سونے کا وقت آتا ہے تو یادوں کے فانوس جگمگ جگمگ روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کی روشنی تیز ہوتی ہے، کھنڈر کی دراڑیں، جالے اور ڈھنڈار پن اتنے ہی زیادہ اجاگر ہوتے جاتے ہیں۔


آبِ گُم - شہر دو قصہ
ماضی تمنائی اور برزخِ گم گشتہ​

کراچی میں اللہ نے انہیں اتنا دیا کہ خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اپنے مالوف و متروکہ دیار کانپور جانے کی انھیں کبھی خواہش نہیں‌ ہوئی۔ مگر اس سانحے کے بعد یگبارگی ایک ہوک سی اٹھی اور انہیں کانپور کی یاد بے تحاشا ستانے لگی۔ اس سے پہلے ماضی نے ان کے وجود پر یوں پنجے گاڑ کر قبضہ نہیں جمایا تھا۔ حال سے گریزاں، حاضر و موجود سے منحرف، مستقبل سے مستغنٰی۔ اب وہ صرف ماضی میں جی رہے تھے۔ حال میں کوئی خاص خرابی نہیں تھی۔ بجز اس کے کہ بوڑھے آدمی کے حال کی سب سے بڑی خرابی اس کا ماضی ہوتا ہے جو بھلائے نہیں بھولتا۔

اک عمر سے ہوں لذتِ نسیاں سے بھی محروم

ہر واقعے، بلکہ ساری زندگی کی فلم الٹی چلنے لگی۔ جٹا دھاری برگد کرودھ میں آ کر، پھننگ کے بل اپنی بھجنگ جٹائیں اور پاتال جڑیں آسمان کی طرف کر کے سیس آسن میں الٹا کھڑا ہو گیا۔ پینتیس برس بعد انہوں نے اپنے برذخِ گم گشتہ کانپور جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ گلیاں، بازار، محلے، آنگن، چارپائی تلے ادھورے چھڑکاؤ سے رات گئے تک جوان پنڈے کی طرح سلگتی چھتیں۔ وہ دوانی خواہشیں جو رات کو خواب بن بن کے آئیں اور وہ خواب جو دن میں سچ مچ خواہش بن جاتے۔ سب ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔ حد یہ کہ وہ اسکول بھی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگا، جس سے بھاگنے میں اتنا مزہ آتا تھا۔ سب مزوں، سب یادوں نے یکبارگی یورش کر دی۔ دوستوں سے چرچرائی چارپائیاں اور ہری بھری نبولیوں سے لدے پھندے نیم کی چھاؤں، آموں کے بور اور مہوے کی مہکار سے بوجھل پروا، املی پر گدرائے ہوئے کتارے اور انہیں للچائی نظروں سے دیکھتی لڑکیاں اور انہیں ویسی ہی نظروں سے دیکھتے ہوئے لڑکے، ہرنوں سے بھرے جنگل، چھرے سے زخمی ہو کر دو تین سو فٹ کی بلندی سے گد سے گرتی ہوئی مرغابی، خس کی ٹٹیاں، سنگھاڑوں سے پٹے تالاب، گلے سے پھسلتا مخمل فالودہ، مولسری کے گجرے، گرمیوں کی دوپہر میں جامن کے گھنے پتوں میں چھپے ہوئے گرگٹ کی لپلپاتی مہین زبان، اپنے چوکنے کانوں کو ہوا کے رخ کے ساتھ ٹیون کیے ٹیلے پر تنہا کھڑا ہوا بارہ سنگھا، امڈ گھمڈ جوانی اور پہلے پیار کی گھٹا ٹوپ اداسی، وہ صندل باہیں جو سوتے جاگتے تکیہ تصور تھیں، تازہ کلف لگے دوپٹے کی کراری مہک، دھوم مچاتے دوست - ماضی کے کوہِ ندا سے ایسے بلاوے، ایسی صدائیں آنے لگیں کہ

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

وہ اب بچے نہیں رہے تھے، ہمارا مطلب ہے ستر سے متجاوز تھے۔ لیکن انہیں ایک لحظے کے لیے بھی یہ خیال نہ آیا کہ یہ تمام رنگین اور رومینٹک چیزیں - جنہیں مرزا عبدالودود بیگ آلاتِ کشادرزی کی مناسبت سے “ عہد شباب کے آلاتِ خلاف ورزی “ کہتے ہیں - جہیں یاد کر کر کے وہ سو سو decibel کی آہیں بھرنے لگے تھے، پاکستان میں نہ صرف بافراط بلکہ کہیں بہتر کوالٹی کی دستیاب تھیں۔ ہاں صرف ایک شے پاکستان میں مفقود تھی۔ اور وہ تھی ان کی جوانی۔ سو وہ بعد تلاشِ بسیار و بے سود کانپور میں بھی نہ ملی۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
یہ بچے کتنے بوڑھے ہیں، یہ بوڑھے کتنے بچے ہیں​

انھوں نے اپنے نارتھ ناظم آباد والے گھر کے سامنے مولسری کا درخت لگانے کو تو لگا لیا، لیکن یادوں کی مولسری کی بھینی بھینی مہک، بچپن اور چھب چھاؤں کچھ اور ہی تھی۔ اب وہ انواع و اقسام کے پھول کہاں کہ ہر پھول سے اپنی ہی خوشبو آئے۔ ان پر بھی وہ مقام آیا جو بڑھاپے کے پہلے شب خون کے بعد ہر شخص پر آتا ہے، جب دفعتاً اس کا جی بچپن کی دنیا کی ایک جھلک - آخری جھلک - دیکھنے کے لیے بےقرار ہو جاتا ہے۔ لیکن اسے کہ علم نہیں ہوتا کہ بچپن اور بڑھاپے کے درمیان کوئی غیبی ہاتھ چپکے سے سو گنی طاقت کا magnifier (محدب عدسہ) رکھ دیتا ہے۔ دانا کبھی اس شیشے کو ہٹا کر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کے ہٹتے ہی ہر چیز خود اپنا miniature (تصغیر) معلوم ہونے لگتی ہے۔ کل کے دیو بالکل بالشتیے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر آدمی اپنے بچپن کے locale (جائے ورود و واردات) سے عرصہ دراز تک دور رہا ہے تو اسے ایک نظر آخری بار دیکھنے کے لیے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔ لیکن وہ جاتا ہے۔ وہ منظر اسے ایک طلسمی مقناطیس کی مانند کھنچتا ہے اور وہ کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اسے کیا معلوم کہ طفلِ طلسمات پر جہاں دیدہ آنکھ پڑ جائے تو سارے طلسم ٹوٹ جاتے ہیں۔ بہروپ نگر کی ساری پریاں اُڑ جاتی ہیں اور شیش محل پر کالک پت جاتی ہے۔ اور اس جگہ تو اب مقدس خوشبوؤں کا دھواں ہی دھواں ہے۔ یہاں جو کام دیو کی دہکتی دھنک کمان ہوا کرتی تھی وہ کیا ہوئی؟

یہ دھواں جو ہے یہ کہاں کا ہے؟
وہ جو آگ تھی وہ کہاں کی تھی؟

آدمی کو کسی طرح اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔ وہ رُوپ سُروپ کیا ہوا؟ وہ چہکار مہکار کہاں گئی؟ نہیں۔ یہ تو وہ اوراق مصور کوچے اور بازار نہیں جہاں ہر چیز اچنبھا لگتی تھی۔ یہ ہر چیز، ہر چہرے کو کیا ہو گیا؟


جس گھڑی یہ طلسم ٹوٹتا ہے، ماضی تمنائی کی خواب سرا ڈھے جاتی ہے۔ پھر اس شخص کا شمار نہ بچوں میں ہوتا ہے، نہ بوڑھوں میں۔ جب یہ مقام آتا ہے تو آنکھیں یکایک “ کلر بلائینڈ “ ہو جاتی ہیں۔ پھر انسان کو سامنے ناچتے مور کے صرف پیر دکھائی دیتے ہیں اور وہ انہں دیکھ دیکھ کے روتا ہے، ہر سُو بے رنگی اور بے دلی کا راج ہوتا ہے۔

بے حلاوت اس کی دنیا اور مذبذب اس کا دیں

آبِ گُم - شہر دو قصہ
جس شہر میں بھی رہنا، اُکتائے ہوئے رہنا​
سو اس طفل بزرگ نے کانپور جا کر بہت گریہ کیا۔ پینتیس برس تک تو اس پر رویا کیے کہ ہائے، ایسی جنت چھوڑ کر کراچی کیوں آ گئے۔ اب اس پر روئے کہ لاحول ولا قوۃ اس سے پہلے ہی چھوڑ کی کیوں نہ آ گئے۔ خواہ مخواہ عمر عزیز کی ایک تہائی صدی غلط بات پر رونے میں گنوا دی۔ رونا ہی ضروری تھا تو اس کے لیے 365 معقول وجوہات موجود تھیں، اس لیے کہ سال میں اتنی ہی مایوسیاں ہوتی ہیں۔ اپنی “ ڈریم لینڈ “ کا چپہ چپہ چھان مارا، لیکن

وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی، وہ رنگ نہ لوٹ کے پھر آیا

پینتیس برس پرانا ناسٹلجیا یکایک ٹوٹا تو ہر جگہ اجاڑ اور ہر شے کھنڈر نظر آئی۔ حد یہ کہ جس مگر مچھ بھرے دریا میں کہ جس کا اور نہ چھور، وہ فلک بوس برگد کی پھننگ سے بے خطر چھلانگ لگا دیا کرتے تھے، اب اسے جا کر پاس سے دیکھا تو ایک مینڈک بھر برساتی نالا نکلا۔ اور وہ جبر جنگ برگد تو نرا بونسائی پیڑ لگ رہا تھا۔

ماضی کے دشتِ بازگشت میں وہ اپنے ہمزاد کا خیمہ زنگار گوں نہ پہچان پائے۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
کبوتر خانے کا چربہ​
یونانی کورس (Greek Chorus) بہت فلسفہ چھانٹ چکا۔ اب اس کہانی کو خود اس کے ہیرو بشارت کی زبانی سنیے کہ اس کا مزہ ہی کچھ اور ہے‌ :

یہ افسانہ اگرچہ سرسری ہے
ولے اس وقت کی لذت بھری ہے

صاحب، میں تو اپنا مکان دیکھ کے بھونچکا رہ گیا کہ واللہ، ہم اس میں رہتے تھے، اور اس سے زیادہ حیرانی اس پر کہ بہت خوش رہتے تھے، مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ ماشاء اللہ سے ہم تلے اوپر کے نو بھائی تھے اور چار بہنیں۔ اور تلے اوپر تو میں نے محاورے کی مجبوری کے سبب کہہ دیا، ورنہ کھیل کود، کھانے اور لیٹنے بیٹھنے کے وقت اوپر تلے کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔ سب کے نام ت پر ختم ہوتے تھے۔ عشرت، عترت، راحت، فرحت، عصمت، عفت وغیرہ۔ مکان خود والد نے مجھ سے بڑے بھائی کی سلیٹ پر ڈیزائن کیا تھا۔ سو سوا سو کبوتر بھی پال رکھے تھے۔ ہر ایک کی نسل اور ذات جدا۔ کسی کبوتر کو دوسری ذات کی کبوتری سے مختلط نہیں ہونے دیتے تھے۔ لکڑی کی دکان تھی۔ ہر کبوتر کا خانہ اس کی جسامت، عاداتِ قبیحہ اور دُم کی لمبائی کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بناتے تھے۔ صاحب، اب جو جا کے دیکھا تو مکان کے آرکی ٹیکچر میں سراسر ان کے اس شوق فضول کا عکس اور عمل دخل نظر آیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سارا مکان دراصل ان کے کبوتر خانے کا بھونڈا سا چربہ تھا۔

