اب کراچی ایسی جگہ نہیں رہی کہ انسان فارغ وقت میں سکونِ
قلب کے ساتھ کہیں گھوم پھرآئے۔ویسے بھی اقوامِ مغرب نے ہمارے مشغلے اور
فالتو وقت میں شہر میں پھر کر اپنی جان کو داؤ پر لگانے سے بچانے کا انٹر
نیٹ کی صورت میں بہتریں حل فراہم کردیاہے۔ ہم اس سلسلہ میں کفرانِ نعمت کے
اکثر مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ گو کہ استفادہ بھی گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ سچ
پوچھیے تو انٹر نیٹ ہمارا بھی محبوب مشغلہ بنتا جارہاہے لیکن پھولوں اور
پودوں سے پرانی دوستی آڑے آتی رہتی ہے۔ کیونکہ بے وفا نہیں اس لئے اُنہیں
چھوڑ نہیں سکتے اس لئے کہیں سے گھر واپسی میں اگر تھوڑا سا بھی وقت میسر ہو
تو رستہ میں آنے والی کوئی نرسری ہماری مہمانی سے بچ نہیں سکتی۔ شہر کے
مخصوس رستوں سے گزر ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں قائم نرسریوں کے اکثر
مالکان اور مالیوں سے اِک رشتہ سا قائم ہو گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ ہم
خریداری کم اپنے شوقِ دیدار میں ان کے پاس آتے ہیں۔
اپنے شوق اور ان حضرات سے دوستی کا ثمر ہے کہ ہم پودوں کی افزائش، دکھ بھال
اور بیماریوں سے بچاؤں کے تقریبا تمام طریقوں سے واقف ہو چکے ہیں۔آج سوچا
اپنی معلومات کو آپ کے ساتھ بانٹے لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے تمام
قارئین کو پودوں یا ان کی افزائش اور دیکھ بھال کے طریقوںسے کوئی خاص
دلچسپی نہیں ہوگی لیکن ہمیں اس بات کا یقین ضرور ہے کہ جو لوگ ہمیں پڑھتے
ہیں انہیں اپنے قومی مسائل سے دلچسپی ضرور ہوتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ
تحریر ان کے لئےوقت کا ضیاع ہرگز نہیں ہوگی دوسروں سے معذرت اگر وہ ایسا
محسوس کریں۔
پنیری کیا ہوتی ہے؟ جب پودوں کی افزائش درکار ہو جیسا کہ نرسریوں میں ہوتا
ہے۔ وہاں عام خود رو اور بے قیمت پودے نہیں اگائے جاتے وہ تو وہاں بھی خود
ہی اُگ آتے ہیں اور نا پسندیدہ قرار دے کر گوڈی کے عمل سے کھرپی سے اُکھاڑ
دئے جاتے ہیں۔قیمتی پودوں کو اُگانے کے لئے چھوٹے چھوٹے قطعہ اراضی بہت
اچھی طرح نرم مٹی سے تیار کئے جاتے ہیں اور پھر ان میں جراثیم کش، پھپودی
اور خود رو جڑی بوٹیوں کے اگاؤ سے بچاؤ کی ادویات کا استعمال کیا جاتا
ہے۔ان ہودوں کے لئے بہتریں بیجوں کا انتخاب کیا جاتاہے اس مٹی میں بہت
احتیاط کے ساتھ اعلی کھاد صحیح تناسب سے ملائی جاتی ہے۔ مناست دھوپ اور ہوا
کے گزر اور صاف پانی کے صحیح وقت اور صحیح مقدار میں دینے کا خاص خیال رکھا
جاتاہے ۔ ان کو دشمن کیڑوں کے حملے سے بچاؤ کے لئے نہ صرف قیمتی ادویات کا
اسپرے کیا جاتا ہے بلکہ ان کو حفاظتی جالیوں سے ڈھکا بھی جاتا ہے۔ان سب
نخروں اور بے بہا خرچوں کے بعد ننھے پودوں کی فصل یا نسل پھوٹتی ہے اسے
“پنیری“ کہتے ہیں۔ یہ پودے اس وقت تک ہی اس پنیری میں رہتے ہیں جب تک وہ اس
قابل نہیں ہوجاتے کہ دوسرے جگہ منتقل ہونے اور وہاں اپنے بہاریں دکھانے اور
زندگی کے مزے لوٹنے اور دوسروں کا دل لبھانے کے قابل نہ ہوجائیں اس وقت تک
ان کی یہاں بھرپور دیکھ بھال اور خدمت کی جاتی ہے اور پھر وہ وقت آتا ہے جب
ان کو وہاں سے خوبصورت گملوں میں علیلحدہ علیحدہ منتقل کردیاجاتا ہے اور ان
میں سے چند جو کسی وجہ سے کمزور یا ناقص رہ جاتے ہیں یا تو ضائع کردیے جاتے
ہیں یا وہیں چھوڑ دیئے جاتے ہیں اگلی پنیری کے وقت بہر حال ان کو نکلنا ہی
ہوتا ہے۔
گملوں میں منتقل ہونے والے پودے بکاؤ مال بن کے اپنے گاہکوں کا انتظار کرتے
ہیں اور آخر کار اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جاتےہیں۔خریدار تھوڑی سی قیمت
میں انہیں حاصل کرکے ان سے ان کے عرصہ حیات تک بے پناہ فائدے حاصل کرتا
رہتاہے اور نرسری ان کے فوائد سے محروم ہی رہتی ہے۔
نرسری میں ان پنیریوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ میرا ملک بھی غیروں کے لئے ایک
نرسری ہے جہاں ایسے فطعات اراضی موجود ہیں جہاں پنیریاں تیار کی جاتی
ہیں۔میں نے ایک نرسری کے مالک کو جو خاصا پڑھا لکھا اور میرا ہم خیال دوست
ہے اس بات پر راضی کیا کہ وہ ان فطعاتِ اراضی کے نام رکھے جن میں پنیری
اگائی جاتی ہیں اور اس نے میری یہ خواہش بخوشی منظور کرلی۔ اگر اپ پودوں کے
شوقین ہوں یا اتفاقا ہی کسی نرسری میں جانا ہوجائے اور آپ وہاں DMC، SMC،
NED KE، NUST، IBA اور اسی طرح کی خوبصورت تختیاں لگی دیکھیں تو سمجھ جائیے
گا کہ یہ وہی نرسری ہے ۔ |