والد بہت دور اندیش اور پریکٹیکل تھے۔ اس اندیشے سے کہ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی اولاد جائداد کے تقاسمہ پر جھگڑا کرئے گی، وہ ہر بیٹے کے پیدا ہوتے ہی اس کا علیحدہ کمرا بنوا دیتے تھے۔ کمروں کی تعمیر میں خرابی کی ایک سے زیادہ صورتیں مضمر تھیں یعنی یہ حفظِ مراتب بھی تھا کہ ہر چھوٹے بھائی کا کمرہ اپنے بڑے بھائی کے کمرے سے لمبائی چھوڑائی میں ایک ایک گز چھوٹا ہو۔ مجھ تک پہنچتے پہنچتے کمرے کے حدود اربعہ تقریباً اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ پورے سات سال لگے مکان مکمل ہونے میں۔ اس عرصے میں تین بھائی اور پیدا ہو گئے۔ آٹھویں بھائی کے کمرے کی دیواریں اٹھائی گئیں تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ قدمچوں کی نیو رکھی جا رہی ہے یا کمرے کی۔ ہر نومولود کی آمد پر سلیٹ پر سابقہ نقشے میں ضروری ترمیم اور ایک کمرے کا اضافہ کرتے۔ رفتہ رفتہ سارا آنگن ختم ہو گیا۔ وہاں ہمییں ورثے میں ملنے والی کوٹھریاں بن گئیں۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
بورژوایت پر بوذریت کا گمان​

صاحب، کہاں کراچی کی کوٹھی اور اس کے ایئر کنڈیشنز اور قالین اور روبلیک پینٹ اور کہاں یہ ڈھنڈار کہ کھانس بھی دو تو واللہ پلستر جھڑنے لگے۔ چالیس برس سے رنگ سفیدی نہیں ہوئی۔ پھوپھی زاد بھائی کے مکان میں ایک جگہ ترپال کی چھت گیری بندھی دیکھی۔ کراچی اور لاہور میں تو کوئی چھت گیری اور نم گیرہ کے معنی بھی نہیں بتا پائے گا۔ چھت گیری پر تین جگہ نیل پالش سے ضرب کا نشان x بنا ہے۔ مطلب یہ کہ اس کے نیچے نہ بیٹھو۔ یہاں سے چھت ٹپکتی ہے۔ کانپور اور لکھنؤ میں جس دوست اور رشتے دار کے یہاں گیا اسے پریشان حال ہی پایا۔ آگے جو سفید پوش تھے وہ اب بھی ہیں۔ مگر سفیدی میں پیوند لگ گئے ہیں۔ اپنی عسرت اور خودداری پر کچھ زیادہ ہی فخر کرنے لگے ہیں۔ ایک نجی محفل میں، میں نے اس پر اچٹتا سا فقرہ کس دیا تو ایک جونیئر لیکچرار جو کیس مقامی کالج میں اقتصادیات پڑھاتے ہیں، بگڑ گئے۔ کہنے لگے “ آپ کی امیری امریکا اور عرب امارات کی دین ہے۔ ہماری غریبی ہماری اپنی غریبی ہے۔ ( اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے قرات سے الحمد للہ کہا) مقروضوں کے اللے تللے آپ ہی کو مبارک ہوں۔ عرب اگر تھرڈورلڈ کو عالم الفقیر کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے۔“ میں مہمان تھا۔ ان سے کیا الجھتا۔ دیر تک فقر و غنا، نانِ جویں اور خودداری اور مفلسی کے دیگر لوازمات کی مدح میں اشعار سناتے رہے۔ دو شعر حضرت ابوذر غفاری رح پر بھی سنائے۔ شرما حضوری میں نے بھی داد دی۔ مہمان جو ٹھہرا۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، آج کل ہر انٹلکچویل کو اپنی بےزری اور بورژوایت پر بوذریت کا گمان ہونے لگا ہے۔

کوئی چیز ایسی نہیں جو ہندوستان میں نہ بنتی ہو۔ ایک کانپور ہی کیا، ہر شہر کارخانوں سے پٹا پڑا ہے۔ کپڑے کی ملیں، فولاد کے کارخانے، کار اور ہوائی جہاز کی فیکٹریاں، ٹینک بھی بننے لگے۔ ایٹم بم تو عرصہ ہوا ایکسپلوڈ کر لیا۔ سیٹلائٹ بھی خلا میں چھوڑ دیا۔ عجب نہیں چاند پر بھی پہنچ جائیں۔ ایک طرف تو یہ ہے۔ دوسری طرف یہ نقشہ بھی دیکھا کہ ایک دن مجھے انعام اللہ برملائی (انعام اللہ ایک زمانے میں اس پر بہت فخر کرتے تھے کہ وہ ناگفتنی بات برملا کہہ دیتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کا لقب برملائی پڑ گیا۔) کے ہاں جانا تھا۔ ایک پیڈل رکشا پکڑی۔ رکشا والا مدقوق سا تھا۔ بنیان میں سے بھی پسلیاں نظر آ رہی تھیں۔ منھ سے بنارسی قوام والے پان کے بھبکے نکل رہے تھے۔ اس نے انگلی کا آنکڑا (ہُک) سا بنا کر پیشانی پر پھیرا تو پسینے کی تللی بندھ گئی۔ پسینے نے منھ اور ہاتھوں پر لسلسی چمک پیدا کر دی تھی جو دھوپ میں ایسی لگتی تھی جیسے ویسلین لگا رکھا ہو۔ ننگے پیر، سوکھی کلائی پر کلائی سے زیادہ چوڑی گھڑی۔ ہینڈل پر پروین بوبی ایکٹرس کا ایک سیکسی فوٹو۔ پیڈل مارتے میں دہرا ہو ہو جاتا اور پسینے میں تر پیشانی بار بار بوبی پر سجدہ ریز ہو جاتی۔ مجھے ایک میل ڈھو کے لے گیا۔ مگر گیس کیجیئے کتنا کرایہ مانگا ہو گا؟ جناب، کُل پچھتر پیسے، خدا کی قسم، پچھتر پیسے، میں نے ان کے علاوہ چار روپے پچیس پیسے کا ٹپ دیا تو پہلے تو اسے یقین نہیں آیا۔ پھر باچھیں کھل گئیں۔ کدو کے بیجوں جیسے پان آلودہ دانت نکلے رہ گئے۔ میرے بٹوے کو حریص نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا “ بابو جی آپ پاکستان سے آئے ہیں ؟ “ میں نے کہا “ ہاں - مگر پینتیس برس پہلے یہیں ہیرامن کے پردے میں رہتا تھا۔“ اس نے پانچ کا نوٹ انٹی سے نکال کر لوٹاتے ہوئے کہا “ بابو جی، میں آپ سے پیسے کیسے لے سکتا ہوں۔ آپ سے تو محلے داری نکلی، میری کھولی بھی وہیں ہے۔“

آبِ گُم - شہر دو قصہ
غریب غرانے لگے​

اور آبادی؟ الامان، الحفیظ، بارہ ماسی میلے کا سماں ہے۔ زمین سے ابلے پڑتے ہیں۔ بازار میں آپ دو قدم نہیں چل سکتے، جب تک کہ دائیں بائیں ہاتھ اور کہنیاں نہ چلائیں۔ خشکی میں کھڑی تیراکی کہیے جہاں کہنی مارنے کی بھی گنجائش نہ ہو وہاں لوگ ایک جگہ سے دوسرے جگہ محض بھیڑ کے دھکے سے پہنچ جاتے ہیں۔ لکھوکھا آدمی فٹ پاتھ پہ سوتے ہیں۔ وہیں ہو مرحلے سے گزر جاتے ہیں۔ مگر فٹ پاتھ پہ سونے والا کسی سے دبتا ہے نہ ڈرتا ہے۔ نہ حکومت کو برا کہنے سے پہلے مڑ کر دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ ہمارے زمانے کے غریب واقع میں مسکین ہوتے تھے۔ اب غریب غراتے بہت ہیں۔ سائیکل رکشہ کو تو پھر بھی راستہ دے دیں گے، مگر کار کے سامنے سے ذرا جو ہٹ جائیں۔ عزیز الدین وکیل کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں سیاسی بیداری بہت بڑھ گئی ہے۔ واللہ اعلم، میں نے تو یہ دیکھا کہ جتنی غریبی بڑھتی ہے اتنی ہی ہیکڑی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ بلیک کا پیسا وہاں بھی الغاروں ہے، مگر کسی کی مجال نہیں کہ امارت کی نمائش کرئے۔ شادیوں میں کھاتے پیتے گھرانوں تک کی خواتین کو سوتی ساڑھی اور چپل پہنے دیکھا۔ مانگ میں اگر سیندور نہ ہو تو واللہ بیوہ کا گمان ہو۔ چہرے پر قطعاً کوئی میک اپ نہیں۔ جب کہ اپنے ہاں یہ حال کہ ہم مرغی کی ٹانگ کے بھی ہاتھ نہیں لگاتے جب تک اس پر روژ نہ لگا ہو۔ صاحب، آپ نے طارق روڈ کے لال بھبوکا چکن تکے دیکھے ہیں؟ کانپور میں، میں نے اچھے اچھے گھروں میں دریاں اور بید کے صوفہ سیٹ دیکھے۔ اور بعض تو وہی ہیں جن پر ہم پینتیس سال پہلے اینڈا کرتے تھے۔ صاحب، رہن سہن کے معاملے میں ہندوؤں میں اسلامی سادگی پائی جاتی ہے۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو،​

کہنے کو تو آج بھی اردو بولنے والے اردو ہی بولتے ہیں۔ مگر میں نے ایک عجیب تبدیلی محسوس کی۔ عام آدمی کا ذکر نہیں، اردو کے پروفیسروں اور لکھنے والوں تک کا لہجہ نہیں رہا جو ہم آپ چھوڑ آئے تھے۔ کرارا پن، کھڑا پن، وہ کڑی کمان والا کھٹکا جاتا رہا ۔ دیکھتے دیکھتے ڈھلک کر ہندی کے پنڈتائی لیجے کے قریب آ گیا ہے۔ singsong لہجہ You know what I mean یقین نہ آئے تو آل انڈیا ریڈیو کی اردو خبروں کے لہجے کا کراچی ریڈیو یا میرے لہجے سے موازنہ کر لیجیئے۔ میں نے پائنٹ آوٹ کیا تو انعام اللہ برملائی سچ مچ آفنڈ ہو گئے۔ ارے صاحب وہ تو ذاتیات پر اتر آئے۔ کہنے لگے “ اور تمھاری زبان اور لب و لہجے پر جو پنجاب دی چھاپ ہے؟ تمہیں نظر نہیں آتی، ہمیں آتی ہے۔ تمہیں یاد ہو گا، 3 اگست 1947ء کو جب میں تمہیں ٹرین پر سی آف کرنے گیا تو تم سیاہ رامپوری ٹوپی، سفید چوڑی دار پاجامہ اور جودھپوری جوتی پہنے ہاتھ کا چلو بنا بنا کر آداب تسلیمات کر رہے تھے۔ کہو، ہاں، کلے میں پان، آنکھوں میں ممیرے کا سرمہ، ململ کے چنے ہوئے کرتے میں عطرِ گِل، (عطرِ گِل بارش کے پہلے چھینٹوں سے بھیگی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کا عطر جو اُترتی گرمیوں میں لگاتے تھے۔ اب جسم قبر میں پہنچ کر ہی زمین کی خوشبو میں نہاتے ہیں۔) کہو ہاں، تم یہاں سے چائے کو چاء، گھاس کو گھانس اور چاول کو چانول کہتے ہوئے گئے۔ کہو ہاں، اور جس وقت گارڈ نے سیٹی بجائی، تم چنبیلی کا گجرا گلے میں ڈالے کوپ میں سے گرم چاء پرچ میں ڈال کے، پھونکیں مار مار کے سٹرسٹر پی رہے تھے۔ اس وقت بھی تم کراچی کو کرانچی کہہ رہے تھے۔ کہہ دو کہ نہیں۔ اور اب تین decades of decadence (عشرہ ہائے انحطاط) کے بعد سر پر سفید بالوں کا ٹوکرا رکھے ٹخنے تک حاجیوں جیسا جھابڑ جھلا کرتا پہنے، ٹانگوں پر گھر دار مشکیزے پھڑکاتے، کراچی کے کنکریٹ جنگل سے یہاں تیرتھ یاترا کو آئے ہو تو ہم تمہیں پنڈت پانڈے دکھلائی دینے لگے۔ بھول گئے تم؟ تم یہاں سے اماں، اور اے حضت کہتے گئے تھے اور اب سائیں سائیں کہتے لوٹے ہو۔“ صاحب مہمان تھا بقول آپ کے اپنی بے عزتی خراب کروا کے چپکے سے اٹھ کر رکشا میں گھر آ گیا :

جو ہونی تھی سو بات ہو لی، کہارو
چلو لے چلو میری ڈولی، کہارو

آبِ گُم - شہر دو قصہ
ہم چُپ رہے ہم ہنس دیئے​

لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔ خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نیہں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے “ للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیئے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیئے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہرِ آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں۔ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔“ وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، باوقار، غیور اور پُراعتماد ہے۔

نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اودو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مارپیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں‌ گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقل شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندہ لطیفہ تو اپنی مادرے زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر​

نشور واحدی اسی طرح تپاک اور محبت سے ملے۔ تین چار گھنٹے گپ کے بعد جب بھی میں نے یہ کہہ کر اٹھنا چاہا کہ اب چلنا چاہیے تو ہر بار ہاتھ پکڑ کے بٹھا لیا۔ میرا جی بھی یہی چاہتا تھا کہ اسی طرح روکتے رہیں۔ حافظہ خراب ہو گیا ہے ایک ہی نشست میں تین چار دفعہ آپ کے بارے میں پوچھا “ کیسے ہیں؟ سنا ہے مزاحیہ مضامین لکھنے لگے ہیں۔ بھئی حد ہو گئی۔“ منحنی اور روگی تو، آپ جانتے ہیں، سدا کے تھے۔ وزن پچھتر پونڈ رہ گیا ہے۔ عمر بھی اتنی ہی ہو گی۔ چہرے پر ناک ہی ناک نظر آتی ہے۔ منحنی پہ یاد آیا، کانپور میں چنیا کیلے، اس سائز کے، اب بھی ملتے ہیں۔ میں نے خاص طور سے فرمائش کر کے منگوائے۔ مایوسی ہوئی۔ اپنے سندھ کے چتی دار کیلوں کے آس پاس بھی نہیں۔ ایک دن میرے منھ سے نکل گیا کہ سرگودھے کا مالٹا، ناگپور کے سنترے سے بہتر ہوتا ہے تو نشور تڑپ کے بولے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ویسے نشور ماشاء اللہ چاق و چوبند ہیں۔ صورت بہت بہتر ہو گئی ہے اس لیے کہ آگے کو نکلے ہوئے لہسن کی پوتھی جیسے اوبڑ کھابڑ دانت سب گر چکے ہیں۔ آپ کو تو یاد ہو گا، ثریا ایکٹرس کیا قیامت گاتی تھی، مگر لمبے دانت سارا مزہ کرکرا کر دیتے تھے۔ سنا ہے ہمارے پاکستان آنے کے بعد سامنے کے نکلوا دیئے تھے۔ ایک فلمی رسالے میں اس کا حالیہ فوٹو دیکھا تو خود پر بہت غصہ آیا کہ کاہے کو دیکھا۔ پھر اسی ڈر کے مارے اس کے ریکارڈ نہیں سنے۔ اعجاز حسین قادری کے پاس اس زمانے کے سارے ریکارڈ مع بھونپو والے گراموفون کے ابھی تک محفوظ ہیں۔ صاحب یقین نہیں آیا کہ یہ ہمارے لیے جدید سائنس، موسیقی اور سامانِ عیش کی انتہا تھی۔ انھوں نے اس زمانے کے سر سنگیت سمراٹ سیگل کے دو تین گانے سنائے۔ صاحب، مجھے تو بڑا شاک ہوا کہ آنجہانی کے ناک سے گائے ہوئے گانوں سے مجھ پر ایسا رومانی لرزہ کیسے طاری ہو جاتا تھا۔ موتی بیگم کا منھ جھریا کر بالکل کشمش ہو گیا ہے۔ نشور کہنے لگے، میاں، تم اوروں پہ کیا ترس کھاتے پھرتے ہو۔ ذرا اپنی صورت تو 47 کے پاسپورٹ فوٹو سے ملا کے دیکھو۔

کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر
کوہ کیا اور کیا خس و خاشاک

کوئی کل ہند مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا جس میں نشور نہ بلائے جائیں۔ غالباً کسی شاعر کو اتنا معاوضہ نہیں ملتا جتنا انہیں ملتا ہے۔ بڑی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اب تو ماشاء اللہ گھر میں فرنیچر بھی ہے۔ مگر اپنی دیرینہ وضع پر قائم ہیں۔ طبیعت معمول پر تھی۔ یعنی بہت خراب۔ میں ملنے جاتا تو بان کی کھری چارپائی پر لیٹے سے اُٹھ بیٹھتے اور تمام وقت بنیان پہنے تکیے پر اکڑوں بیٹھے رہتے۔ اکثر دیکھا کہ پیٹ پر چارپائی کے بانوں کا نالی دار “پیٹرن“ بنا ہوا ہے۔ ایک دن میں نے کہا کہ پلیٹ فارم پر جب اناؤنسمنٹ ہوا کہ ٹرین اپنے نردھارت سمے سے ڈھائی گھنٹہ ولمھ سے پرویش کر رہی ہے تو بخدا میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ٹرین کیا کر رہی ہے۔ آ رہی ہے یا جا رہی ہے۔ یا ڈھائی گھنٹے سے محض کلیلیں کر رہی ہے۔ یہ سننا تھا کہ نشور بگڑ گئے۔ جوشِ بیاں میں تکیے پر سے بار بار پھسلے پڑتے تھے۔ ایک مشتعل لمحے میں زیادہ پھسل گئے تو بانوں کی جھری میں پیر کے انگوٹھے کو گھائی تک پھنسا کے فٹ بریک لگایا اور ایک دم تن کے بیٹھ گئے۔ کہنے لگے “ ہندوستان میں اردو کو مٹانا آسان نہیں۔ پاکستان میں پانچ برس میں اتنے مشاعرے نہیں ہوتے ہوں گے جتنے ہندوستان میں پانچ مہینے میں ہو جاتے ہیں۔ پندرہ بیس ہزار کا مجمع تو گویا کوئی بات ہی نہیں۔ اچھا شاعر بآسانی پانچ سات ہزار پیٹ لیتا ہے۔ کرایہ ریل، قیام و طعام اور داد اس کے علارہ۔ جوش نے بڑی جلد بازی کی، ناحق چلے گئے۔ اب پچھتاتے ہیں۔“ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ جوش کو سات آٹھ ہزار ماہوار - اور کار - دو بینکوں اور ایک انشورنس کمپنی کی طرف سے مل رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مشاہرہ اور مکان علیحدہ گو کہ اس کی نوعیت وظیفہ عتاب کی سی ہے۔

ترنم میں اب نشور کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ ٹھہر ٹھہر کی پڑھتے ہیں مگر آواز میں اب بھی وہی سوز اور گمک ہے۔ بڑی بڑی آنکھوں میں وہی چمک - تیور اور لہجے میں کھرج اور نڈر پن جو صرف اس وقت آتا ہے جب آدمی زر ہی نہیں، زندگی اور دنیا کو بھی ہیچ سمجھنے لگے۔ دس بارہ تازہ غزلیں سنائیں۔ کیا کہنے، منھ پر آتے آتے رہ گئی کہ ڈینچرز لگا کر سنائیے۔ آپ نے تو انہیں بارہا سنا ہے۔ ایک زمانے میں " یہ باتیں راز کی ہیں قبلہ عالم بھی پیتے ہیں“ والی غزل سے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مگر اب “ دولت کبھی ایماں لا نہ سکی، سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا“ والے اشعار پر داد کے ڈونگے نہیں برستے۔ سننے والوں کا مزاج بدلا ہوا ہے۔ سکوتِ سامعین بھی ایک نوع کی بے صدا ہوٹنگ ہے۔ اگر استاد داغ یا نواب سائل دہلوی بھی آج اپنی وہ توپ غزلیں پڑھیں جن سے ستر اسی برس قبل چھتیں اُڑ جاتی تھیں تو سامعین کی بدذوقی سے تنگ آ کر اٹھ کھڑے ہوں۔ مگر اب نشور کا رنگ بھی بدل گیا ہے۔ مشاعرے اب بھی لوٹ لیتے ہیں، سدا کے ملنگ ہیں۔ کہہ رہے تھے، اب کوئی تمنا، کوئی حسرت باقی نہیں۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ بیمار، نحیف و نزار، مفلوک الحال اور مطمئن و مسرور ہی دیکھا۔ ان کے وقار و تمکنت میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ اہلِ ثروت سے کبھی پچک کے نہیں ملے۔ صاحب، یہ نسل ہی کچھ اور تھی۔ وہ سانچے ہی ٹوٹ گئے جن میں یہ آشفتہ مزاج کردار ڈھلتے تھے۔ بھلا بتائیے اصغر گونڈوی اور جگر مراد آبادی سے زیادہ مدمغ اور خوددار اور کون ہو گا۔ وسیلہ معاش؟ عینکیں بیچنا، وہ بھی دکان یا اپنے ٹھیلے پر نہیں - جہاں بھی پیٹ کا دھندا لے جائے۔ نشور سے میری دوستی تو ابھی حال میں چالیس پچاس برس سے ہوئی ہے، ورنہ اس سے قبل دوسرا ہی رشتہ تھا۔ میں نے قصائیوں کے محلے میں واقع مدرسہ ضیاالاسلام میں فارسی ان ہی سے پڑھی تھی۔ اور ہاں اب اس محلے کے قصائی پوتھ کی اچکن اور سرخ پییٹنٹ لیدر کے پمپ شوز نہیں پہنتے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اپنی برادری کا مروجہ لباس ترک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
دوبارہ رشوت دینے کو جی چاہتا ہے۔​

جانے پہچانے بازار اب پہچانے نہیں جاتے۔ پر ایسے خلیق دکاندار نہیں دیکھے۔ بچھے جاتے تھے۔ دکان میں قدم رکھتے ہی ٹھنڈی بوتل ہاتھ میں تھما دیتے۔ مجھے ایسی ظالم سیلزمین شپ سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بوتل پی کے دکان سے خالی ہاتھ نکلنا بڑی بے غیرتی کی بات معلوم ہوتی تھی۔ چنانچہ سیلزمینوں کی پسند کی چیزیں خریدتا چلا گیا۔ اپنی ضرورت اور فرمائش کی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے ہی نہیں رہے۔ یقین نہیں آیا کہ جہاں اس وقت دھکم پیل، چیخم دھاڑ مچ رہی ہے اور بدبوؤں کے بگولے منڈلا رہے ہیں، یہ وہی کشادہ، صاف ستھری مال بلکہ دی مال ہے۔ صاحب انگریز نے ہر شہر میں دی مال ضرور بنائی۔ فیشن ایبل، اونچی دکانوں والی مال، زرداروں کی زر گزر کہیے۔ ابھی کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مال کے کنارے کافی دور تک ببول کی چھال بچھی ہوتی تھی، تا کہ کوتوال کے لونڈے کے گھوڑے کو دُلکی چلنے میں آسانی رہے۔ دائیں بائیں دو سائیس ننگے پیر ساتھ ساتھ دوڑتے جاتے کہ لونڈا گر نہ جائے۔ وہ ہانپنے لگتے تو وہ ہنسی سے دہرا ہو ہو جاتا۔ ہماری اس سے شناسائی ہو گئی تھی۔ ایک دفعہ ہم پندرہ بیس دوستوں کو بہرائچ کے پاس اپنے گاؤں شکار پر لے گیا۔ ہر پانچ افراد کے لیے ایک علیحدہ خیمہ، خیموں کے عقب میں ایک مودب فاصلے پر شاگرد پیشہ کی چھولداری۔ ہم خیمے ہی میں شب باش ہوتے۔ کیا بتاؤں جنگل میں کیسے عیش رہے۔ ایک رات مجرا بھی ہوا۔ صورت اتنی اچھی تھی کہ بخدا غلط تلفظ پر بھی پیار آنے لگا۔ پیشہ ور شکاری روزانہ شکار مار کے لے آتے تھے جسے باورچی لکڑیوں اور چھپٹیوں کی آگ پر بھونتے۔ ہمارے ذمے تو صرف ہضم کرنا اور یہ بتانا تھا کہ کل کون کس جانور کا گوشت کھانا پسند کرئے گا۔ سانبھر کا گوشت پہلے پہل وہیں چکھا۔ آخری شام چار بھنے ہوئے سالم کالے ہرن دسترخوان پر سجا دیے گئے۔ ہر ہرن کے اندر ایک قاز اور قاز میں تیتر اور تیتر کے پیٹ میں مرغی کا انڈا۔ ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کھاتے کیا خاک۔ کانپور کا وہ کوتوال حد درجہ لائق، معاملہ فہم، اور انتہائی خلیق اور اسی درجہ بے ایمان تھا۔ صاحب، آپ راشی، زانی اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے۔ اس واسطے کہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ کر ہی نہیں سکتا۔ اس لڑکے نے کچھ کر کے نہیں دیا۔ جگر کے سروس میں مرا۔ اس کا چھوٹا بھائی پاکستان آ گیا۔ لوگوں نے کہہ سن کے ماری پور کے اسکول میں تیچر لگوا دیا تھا۔ کوئی تین برس پہلے میرے پاس آیا تھا۔ کہنے لگا میں بی ٹی نہیں ہوں۔ قلیل تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا۔ سعود آباد سے ماری پور جاتا ہوں۔ دو جگہ بس بدلنی پڑتی ہے۔ آدھی تنخواہ تو بس کے کرائے میں نکل جاتی ہے۔ اپنے ہاں منشی رکھ لیجیئے۔ اس کی تین جوان بیٹیاں کنواری بیٹھی تھیں۔ ایک کے کپڑوں میں آگ لگ گئی۔ وہ جل کر مر گئی۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں۔ خود اسے دو ہارٹ اٹیک ہو چکے تھے۔ جنہیں اس نے سکول والوں سے چھپایا، ورنہ وہ گئی گزری ملازمت بھی جاتی رہتی۔

کوتوال سارے شہر کا، غنڈوں سمیت، بادشاہ ہوتا تھا۔ مطلب یہ کہ جسے چاہے ذلیل کر دے۔ صاحب، مرزا ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ڈیڑھ سو سال کے پوست کندہ حالات پڑھنے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تین محکمے ایسے ہیں جو روزِ اول سے بے ایمان ہیں۔ اول پولیس، دوم پی ڈبلیو ڈی، سوم انکم ٹیکس۔ اب ان میں میرے طرف سے اینٹی کرپشن کے محکمے کا اضافہ کر لیجیئے۔ یہ صرف رشوت لینے والوں سے رشوت لیتا ہے۔ رشوت ہندوستان میں بھی خوب چلتی ہے۔ مجھے بھی تھوڑا بہت ذاتی تجربہ ہوا۔ مگر صاحب، ہندو رشوت لینے میں بھی ایسی نمرتا (انکسار) ایسا اخلاق اور اعتدال برتتا ہے کہ واللہ دوبارہ دینے کو جی چاہتا ہے۔

اور صاحب، عجز و انکسار کا یہ حال کہ کیا ہندو کیا مسلمان، کیا بوڑھا کیا جوان، سب بڑی نمرتا سے ہاتھ جوڑ کر سلام پرنام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر تقریر سے پہلے اور تقریر کے بعد اور بڑے سے بڑا سنگیت سمراٹ تھی پکے راگ گانے سے پہلے اور گانے کے بعد انتہائی عاجزی کے ساتھ سامعین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ میں نے بگوش و بچشم خود ایک مشاعرے میں حضرت علی سردار جعفری کو دو بارہ طویل نظمیں سنانے کے بعد ہاتھ جوڑتے ہوئے ڈائس سے اُترتے دیکھا۔ (خیر ایسی واردات کے بعد ہاتھ جوڑنے کی وجہ ہماری سمجھ میں بھی آتی ہے)۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
بازارِ حُسن پہ کیا گزری​

اور صاحب، مول گنج دیکھ کے تو کلیجا منھ کو آنے لگا۔ یہاں بازارِ حُسن ہوا کرتا تھا۔ آپ بھی دل میں کیا کہتے ہوں گے کہ عجیب آدمی ہے۔ ڈبل حاجی، ماتھے پر گٹا، مگر ہر قصے میں طوائف کو ضرور کانٹوں میں گھسیٹتا ہے۔ کیا کروں۔ ہماری نسل تو ترستی پھڑکتی ہی بوڑھی ہو گئی۔ اس زمانے میں طوائف ادب اور اعصاب پر بری طرح سوار تھی۔ کوئی جوانی اور کہانی اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ رنڈی واحد پرئی عورت تھی جسے نظر بھر کے دیکھ سکتے تھے۔ ورنہ ہر وہ عورت جس سے نکاح جائز ہو، منھ ڈھانکے رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب طوائفوں نے گرہستنوں کے سے شریفانہ لباس اور وضع قطع اپنا لی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو، اسی چیز سے تو گھبرا کے دُکھیا تمہارے پاس آتے تھے۔ گرہستی، پاکیزگی اور یک رنگی سے اکتائے ہوئے لوگ اجنبی بدن سرائے میں رات برات بسرام کے لیے آ جاتے تھے۔ سو یہ آسرا بھی نہ رہا۔

تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مُول گنج میں بازارِ حسن ہوا کرتا تھا۔ زمانے بھر کی دُر دُر ہش ہش کے بعد طوائفوں نے اب روٹی والی گلی میں پناہ لی ہے۔ بازار کاہے کو ہے۔ بس ایک گڑ ہے۔ یہاں سے وہاں تک۔ وہ جگہ بھی دیکھی جہاں پچاس برس قبل میں اور میاں تجمل حسین دیوار کر طرف منھ کر کے سیخ سے اترتے کباب کھایا کرتے تھے۔ جیسے چٹخارے دار کباب طوائفوں کے محلے میں ملتے تھے کہیں اور نہیں دیکھے۔ سوائے لکھنؤ کے مولوی محلے کے۔ گجرے بھی غضب کے ہوتے تھے۔ اور ہاں، آپ کے لیے اسلم روڈ کا ایک باکمال کبابیا “ ڈسکور “ کیا ہے۔ آپ کے لندن جانے سے پہلے بانگی پیش کروں گا۔ اور صاحب۔ کباب میں باہر کا اور پان ہمیشہ گھر کا کھایا۔ آپ نے کبھی طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھائی ہے؟ مگر آپ تو کہتے ہیں کہ اپنے ختنوں پر مجرے کے بعد آپ نے رنڈی کا ناچ ہی نہیں دیکھا۔ اور برسوں اسی امپریشن میں رہے کہ مجرا دیکھنے سے پہلے ہر دفعہ اس مرحلے سے گزرنا ضروری ہے، رنڈی کے ہاتھ کا پان کبھی نہیں رچتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بڈھوں، بھڑ بھڑیوں اور شاعروں کو پان نہیں رچتا۔ مگر آپ ناچیز کے ہونٹ دیکھ رہے ہیں۔ آداب، میاں تجمل گھر جانے سے پہلے رگڑ رگڑ کے ہونٹ صاف کرتے اور کباب اور پیاز کے بھبکے کو دبانے کے لیے جنتان کی گولی چوستے۔ حاجی صاحب (ان کے والد) چنیوٹ سے تازہ ولایت تھے اور سیخ کے کباب اور پان کو یوپی کی عیاشیون میں شمار کرتے تھے۔ کہتے تھے، برخوردار، تمہیں جو کچھ کرنا ہے میرے سامنے کرو۔ لیکن بالفرضِ محال ان کے سامنے یہ شغل کیا جاتا تو کلہاڑی سے سر پھاڑ دیتے جو ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ وہ ایک عرصے سے بطورِ ورزش روزانہ بعد فجر دس سیر لکڑی پھاڑتے تھے۔ آندھی پانی ہو تو مردانہ بیٹھک میں دس دس سیر کے رنگین مگدر گھما لیتے۔ وہ چنیوٹ سے تلاش معاش کے لیے نکلے تو ان کے والد یعنی میاں تجمل کے دادا نے انہیں راہ راست سے بھٹکنے سے باز رکھنے کے لیے ایک ہزار دانہ (تسبیح)، ایک جوڑی مگدر، کلہاڑی اور بیوی زادِ سفر میں ساتھ کر دی۔ اور کچھ غلط نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان آلات سے شغل کرنے کے بعد بدی تو ایک طرف رہی آدمی نیکی کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔

مگر خدارا، آپ میری باتوں سے کچھ اور نہ سمجھ بیٹھیئے گا۔ بار بار طوائف اور کوٹھے کا ذکر آتا ہے۔ مگر “ تمام ہو گئیں حل مشکلات کوٹھے پر “ والا معاملہ نہیں۔ خدا گواہ ہے، بات کبھی پان اور کباب کھانے اور کوٹھے پر جانے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے سے آگے نہ بڑھی۔ کبھی کبھی میاں تجمل بڑی حسرت سے کہتے کہ یار، یہ لوگ کتنے لکی ہیں، ان کے بزرگ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا نابینا ہیں۔

بات یہ ہے کہ وہ زمانہ اور تھا۔ نئی پود پر جوانی آتی تو بزرگ نسل دوانی ہو جاتی تھی۔ سارے شہر کے لوگ ایک دوسرے کے چال چلن پر پہرہ دینا اپنا فرض سمجھتے تھے :

ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

بزرگ قدم قدم پر ہماری ناقابلِ استعمال جوانی کی چوکیداری کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہماری لغزشوں اور غلطیوں کو پکڑنے کے لیے اپنا بڑھاپا چوکنے وکٹ کیپر کر طرح حالتِ رکوع میں گزار دیتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو ہم جوان کاہے کو ہوئے تھے۔

صاحب، اپنی تو ساری جوانی دوانی ڈنڈ پیلنے اور بھینس کا دودھ پینے میں ہی گزر گئی۔ اب اسے دوانہ پن نہیں تو اور کیا کہیں؟۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
کھلی آنکھوں سے گانا سننے والے​

میرے والد، اللہ بخشے، تھیٹر اور گانے کے رسیا تھے۔ ایسے ویسے، جب موج میں ہوتے اور بیٹھک میں ہارمونیم بجاتے تو رستہ چلتے لوگ کھڑے ہو جاتے۔ بجاتے میں آنکھیں بند رکھتے۔ اس زمانے میں باذوق سننے والے بھی گانا سنتے وقت آنکھیں بند ہی رکھتے تھے تا کہ توجہ صرف سُر پر مرکوز رہے۔ البتہ طوائف کا گانا کھلی آنکھوں سے سننا جائز تھا۔ استاد بندو خان کی طرح والد کے منھ سے کبھی کبھی بے اختیار گانے کا بول نکل جاتا جو کانوں کو بھلا لگتا تھا۔ ویسے باقاعدہ گاتے بھی تھے۔ مگر صرف اس کے سامنے جو خود بھی گاتا ہو۔ یہ اس زمانے کے شرفا کا دستور تھا۔ شاہد احمد دہلوی بھی یہی کرتے تھے۔ آپ نے تو والد کا بالکل آخری زمانہ دیکھا جب وہ صاحب۔ فراش ہو چکے تھے۔ جوانی میں ہیرا بائی کے گانے کے دلدادہ تھے۔ دادر کنٹھیا تھی، یعنی دوسروں میں قیامت ڈھاتی تھی۔ بیشتر مجرئی، میرا مطلب ہے بیٹھ کر گاتی تھی۔ سو میل کے دائرے میں کہیں اس کا گانا ہو، وہ سارا کام دھندا چھوڑ کر پہنچ جاتے۔ اتفاقاً کسی محفل میں نہ پہنچ پائیں تو وہ خود بھی بے کیف سی رہتی۔ راجستھانی مانڈ اور بھیرو ٹھاٹھ صرف ان ہی کے لیے گاتی تھی۔ دھیوت اور رکھب سُروں کو لگاتے وقت ذرا تھم تھم کے انہیں جھلاتی تو ایک سماں باندھ دیتی۔ جیسی چونچال طبیعت پائی تھی ویسی ہی گائیکی تھی۔ درباری گاتے گاتے کبھی چنچل سُر لگا دیتی تو ساری محفل پھڑک اٹھتی۔ آپ کو تو بخوبی علم ہے۔ والد گھر کے رئیس نہیں تھے۔ عمارتی لکڑی کی چھوٹی سی دکان تھی۔ میری موجودہ دکان کی ایک چوتھائی سمجھیے۔ بس کام چلاؤ۔ لکڑ منڈی میں کسی کی دکان تین دن بند رہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ کسی قریبی رشتے دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ چوتھے دن بند رہنے کا مطلب تھا کہ خود اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن والد صاحب کی دکان سات دن بھی بند رہے تو لوگ فکر مند نہیں ہوتے تھے۔ سمجھ جاتے کہ ہیرا بائی سے اپنے حسنِ سماعت کی داد لینے گئے ہیں۔ تاہم ان کے بندھے ہوئے گاہک لکڑی انھی سے خریدتے تھے۔ ہفتے ہفتے بھر واپسی کا انتظار کرتے۔ بلکہ آخر آخر تو یہ ہوا کہ تین چار گاہکوں کو بھی چاٹ لگا دی۔ وہ بھی ان کی اردلی میں ہیرا بائی کا گانا سننے جانے لگے۔ جب انہیں پوری طرح چسکا لگ گیا تو سواری کا انتظام، سہرا گانے پر بیل اور ہر اچھے شعر پر روپیہ دینے کے فرائض بھی انہیں ہی تفویض کر دیے۔ ہیرا بائی روپیہ اُن سے لیتی، سلام والد کو کرتی تھی۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ان دکھیاروں کو موسیقی کی بھی کچھ سوجھ بوجھ پیدا ہوئی یا نہیں، لیکن آخر میں وہ لکڑی خریدنے کے لائق نہیں رہے تھے۔ ایک نے تو دوالا نکالنے کے بعد ہارمونیم مرمت کرنے کی دکان کھول لی۔ دوسرا اس لائق بھی نہ رہا۔ قرض خواہوں سے آبرو بچا کر بمبئی چلا گیا جہاں بغیر ٹکٹ کے روز تھیٹر دیکھتا اور مختار بیگم اور ماسٹر نثار کا گانا سنتا تھا۔ مطلب یہ کہ تھیٹر میں پردہ کھنچنے کے آنریری فرائض انجام دینے لگا۔ دن میں تُرکی ٹوپی کے پھندنے بیچتا تھا۔ سنا ہے اس زمانے میں داؤد سیٹھ بھی بمبئی میں پھندنے بیچا کرتا تھا۔ حالانکہ اس نے تو ہیرا بائی کا گانا بھی نہیں سنا تھا۔

اور یہ جو آپ ٹھمری، دادرے اور خیال میں ناچیز کا ورک اور شغف دیکھ رہے ہیں، یہ باوا ہی کا فیضان ہے۔ اقبال بانو، ثریا ملتانیکر اور فریدہ خانم اب میری صورت پہچاننے لگی ہیں۔ مگر میاں تجمل کہتے ہیں کہ صورت سے نہیں، تمہارے سفید بالوں سے پہچانتی ہیں۔ ارے صاحب، گزشتہ سال جو ڈانس ٹروپ آیا تھا، اس کے شو میں خدا جھوٹ نہ بلوائے ہزار آدمی تو ہوں گے۔ میاں تجمل کا ٹکٹ بھی مجھی کو خریدنا پڑا۔ تیسرا حج کرنے کے بعد انھوں نے اپنے پیسے سے ناچ گانا اور سینما دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگے “ اس جِمِ غفیر و پرتقصیر میں ایک آدمی بھی تم جیسا نہیں۔“ میں نے شکریہ ادا کیا “ آداب “، بولے “ میرا مطلب ہے تمھاری طرح جھڑوس نہیں۔ ایک آدمی نہیں جس کے تمام بال اور بھویں تک تمہاری طرح سفید ہوں۔ بھائی میرے، یا تو انہیں کالے کر لو یا ڈانس مجرے سے توبہ کر لو۔“ میں نے کہا “ بھائی تجمل، رو سیاہی کے لیے تمھارے ساتھ اس کوچہ ملامت کا طواف میرے لیے کافی ہے۔ میں بیک وقت اپنا منھ اور بال کالے نہیں کرنا چاہتا۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا​

ویسے آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ والد نیک طینت، پابند صوم و صلٰوۃ اور پاکباز آدمی تھے۔ بحمداللہ، ہم سب بھائی بہن پنج وقتہ نمازی ہیں۔ یہ بھی انہی کا فیضان ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا۔ 23-1922ء کا ذکر ہے۔ جب ایک پارسی تھیٹریکل کمپنی پہلے پہل کانپور آئی تو ایک مہینے تک ایک ہی کھیل روزانہ - بلا ناغہ - اس طرح دیکھا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ چند ہی روز میں تھیٹر والوں سے ایسے گھل مل گئے کہ ڈائیلاگ میں تین چار جگہ حسبِ منشا تبدیلی کرائی۔ ایک موقعے پر داغ کے بجائے استاد ذوق کی غزل راگ ایمن کلیان میں گوائی۔ بِبو کو سمجھایا کہ تم ڈائیلاگ کے دوران بیک وقت آنکھیں بھی مٹکاتی ہو اور کمر اور کولھے بھی۔ موقعے کی مناسبت سے تینوں میں سے صرف ایک مہلک ہتھیار کا انتخاب کر لیا کرو۔ دو مرتبہ ہیرو کو سٹیج پر پہننے کے لیے اپنا صاف پاجامہ دیا۔ مینجر کو آگاہ کیا کہ تم نے جس شخص کو لیلٰی کا باپ بنایا ہے، او کی عمر مجنوں سے بھی کم ہے۔ مصنوعی داڑھی کی آڑ میں وہ لیلٰی کو جس نظر سے دیکھتا ہے اسے پدرانہ شفقت ہرگز نہین کہا جا سکتا۔ ایک دن پیٹی ماسٹر دردِ گردہ سے نڈھال ہو گیا تو ہمارے باوا ہارمونیم بجانے بیٹھ گئے۔ عطرِ حنا میں بسا ریشمی رومال سر پر ڈال لیا۔ اور فرض کر لیا کہ کوئی نہیں پہچانے گا۔ سرخی مائل سپید رنگ، سپید چمکدار دانت، پتلے ہونٹ، کم ہنستے تھے، مگر جب ہنستے تو رخساروں پر سرخی اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے۔ ہر لباس ان پر پھبتا تھا۔ چنانچہ شیریں بات تو فرہاد سے کرتی، لیکن نظریں ہمارے باوا پر ہی جمائے رکھتی تھی۔

تھیٹر سے ان کا یہ شغف والدہ کو شاق گزرتا تھا۔ ہم بہن بھائی سیانے ہو گئے تو ایک دن والدہ نے ان سے کہا کہ “ اب تو یہ شوق چھوڑ دیجیئے۔ اولاد جوان ہو گئی ہے۔“ کہنے لگے “ بیگم، تم بھی کمال کرتی ہو، جوان وہ ہوئے ہیں اور نیک چلنی کی تلقین مجھے کر رہی ہو۔“

انہیں یہ شوق جنون کی حد تک تھا۔ آغا حشرکاشمیری کو شیکسپیئر سے بڑا ڈراما نگار سمجھتے تھے۔ اس موازنے میں دانستہ ڈنڈی مارنے یا تعصب کو ذرا دخل نہ تھا۔ انہوں نے سرے سے شیکسپیئر کو پڑھا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ اپنے دوست پنڈت سورج نرائن شاستری سے اس بات پر لڑ مرے کہ داغ دہلوی کالی داس سے بڑا شاعر ہے۔ دورانِ موازنہ، دلیل میں زور پیدا کرنے کے لیے انہوں نے کالی داس کو ایک ناقابل بیان گالی بھی دی جس کا پنڈت جی پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ اور انہوں نے (پنڈت جی نے) نواب ساہل دہلوی جانشینِ داغ تک کو کالی داس سے بڑا تسلیم کرنے کے لیے از خود آمادگی ظاہر کی۔ جس دن آغا حشرکاشمیری کے انتقال کی خبر آئی تو والد کی جیبی گھڑی میں صبح کے دس بج رہے تھے۔ دکان پر خریداروں کا ہجوم تھا، مگر اسی وقت دکان میں تالا ڈال کے گھر آ گئے۔ دن بھر منھ اوندھے پڑے رہے۔ پنڈت جی پرسا دینے آئے تو چادر سے منھ نکال کے بار بار پوچھتے پنڈت جی مختار بیگم (جو آغا حشر کی منظور نظر مغنیہ تھیں) کا کیا بنے گا؟ پہاڑ سی جوانی کیسے کٹے گی؟ آخر کے تیئں پنڈت جی نے جواب دیا، خاں صاحب (وہ والد کو نہ جانے کیوں ہمیشہ خاں صاحب ہی کہتے تھے) ہر پہاڑ کو کوئی نہ کوئی تیشہ بردار فرہاد مل جاتا ہے۔ کلا کا سہاگ بھی کبھی اجڑا ہے؟ اس کی مانگ تو سدا سیندور اور ستاروں سے بھری رہے گی۔ والد جیسے ہی صبح گھر میں غم زدہ اور دل گرفتہ داخل ہوئے، برآمدے کی چقیں ڈال دیں اور والدہ سے کہا “ بیگم ہم لُٹ گئے۔ آج گھر میں چولہا نہیں جلے گا۔“ سرِ شام ہی قلاقند کھا کے سو گئے۔

پنڈت جی موسیقی سے قطعاً نابلد تھے۔ لیکن بلا کے ادا شناس اور اتنے ہی غمگسار۔ دوسرے دن صبح تڑکے والد صاحب سے بھی زیادہ دل گرفتہ اور غم زدہ صورت بنائے، آہیں بھرتے آئے۔ شیو بھی بڑھا ہوا تھا۔ گھر سے حلوہ پوری اور کاشی پھل کی ترکاری بنوا کر لائے تھے۔ والد کو ناشتہ کروایا۔ ہمیں تو اندیشہ ہو چلا تھا کہ والد کے ڈر کے مارے پنڈت جی کہیں بھدرا (ہندو رسم کے مطابق قریبی عزیز کے کریا کرم کے بعد سر کے بال، بھویں، داڑھی اور مونچھ منڈانا) نہ کروا لیں۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
آسمان سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا​

معاف کیجیئے، یہ قصہ شاید میں پہلے بھی سنا چکا ہوں۔ آپ بور تو نہیں ہو رہے؟ ہر بار تفصلات میں کچھ فرق آ جائے تو حافظے کا قصور ہے۔ غلط بیانی مقصود نہیں۔ باوا سے کبھی ہم ناٹک دیکھنے کی فرمائش کرتے تو وہ منیجر کو رقعہ لکھ دیتے کہ بچوں کو بھیج رہا ہوں۔ اگلی سیٹوں پر جگہ دیجیئے۔ بعد کو تو میں خود ہی رقعہ لکھ کے باوا کے دستخط بنا دیتا تھا۔ یہ بات ان کے علم میں تھی۔ اس لیے کہ ایک دن جھنجھلا کر کہنے لگے “ جعلی دستخط بناتے ہو تو بناؤ، کم از کم املا کی غلطیوں سے تو مجھے رسوا نہ کرو۔ صحیح لفظ “ براہِ کرم“ ہے “برائے کرم“ نہیں۔ ہمیشہ میٹنی شو میں بھیجتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ میٹنی شو میں کھیل کا مخرب اخلاق اثر، ٹکٹ کی قیمت کی طرح آدھا رہ جاتا ہے۔ سب مجھے بچہ سمجھتے تھے، مگر اندر قیامت کی کھدبد مچی تھی۔ منی بائی جب سٹیج پر گاتی تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ یہ وہ داغ والی منی بائی حجاب نہیں۔ جس پر انہوں نے پوری مثنوی لکھ ڈالی۔ غضب کی آواز، بلا کی خوبصورت، پلک جھپکنے، سانس بھی لینے کو جی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے بھی خلل واقع ہوتا تھا۔ کیا شعر ہے وہ اچھا سا؟ “وہ مخاطب بھی ہیں، قریب بھی ہیں۔“ آپ کو تو یاد ہو گا۔

(لقمہ) ان کو دیکھوں کہ ان سے بات کروں

شکریہ، صاحب، حافظہ بالکل چوپٹ ہو گیا ہے۔ محفل میں اول تو شعر یاد نہیں آتا۔ اور آ بھی جائے تو پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بالکل بے محل تھا۔ جیسا کہ اس وقت ہوا۔ دونی خفت ہوتی ہے۔ اس وقت دراصل “ نظارے کو یہ جنبشِ مژگاں بھی بار ہے“ والا شعر پڑھنا چاہتا تھا۔ خیر، پھر کبھی۔ اس دن آپ نے برے تجربے کی بات کہی کہ بچپن کے بعد صرف ایک مصرعے پر قناعت کرنی چاہیے۔ تو صاحب جس وقت منی بائی استاد داغ کی غزل گاتی تو نہ اسے ہوش رہتا، نہ سننے والوں کو :

اک جوش تھا کہ محوِ تماشائے جوش تھا

مانا کہ داغ بحثیت عاشق، نرا رند شاہد باز ہے اور اس کا معشوق زنِ بازاری۔ لیکن پیرایہ اظہار بازاری نہیں۔ زبان جمنا میں دھلی قلعہ معلی کی ہے۔ محاورہ اور روز مرہ داغ کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مگر غضب یہ کیا کہ بچھانے کی چیز کو اوڑھ کر بستر صلائے عام پر دراز ہو گئے۔ حضرتِ داغ جہاں لیٹ گئے لیٹ گئے۔ بقول آپ کے مرزا عبدالودود بیگ کے، کلامِ داغ آسمانِ فصاحت سے اُترا، کوٹھے پہ اٹکا۔ وہاں سے پھسلا تو کولھے پہ آ کے مٹکا۔ لیکن فراق گورکھپوری کی سراسر زیادتی ہے کہ “ اس شخص نے حرمزدگی کو genius کا مقام عطا کر دیا۔“ آپ نے تو خیر وہ زمانہ نہیں دیکھا، مگر آج بھی - کسی بھی محفلِ موسیقی میں - داغ کی غزل پِٹ نہیں سکتی۔ دیکھنے والوں نے داغ کی مقبولیت کا وہ زمانہ دیکھا ہے جب مولانا عبدالسلام نیازی جیسے عالمِ بے بدل کو شاعری کا شوق چرایا تو داغ کے شاگرد ہو گئے۔ عقیدت کا یہ عالم کہ کوئی استاد کو شعر پڑھتا تو سبحان اللہ کہہ کر وہیں سجدے میں چلے جاتے، تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ “ زہرِ عشق“ میں منی بائی نے داغ کی پانچ غزلیں گائیں۔ پانچوں لاجواب اور پانچوں کی پانچ بے محل۔ صاحب، سن 47ء کے بعد رنڈیاں تو ایسی گئیں جیسے کسی نے لوکا لگا دیا ہو۔ اب ویسی شائستہ طوائفیں کہاں۔ مگر یہ بھی صحیح ہے کہ اب ویسے قدرداں بھی نہیں رہے۔ نہ وہ غزنوی میں مذاق - الخ - ارے صاحب، آپ سے اس کم بخت الخ کا مطلب پوچھا تھا۔ آج تک بتا کے نہ دیا۔ اور یہ جو آپ کہتے ہیں کہ آپ کو فارسی بالکل نہیں آتی، تو یہ واقع میں سچ ہے یا محض رسمی کسرِ نفسی؟

آبِ گُم - شہر دو قصہ
چاندی کا کُشتہ اور چنیوٹ کی چلم​

خوب یاد آیا۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے، میاں نذیر احمد، چنیوٹ برادری سے تعلق تھا۔ چمڑے کے کاروبار کے سلسلے میں اکثر بمبئی جاتے رہتے تھے۔ وہاں ریس کا چسکا لگ گیا۔ گھوڑوں سے جو کمائی بچ رہتی، اس میں غریبامئو گزر بسر کرتے۔ گلنار طوائف کے ساتھ دو بول پڑھوا لیے تھے۔ حجِ بیت اللہ کے بعد خود تائب ہوئی سو ہوئی، میاں نذیر احمد کو بھی بہت سی علتوں سے توبہ کروا دی۔ اور ان کے دن بھی پھر گئے۔ وہ جو ادھیڑ عمر میں طوائفوں کی صورت پ پھٹکار برسنے لگتی ہے اور آواز پھٹا بانس ہو جاتی ہے وہ کیفیت قطعی نہیں تھی۔ میلاد شریف خوب پڑھتی تھی۔ آواز میں غضب کا سوز تھا۔ جب سفید دوپٹے سے سر ڈھانکے لہک لہک کر جامی کی نعت یا انیس کا مرثیہ پڑھتی تو لحن میں ہزار حلاوتیں، ہزار عقیدتیں گھول دیتی۔ ہم چھپ چھپ کر سنتے۔ محرم میں کالے کپڑے اس پر کھلتے تھے۔ پاکستان آ گئی تھی۔ برنس روڈ پر ادیب سہارنپوری کے فلیٹ سے ذرا دور چھوٹا سا تین کمروں کا فلیٹ تھا۔ میاں صاحب جاڑوں میں بھی ململ کا کرتا پہنتے اور صبح ٹھنڈے یخ پانی سے غسل کر کے لسی پیتے تھے۔ مشہور تھا کہ فوری طاقت کے ہوکے میں ڈھیر سارا رُوپ رس یعنی چاندی کا ادھ کچا کشتہ کھا بیٹھے تھے۔ گلنار کی چھوٹی بہنیں منی اور چنی بھی آفت کی پرکالہ تھیں۔ آپ نے بھی تو ایک دفعہ کسی چھوٹی الائچی اور بڑی الائچی کا ذکر کیا تھا۔ بس کچھ ویسا ہی نقشہ تھا۔ افسوس اب کھانوں میں بڑی الائچی کا استعمال ختم ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کی مہک، اس کا ذائقہ ہی اور ہے۔ آپ تو خیر بڑی الائچی سے چڑتے ہیں۔ مجھے تو کسی طرف سے بھی کروچ جیسی نہیں لگتی۔ تو صاحب منی بیگم کا چہرہ اور بھرے بھرے بازو کچھ ایسے تھے کہ کچھ بھی پہن لے، ننگی ننگی سی لگتی تھی۔ یو نو واٹ آئی مین، چنی بیگم فارسی غزلیں خوب گاتی تھی۔ لوگ بار بار فرمائش کرتے۔ وہ بھی عموماً بیٹھ کر گاتی تھی۔ کبھی داد کم ملتی یا یوں ہی ترنگ آتی تو یکایک اٹھ کھڑی ہوتی۔ دونوں سارنگیئے اور طبلچی (اس زمانے میں سارنگی اور طبلہ بجانے والے کو سارنگیا اور طبلچی کہتے تھے۔ یعنی طبلہ بجانا ہی کہا جاتا تھا۔ طبلہ بجانے والا اپنے ہنر سے شرمندہ نہیں تھا۔ طبلے کو “ نوازنے “ اور طبلہ نواز کہلانے کی ضرورت ابھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔) بھی اپنے اپنے زرین پٹکے کس لیتے اور استادہ ہو کر سنگت کرتے۔ محفل میں دو تین چکر رقصاں لگاتی۔ پھر قلبِ بساط پر کھڑے ہو کر ایک ہی جگہ پھرکی کی مانند تیزی سے گھومنے لگتی۔ زردوزی کی لشکارا مارتی پشواز ہر چکر کے بعد اونچی اٹھتے اٹھتے تابہ کمر پہنچ جاتی۔ یوں لگتا جیسے جگنوؤں کا ایک ہالہ رقص میں ہے۔ لے اور گردش تیز، اور تیز ہوتی، کرن سے کرن میں آگ لگتی چلی جاتی۔ پھر ناچنے والی نظر نہ آتی۔ صرف ناچ نظر آتا تھا۔

کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہ پُر پیچ و تاب​

اور جب یکایک رکتی تو پشواز سڈول ٹانگوں پر امربیل کی طرح ترچھی لپٹتی چلی جاتی۔ سازندے ہانپنے لگتے اور کھرن (وہ سیاہ حلقہ جو طبلے پر ہوتا ہے) پر طبلچی کی تناتی ہوئی انگلیوں سے لگتا خون اب ٹپکا کہ اب ٹپکا۔

دیکھیے میں پھر بھٹک کر اسی لعنت مارے بازار میں جا نکلا۔ آپ نے نوٹس لینے بند کر دیئے۔ بور ہو گئے؟ یا میں واقعات کو دہرا رہا ہوں؟ وعدہ ہے، اب کسی طوائف کو، خواہ وہ کتنی ہی آفتِ جاں کیوں نہ ہو، اپنے اور آپ کے درمیان حائل نہ ہونے دوں گا۔ صاحب، ہماری تو باتیں ہی باتیں ہیں۔

باتیں ہماری یاد رہیں، پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا​

پرسوں آپ لندن چلے جائیں گے۔ میر ہی نے بےثباتی پر اپنے ایک شعر میں مجمعِ یاران کو “ مجلسِ رواں“ کہا ہے کہ یہاں ہر یار سفری اور ہر صحبت گزراں ہے۔ تو صاحب، ذکر میاں نذیر احمد کا ہو رہا تھا۔ میاں صاحب کانپور کے 104 ڈگری ٹمپریچر سے گھبرا کر مئی کا مہینہ بڑی پابندی سے چنیوٹ کی 104 ڈگری میں گزارتے تھے۔ ان کا دعوٰی تھا کہ چنیوٹ کی لُو کانپور کی لُو سے بہتر ہوتی ہے۔ ہم لوگ آپس میں شیکسپیئر کے گیت کی درگت بناتے تھے :


میاں صاحب اکثر فرماتے کہ قدرت کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ چنیوٹ کی گرمی میں سال بھر کے جمع شدہ فاسد خیالات پسینے کی راہ خارج ہو جاتے ہیں۔ روزے کبھی ریس اور بیماری کی حالت میں بھی نہیں چھوڑے۔ مئی جون میں بھی ایک ڈلی لاہوری نمک کی چاٹ کر حقے کے معدے تک اُتر جانے والے کش سے افطار کرتے۔ پہلے تین چار مرتبہ یوں ہی امتحاناً گڑگڑاتے۔ جیسے سنگت کرنے سے پہلے ستار بجانے والے مضراب سے تاروں کی کساوٹ کو اور طبلچی ہتھوڑی سے طبلے کے رگ پٹھوں کو ٹھونک بجا کے ٹیسٹ کرتا ہے۔ پھر ایک ہی سسکی بھرے کش میں سارے تمباکو کا انس (ست - جان) نکال لیتے۔ بلکہ اپنی جان سے بھی گزر جاتے۔ س س س سوع سوع، سو سو وووو۔۔۔ ووو، ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے، تھنڈے پسینے آنے لگتے، پُتلیاں اُوپر چڑھ جاتیں۔ پہلے بے ست، پھر بے سدھ ہو کر وہیں کے وہیں پڑے رہ جاتے۔ گلنار انہیں شربت انار پلا کر نماز کے لیے کھڑا کرتی۔ حقے کی نے پر چنبیلی کے ہار اور نیچہ پر خس لپٹی ہوتی۔ تمباکو تیز اور کڑوا، بے پناہ پسند کرتے تھے۔ قوام لکھنؤ سے منگواتے۔ چاندی کے منھال دلی کے ایک سادہ کار سے گھڑوائی تھی۔ مٹی کی چلم اور توا ( مٹی کو گول ٹکیا جو تمباکو اور انگاروں کے درمیان رکھتے ہیں) ہمیشہ چنیوٹ سے آتا تھا۔ فرماتے تھے بادشاہو، اس مٹی کی خوشبو الگ سے آتی ہے۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
لاہور میں آج بسنت ہے​


میاں نذیر احمد شنکرات کے دن کڑکڑاتے جاڑے میں ململ کا کُرتا پہنے ننگے سر چھت پر پتنگ ضرور اڑاتے۔ یہ بھی ان کا بھولپن ہی تھا کہ ململ کے کُرتے کو جوانی کا سرٹیفکیٹ اور اشتہار سمجھ کر پہنتے تھے۔ ہم تین چار لڑکے چوری چھپے ان کی خوشبودار مرواریدی معجونیں فقط مٹھاس کے لالچ میں کھاتے، مگر دل ہی دل میں ان کے معجزانہ اثرات کے ہفتوں منتظر رہتے۔ میاں صاحب لحاف صرف اس وقت اوڑھتے جب بلبلا کے جاڑے سے بخار چڑھتا۔ یو پی کے جاڑے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ حقارت سے کہتے “ بادشاہو، یہ بھی کوئی سردی ہے۔“ دراصل لاہور کے جاڑے کے بعد وہ صرف ملیریا کے جاڑے کے قائل تھے۔ آپ کے مرزا عبد الودود بیگ بھی تو یہی الزام لگاتے ہیں نا، کہ یو پی کے کلچر میں جاڑے کو رج کے celebrate کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ جب کہ پنجاب میں گرمی کے اس طرح چونچلے اور غمزے نہیں اٹھائے جاتے جس طرح یو پی میں۔ صاحب، یو پی میں جاڑے اور پنجاب میں گرمی کو محض سالانہ سزا کے طور پر برداشت کیا جاتا ہے۔ کم و بیش اسی نوع کا فرق برسات میں نظر آتا ہے۔ پنجاب میں بارش کو فقط اس لیے انگیز کرتے ہیں کہ اس کے بغیر فصلیں نہیں اُگ سکتیں۔ جب کہ یو پی میں ساون کا واحد مقصد و مصرف یہ نظر آتا ہے کہ کڑھائی چڑھے گی۔ درختوں پر آم اور جھولے لٹکیں گے۔ اور جھولوں میں کنواریاں بالیاں۔ پنجاب میں درختوں پر آم یا کچھ اور لٹکنے کی ایسی خوشی صرف طوطوں کو ہوتی ہے۔

اور انگلینڈ میں بارش کا فائدہ جو سال کے 345 دن ہوتی ہے (بقیہ بیس دن برفباری ہوتی ہے) آپ یہ بتاتے ہیں کہ اس سے شائستگی اور خوش اخلاقی فروغ پاتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو گالیاں انگریز بصورتِ دیگر ایک دوسرے کو دیتے وہ اب موسم کو دیتے ہیں۔

شنکرات کے دن میاں نذیر احمد پیچ ویچ تو کیا خاک لڑاتے، بس چھ سات پتنگیں کٹوا اور ڈور لٹوا کر اپنا - اور اپنے سے زیادہ دوسروں کا - جی خوش کر لیتے تھے۔ ہر پتنگ کٹوانے کے بعد لاہور کے مانجھے کو بے تحاشا یاد کرتے۔ ارے صاحب، پتنگ کٹتی نہیں تو اور کیا۔ پیچ کانپور میں لڑاتے اور قصے لاہور کے بسنت کے رنگ رنگیلے آسمان کے سناتے جاتے۔ نظر بھی خاصی کمزور ہو چلی تھی۔ لیکن عینک صرف نوٹ گننے اور مچھلی کھاتے وقت طوعاً و کرعاً لگا لیتے تھے۔ عینک نہ لگانے کا ایک ضمنی نتیجہ یہ نکلتا کہ جس پتنگ کو وہ حریف کی پتنگ سمجھ کر بے تحاشا “ کھینچ“ کرتے، وہ دراصل ان کی اپنی ہی پتنگ نکلتی جو چند لمحوں بعد پہلے ہی مخالف رگڑے سے کٹ کر ہوا میں لالچی کی نیت کی طرح ڈانواں ڈول ہونے لگتی۔ ڈور یکایک لجلجی پڑ جاتی تو انہیں پتہ چلتا کہ کٹی پتنگ تیری، ڈور اب سمیٹا کر۔ میاں صاحب اکثر فرماتے کہ پتنگ اور کنکوے بنانے میں تو بے شک لکھنؤ والوں کا جواب نہیں، لیکن بادشاہو، ہوا لاہور ہی کی بہتر ہے۔ سچ پوچھو تو پتنگ لاہور ہی کی ہوا میں پیٹا چھوڑے (جھول کھائے) بغیر ڈور پہ ڈور پیتی اور زور دکھاتی ہے۔ پتنگ کے رنگ اور مانجھے کے جوہر تو لاہور ہی کے آسمان میں کھلتے اور نکھرتے ہیں۔ کانپور میں “ وہ کاٹا “ اس طرح کہتے ہیں جیسے معذرت، بلکہ تعزیت کر رہے ہوں۔ لاہور کے “ بو کاٹا “ میں پچھڑے ہوئے پہلوان کی چھاتی پر چڑھے ہوئے پہلوان کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔ بلکہ پسینے میں شرابور جسم سے چمٹی ہوئی اکھاڑے کی مٹی تک نظر آتی ہے۔

میاں صاحب کی چرخی لاہور ہی کے ایک زندہ دل پکڑتے جو حلیم کالج کانپور میں لیکچرار تھے۔ عبدالقادر نام تھا۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ دونوں مل کر پتنگ کو مبالغے کا مانجھا اور یادوں کی الجھی سلجھی تل چانولی (دو رنگی) ڈور ایسی پلاتے کہ چرخیاں کی چرخیاں خالی ہو جاتیں اور پتنگ آسمان پہ تارا ہو کے لاہور کی چوبرجی پہ جا نکلتی، جس نے ان کے وہ دن دیکھے تھے جب کوئی شے سادہ و بےرنگ نظر نہیں آتی :

غبار گلگوں ہے، آب رنگیں، زمیں ہے سرخ اور ہوا شہابی​
(ہوا شفق پوش، باغ و صحرا محیط ہے رنگِ لالہ و گل۔ (سراج اورنگ آبادی) اس پر مرزا کہتے ہیں کہ نوجوانی میں زیبرا بھی ملٹی کلرڈ دکھائی دیتا ہے۔)

آبِ گُم - شہر دو قصہ
خواب نیم روز​
اب یہ چڑھی پتنگ جو کچھ راوی پار دیکھتی، اس کا حال کچھ ان دونوں زندہ دلانِ لاہور کی، کچھ بشارت اور رہا سہا اس عاجز داستاں و پاستان طراز کی زبانی سنیے :

لاہور میں آج بسنت ہے۔ آیا بسنت پالا اُڑنت۔ جاتی رُت نے عجب سماں باندھا ہے۔ بسنتی لباس اور رخساروں پر اُترتے جاڑے کی سرخی غضب ڈھا رہی ہے۔ کھیتوں میں چار سُو سرسوں پھولی ہے۔ گلاب اور دیر سے کھلنے والے گل داؤدی کی اپنی الگ بہار ہے۔ سرسوں، پتنگ، تتلی، پیرہن، پھول، رخسار --- ایک گلستاں نظر آتا ہے گلستاں کے قریب۔

ہاں، لاہور میں آج بسنت ہے۔ رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں۔ بسنت اور برسات میں لاہور کا آسمان آپ کو کبھی بے رنگ، اکتایا ہوا اور نچلا نظر نہیں آئے گا۔ لاڈلے بچے کی طرح چیخ چیخ کے ہمہ وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ کہ ادھر دیکھو۔ اس وقت مجھے ایک اور شوخی سوجھی ہے۔ کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ کبھی تاروں بھرا - بچوں کی آنکھوں کی مانند جگمگ جگمگ۔ کبھی نوری فاصلوں پر کہکشاں کی افشاں- اور کبھی اودی گھٹاؤں سے زرتار باراں۔ کبھی تانبے کی طرح تپتے تپتے ایکا ایکی امرت برسانے لگا اور خشک کھیتوں اور اداس آنکھوں کو جل تھل کر گیا۔ ابھی کچھ تھا، ابھی کچھ ہے۔ گھڑی بھر کو قرار نہیں۔ کبھی مہرباں، کبھی قہرِ بداماں۔ پل میں اگن کنڈ، پل میں نیل جھیل۔ ذرا دیر پہلے تھل، ہیہڑ، صحراؤں کا غبار اٹھائے، لال پیلی آندھیوں سے بھرا بیٹھا تھا۔ پھر آپی آپ دھرتی کے گلے میں بانہیں ڈال کے کھل گیا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ سمندر جھاگ بادلوں کے بجرے پگھلے نیلم میں پھر تیرنے لگے۔ کل شام ڈھلے جب شفق پھولی تو یوں لگا جیسے زمین اور آسمان کا وہ ملگجا سا سنگم جو دہکتے سورج کو نگل گیا، اب سدا یوں ہی تمتماتا رہے گا۔ پھر گرم ہوا ایکا ایکی تھم گئی۔ ساری فضا ایسے دم سادھے کھڑی تھی کہ پتا نہیں ہلتا تھا۔ دیکھتے دیکھتے بادل گِھر آئے۔ اور پچھلے پہر تک بجلی کے ترشول آسماں پر لپکتے، لہراتے رہے۔ پر آج سہ پہر نہ جانے کیا دل میں آئی کہ اچانک ایسا مور پنکھی نیلا ہوا کہ دیکھے سے رنگ چھوٹے۔ پہر رات گئے تک اپنی شفاف نیلاہٹیں راوی کی چاندنی میں گھولتا رہا۔

لاہور کے آسمان سے زیادہ خوب صورت اور زیادہ خوش رنگ و شوخ ادا تو صرف ایک چیز ہے۔ وہ ہے لاہور کی گل زمین۔ چار سو برس پہلے بھی یہ زمین فلک رنگ ایسی ہی تھی۔ جبھی تو نور جہاں نے کہا تھا :

لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم جنتِ دیگر خریدہ ایم​
سو نور جہاں نے تو جان کے عوض جنتِ لاہور میں دو گز زمین خرید لی۔ مگر زندہ دلانِ لاہور نے اس جاندادہ ہوائے لاہور کو یاد رکھنے کی طرح یاد نہ رکھا۔ نور جہاں کے قطعہ جنت میں اب ابابیلوں کا بسیرا ہے۔

لیکن صاحبو، دھنک کے اس پار وہ خوابوں کا شہر تو اب شہر دو قصہ ہو گیا اور اس کی تلاش میں جو شہزادہ چوتھی کھونٹ نکل گیا تھا وہ کبھی کا دو لخت ہوا۔ اب یہ بستی اور، زمین اور ہے۔ یہ ہرکس و ناکس پر گئے دنوں کے رُوپ سروپ کے بھید بھاؤ اور لبھاؤ نہیں کھولتی۔ انہیں دیکھنے کے لیے پیری کی آنکھ اور بچپن کی رنگین دوربین (Kaleidoscope اسے بچپن کی حیرت بین یا دھنک درشن کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس میں کانچ کے رنگ برنگے ٹکڑے ہوتے ہیں جو ہر جنبش کے ساتھ طرح طرح کے رنگ، شکلیں اور پیٹرن اختیار کرتے چلے جاتے ہیں) چاہیے۔ یہ ہوں تو پھر ہر شہر، شہر دو قصہ دکھلائی دیتا ہے۔

خواب نیم روز ختم ہوا۔ اب بقیہ کہانی بشارت کی زبانی انھی کے داستاں در داستاں انداز میں سنیے۔ طول دینا ہی مزہ ہے قصہ کوتاہ کا۔ جہاں تک قلم اور یادداشت ساتھ دے گی، ہم ان کا مخصوص محاورہ اور لہجہ - اور لہجے کی للک اور لٹک - جوں کی توں برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایک دفعہ کہانی شروع کر دیں تو ان کا جملہ معترضہ اور غیر متعلق جزئیات بھی الگ اپنی کہانی سنانے لگتے ہیں۔ ہنکارا بھرنے کی مہلت بھی نہیں دیتے۔ مرزا ایسے شکنجے میں جکڑے جانے کو کہانی کاٹھ کہتے ہیں۔ کولرج کے Ancient Mariner نے جب اپنی آسیبی کہانی شروع کی تو شادی کے جشن اور دعوت میں جانے والا مہمان ایسا مسحور ہوا کہ شادی وادی سب بھول گیا۔ مبہوت کھڑا سنتا رہا۔ بس کچھ ایسا ہی احوال ہمارا بھی ہوا :


آبِ گُم - شہر دو قصہ
میں ابنِ بطوطہ، میرا لکھا مخطوطہ​

تو صاحب، میاں نذیر احمد کا مکان بھی دیکھنے گیا۔ کیسی کیسی یادیں وابستہ ہیں، اس مکان سے، مگر اب پہچانا نہیں جاتا۔ خاصی فیس “لفٹنگ“ ہوئی ہے۔ تین ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ برآمدے میں ایک سن رسیدہ سردار جی کنگھا ہاتھ میں پکڑے جوڑا باندھ رہے تھے۔ صرف یہی ایسا مکان ہے جو پہلے سے بہتر حالت میں نظر آیا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا اور غایتِ آمد بیان کی تو خوشی خوشی اندر لے گئے۔ بڑی خاطریں کیں۔ دیر تک اپنی جنم بھوم گوجرانوالہ کا حال احوال پوچھتے رہے۔ میں گھڑ گھڑ کے سناتا رہا۔ اور کیا کرتا؟ ایک سال پہلے منی بس میں گوجرانوالہ سے گزرا تھا۔ اس ایک اسٹیپ شاٹ کو انلارج کر کے اردو کا بیسٹ سیلر سفر نامہ بنا دیا۔ خیر، آپ تو ایسے سفر نامے چٹخارے لے کر پڑھتے ہیں۔ یہ تو مانا کہ بقول آتش :

سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے​

لیکن اس سفر نویسوں کی رال سے رقم کی ہوئی داستانوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ بس آدمی ایک دفعہ اپنی منکوحہ س پنڈ چھڑا کے گھر سے نکل پرے، پھر عیش ہی عیش ہیں۔ قدم قدم پہ شجر سایہ دار، ہر شجر میں ہزارہا شاخیں اور ہر شاخ پر چار چار عفیفائیں اس انتظار میں لٹکی پڑ رہی ہیں کہ جیسے ہی ڈان جوآن نیچے سے گزرے اس کی جھولی میں ٹپک پڑیں :

ہزار بازنِ امیدوار راہ میں ہے​

گویا دیس دیس اور شہر شہر ہی نہیں، بلکہ “ خانہ بخانہ، در بدر، کوچہ بہ کوچہ، کو بہ کو“ اس نا سفر جنسی فتوحات کی Odyssey بن جاتا ہے، جس میں مسافر ہر روز ہر عورت کو جو اس کا راستہ کاٹے اس کے کیفر (بد) کردار تک - یعنی اپنی آغوش تک - پہنچا کر دم لیتا ہے۔

روز اک تازہ سراپا نئی تفصیل کے ساتھ​

پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ایم اے، ہر صفحے پر اسٹرپ ٹیز کرتی ہوئی ان مخدراتِ عصمت آیات کے تذکرے کو ہرزہ سرائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہرزن سرائی کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ آپ نے بہت اچھا کیا، اپنے پندرہ بیس ملکوں اور ایک ہزار صفحوں پر محیط سفر نامے کے نوٹ اپنے سرد خانے بلکہ مسترد خانے میں ڈال دیے۔ ارے صاحب، عجب ہوا چلی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدتے ہی، خواہ وہ دبئی اور سری لنکا ہی کا کیوں نہ ہو، ہر ادیب اپنے آپ کو ابنِ بطوطہ، اپنی تحریر کو مخطوطہ اور حسینوں سے اپنے خیالی مکالمے کو “ ملفوظہ“ سمجھنے لگتا ہے۔ مجھے آپ کی اس تجویز سے اتفاق ہے کہ جہاں حکومتِ پاکستان پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے یہ حلف نامہ لیتی ہے کہ درخواست دہندہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کاذب نبی سمجھتا ہے، وہاں ادیبوں سے ایک اور حلف نامہ بلکہ مچلکہ لینا چاہیے کہ واپس آ کر سفر نامہ نہیں لکھیں گے اور خود پر بدچلنی کے الزام نہیں لگائیں گے۔

آبِ گُم - شہر دو قصہ
گوجرانوالہ، گوجرانوالہ ہے​

سردار جی کرید کرید کے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے اور میں بڑے وثوق سے گوجرانوالہ کا جھوٹا سچا حال سناتا رہا۔ انہوں نے آواز دے دے کے اپنے بیٹوں، پوتوں اور بہوؤں کو بلایا کہ “ ادھر آؤ - بشارت جی کو سلام کرو۔ یہ نومبر میں اپنے گوجرانوالہ ہو کے آئے ہیں۔“ ادھر میری یہ مصیبت کہ میں نے لاہور کے علاوہ پنجاب کا صرف ایک قصبہ یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ قریب سے دیکھا ہے۔ وہاں میرا ایک خورد، اکھن خالہ کا پوتا، ایگری کلچرل بینک میں تین مہینے کی ملازمت کے بعد گیارہ مہینے سے معطل پڑا تھا۔ بس اسی قصبے کے جغرافیے پر گوجرانوالہ کو قیاس کر کے ان کی تشنگی رفع کرتا رہا۔ حیرت اس پر ہوئی کہ سردار جی میری فرضی تفصیلات سے نہ صرف مطمئن ہوئے، بلکہ ایک ایک کی تصدیق کی۔ میں نے اس نہر کی موجودہ حالت کا بھی خیالی نقشہ کھینچ دیا جس میں سردار جی پُل پر سے چھلانگ لگا کے کنواری بھینسوں کے ساتھ تیرا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ضمنی سوال کے جواب میں یہ بھی اقرار کیا کہ پُل کی دائیں طرف کنال کے ڈھلوان پر جس “ ٹاہلی تھلے “ وہ اپنی ہرکولیز سائیکل اور کپڑے اتار کر رکھتے تھے وہ جگہ میں نے دیکھی ہے۔ یہاں سے ایک مرتبہ چور ان کے کپڑے اٹھا کے لے گیا مگر سائیکل چھوڑ گیا۔ اس واقعے کے بعد سردار جی نے بہ نظر احتیاط سائیکل لانے چھوڑ دی۔ میں نے جب یہ ٹکڑا لگایا کہ وہ شیشم اب بالکل سوکھ گیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ بوڑھے تنے پر نیلامی آرا چل جائے تو سردار جی پر رقت طاری ہو گئی۔ حالانکہ ان کا اپنا حال اس شیشم سے کچھ بہتر نہ تھا۔ ان کی منجھلی بہو نے جو بہت شوخ اور خوش شکل تھی مجھ سے کہا کہ “ بابو جی کو ابھی پچھلے مہینے ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ آپ انہیں مت رلائیں، انکل۔“ اس کا انکل کہنا مجھے ذرا اچھا نہیں لگا۔ اور یہ تو مجھے آپ ہی سے معلوم ہوا کہ نہر میں بھینس نہیں تیر سکتی، خواہ وہ کنواری ہی کیوں نہ ہو۔

سردار جی میری کسی بات یا شوخ فقرے پر خوش ہوتے تو میرے زانو پر زور زور سے ہاتھ مارتے اور اندر سے لسی کا ایک گلاس اور منگوا کر پلاتے۔ تیسرے گلاس کے بعد میں نے ٹائلٹ کا پتا پوچھا۔ اپنے زانو کو ان کے دستِ ستائش کی زد سے بچایا اور گفتگو میں حد درجہ احتیاط برتنی شروع کر دی کہ کہیں بے دھیانی میں کوئی شگفتہ فقرہ منھ سے نہ نکل جائے۔ سردار جی کہنے لگے کہ “ ادھر اپنا ٹرانسپورٹ کا بڑا شاندار بزنس ہے۔ سارا ہندوستان گھوما ہوں۔ پر گوجرانوالہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں کی مکئی اور سرسوں کے ساگ میں وہ سواد وہ سگندھ نہیں۔ اور گُڑ تو بالکل پھیکا پھوک ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہاں کے پانی میں پانی بہت ہے۔ جب کے گوجرانوالہ کے پانی میں شراب کی تاثیر ہے۔ اس سے ان کی مراد تھی، پانی میں طاقت ہے۔ وہ ہر مفیدِ صحت چیز کر شراب سے تشبیہ دیتے تھے۔ رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتکلف فرمائیے۔ بولے “ تو پھر کسی آتے جاتے کے ہاتھ لاہوری نمک کے تین چار بڑے سے ڈلے بھیج دینا۔“ ان کی تمنا تھی کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ اپنے بیٹوں، پوتوں کو ساتھ لے کر گوجرانوالہ جائیں اور اپنے مڈل سکول کے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو بنوائیں۔ تحفے میں مجھے انڈین raw سلک کا چھوٹا تھان دیا۔ چلنے لگا تو منجھلی بہو نے مجھے آداب کیا۔ اس دفعہ انکل نہیں کہا۔
تحقیق و پیش کش : پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
ڈی لٹ ، پی ایچ ڈی ، ڈی ایس سی ( کووینا، امریکا )
سابق ایجوکیشن ایڈوائزر حکومتِ پاکستان برائے حکموتِ امریکہ
 

پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی: 10 Articles with 35405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.